- Advertisement -

بے یقینی تبھی ہے وعدے پر

ایک اردو غزل از شہلا خان

بے یقینی تبھی ہے وعدے پر
میرا ایماں نہیں ہے دھوکے پر

یوں معانی سمجھ اذیت کے
اک نظر ڈال مسخ چہرے پر

بدقماشوں کو فکر لاحق ہے
داغ کوئی نہیں دوپٹے پر

ٹوٹ بھی جائے گا تو ناچے گا
ترس آتا ہے اک کھلونے پر

یاد آئیگا، مسکراتے تھے
جب لکیریں پڑیں گی چہرے پر

تحفے میں بددعائیں بھیجوں گی
میں تجھے ہر خوشی کے موقعے پر

موت پر شعر لازمی کہنا
کام آتا ہے اپنے کتبے پر

گرچہ منزل کو چھو کے آئی ہوں
خوش نہیں واپسی کے رستے پر

بندشیں ڈوبنے ابھرنے کی
اتنی پابندیاں جزیرے پر

زندگی کچھ خفا خفا سی ہے
شاعری اوڑھنے بچھونے پر

خود کو کتنی تسلیاں دیں تھیں
جی اچانک اچاٹ ہونے پر

چاہے جتنا بھی ہو خفا مجھ سے
مسکرا دے گا، پھر سے ملنے پر

شہلا خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
یوسف ثانی کا کلونجی سے متعلق کالم