اے قافلۂ شوق مرے دِل سے گزر جا
منزل کی تمّنا لئے منزل سے گزر جا
پروردۂ طوفان ہے تو موجِ محّبت
ساحل بھی جو آجائے تو ساحل سے گزر جا
پھر دیکھ جو ہو کشمکشِ حُسن کا عالم
نیچی کئے نظروں کو مقابل سے گزر جا
دل ڈھونڈھ رہا ہے کوئی جاں سوز تجّلی
اے برقِ نظر سینۂ بسمل سے گزر جا
ہر گوشۂ ہستی ہے ابھی درخورِ تعمیر
اک بار پھر اُجڑی ہوئی بستی سے گزر جا
شکیلؔ بدایونی