- Advertisement -

لیلۃ الصّک

پروین شاکر کی ایک اردو نظم

لیلۃ الصّک

عجب پُراسرار سی فضا تھی
ہَوا میں لوبان و عود عنبر کی آسمانی مہک رچی ہوئی تھی
سپید، مخروطی،مومی شمعیں
عجیب نا قابلِ بیاں مذہبی تیقن سے جل رہی تھیں
کہ جیسے آبی قباؤں میں کچھ اُداس ،معصوم لڑکیاں
دونوں ہاتھ اٹھائے
دُعا میں مصروف ہوں
اور اُن کی چنبیلی سی اُنگلیوں کی لو تھرتھرا رہی ہو!
دریچوں میں ،طاقچوں میں
ننھے چراغ یوں جھلملا رہے تھے
کہ جیسے نو زائیدہ فرشتے
زمین کو دیکھ کر
تعجب سے اپنی پلکیں جھپک رہے ہوں !
کتابِ الہام کی تلاوت
سروشِ جبریل کے تصور کی جیسے تجسیم کر رہی تھی!
میں ہلکے رنگوں کے اک دوپٹے میں اپنی زیبائشیں چھپائے
ترے بہت ہی قریب،
سر کو جھُکائے بیٹھی تھی
اور تو اپنے سادہ ملبوس میں مرے پاس تھا
مگر ہم ،ایک اور دُنیا میں کھو چکے تھے
زمین کی خواہشیں دھنک پر ہی رہ گئی تھیں
وجود،تتلی کے پَر کی صُورت،لطیف ہو کر
ہَوا میں پرواز کر رہا تھا!
ہمیں بزرگوں نے یہ بتایا،کہ آج کی رات
آسمانوں میں زندگی اور موت کے فیصلے بھی انجام پا رہے ہیں
دُعاؤں کی بار یابیوں کا یہی سمے ہے!
سو ہم نے اپنے دیے جلا کر
حیاتِ تازہ کی آرزو کی
محبتوں کی ہمیشگی کی دُعائیں مانگیں !
میں آج اپنے اکیلے گھر میں
ہَوا کے رُخ پر چراغ ہاتھوں میں لے کر بیٹھی
خدا کے اُس فیصلے کا مفہوم سوچتی ہوں
(کہ جس کی تکمیل میں یہ دیکھا
بدن تو زندہ ہے میرا اب تک
مگر مری رُوح مر چکی ہے)
میں آج جا کر سمجھ سکی ہوں
کہ آج سے ایک سال پہلے
ترا جلایا ہُوا دیا جَلد کیوں بُجھا تھا

پروین شاکر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
فہمیدہ ریاض کی ایک اردو نظم