کیا وہی شخص ہے یہ زرد سے چہرے والا ؟
مسکراتا نہیں رہتا تھا یہ رونے والا ؟
خوش گمانی کے سبھی رنگ اتر جائیں گے
یہ دسمبر ہے خزاں جیسا ،اجڑنے والا
خود سے اب میری ملاقات کہاں ہوتی ہے
پل میسر نہیں شعروں کو ، نکھرنے والا
یہ بھی مجبور سا قیدی ہے کسی پنجرے کا
دل پرندہ نہیں افلاک پہ اڑنے والا
روز ساحل پہ ترا نام لیا کرتی ہوں
کون پانی کے سوا ہے یہاں سننے والا
جانے والے بھی کبھی ساتھ ہوا کرتے تھے
اس نئے سال سے بہتر تھا وہ پچھلے والا
تیری قربت کا فسوں ہے تری صحبت کا اثر
مجھ میں انداز چھلکنے لگا تیرے والا
شہلا خان