- Advertisement -

ہتّک

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

ہتّک

دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اورلیٹتے ہی سوگئی تھی۔ میونسپل کمیٹی کا داروغۂ صفائی، جسے وہ سیٹھ کے نام سے پکارا کرتی تھی۔ ابھی ابھی اُس کی ہڈّیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چور، گھرواپس گیاتھا—— وہ رات کو یہاں بھی ٹھہر جاتا مگر اُسے اپنی دھرم پتنی کا بہت خیال تھا جو اس سے بے حد پریم کرتی تھی۔
وہ روپے جو اُس نے اپنی جسمانی مشقّت کے بدلے میں اس داروغہ سے وصول کیے تھے، اس کی چُست اور تھوک بھری چولی کے نیچے سے، اوپر کو اُبھرے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی سانس کے اُتار چڑھاؤ سے چاندی کے یہ سکّے کھنکھنانے لگتے اور اُس کی کھنکھناہٹ اس کے دل کی غیرآہنگ دھڑکنوں میں گھُل مل جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ ان سکّوں کی چاندی پگھل کر اس کے دل کے خون میں ٹپک رہی ہے۔
اُس کا سینہ اندر سے تپ رہا تھا۔ یہ گرمی کچھ تواُس برانڈی کے باعث تھی جس کا ادھّا داروغہ اپنے ساتھ لایاتھااور کچھ اُس ’’بیوڑا‘‘ کا نتیجہ تھی جس کا سوڈا ختم ہونے پر دونوں نے پانی ملا کر پیا تھا۔
وہ ساگوان کے لمبے اور چوڑے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ اس کی باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں، پتنگ کی اُس کانپ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں جو اوس میں بھیگ جانے کے باعث پتلے کاغذ سے جُدا ہوجائے——دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت اُبھرا ہُوا تھا جو باربار مونڈنے کے باعث نیلی رنگت اختیار کرگیاتھا، جیسے نُچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکڑا وہاں پر رکھ دیا گیا ہے۔
کمرہ بہت چھوٹا تھا جس میں بے شمار چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ تین چار سوکھے سڑے چپّل، پلنگ کے نیچے پڑے تھے جن کے اوپر منہ رکھ کر ایک خارش زدہ کُتّا سورہاتھا اوروہ نیندمیں کسی غیرمرئی چیز کا منہ چڑا رہاتھا۔ اُس کُتّے کے بال جگہ جگہ سے خارش کے باعث اُڑے ہوئے تھے۔ دور سے اگرکوئی اس کُتے کو دیکھتا توسمجھتا کہ پیر پونچھنے والا پُراناٹاٹ، دوہرا کرکے زمین پر رکھا ہے۔
اس طرف چھوٹے سے دیوار گیر پر سنگار کا سامان رکھاتھا: گالوں پر لگانے کی سرخی، ہونٹوں کی سُرخ بتّی، پائوڈر، کنگھی اور لوہے کے پِن جووہ غالباً اپنے جوڑے میںلگایاکرتی تھی۔ پاس ہی ایک لمبی کھونٹی کے ساتھ سبز توتے کا پنجرہ لٹک رہا تھا جو گردن کو اپنی پیٹھ کے بالوں میں چھپائے سورہاتھا۔ پنجرہ: کچّے امرود کے ٹکڑوں اورسنگترے کے گلے ہوئے چھلکوں سے بھرا ہواتھا۔ اُن بدبودار ٹکڑوں پر چھوٹے چھوٹے کالے رنگ کے مچھّر یاپتنگے اُڑ رہے تھے۔
پلنگ کے پاس ہی بید کی ایک کرسی پڑی تھی جس کی پشت، سرٹیکنے کے باعث بے حد میلی ہورہی تھی۔ اُس کرسی کے دائیں ہاتھ کو ایک خوب صورت تپائی تھی جس پر ہزماسٹرز وائس کا پورٹ ایبل گراموفون پڑا تھا۔ اُس گراموفون پر منڈھے ہوئے کالے کپڑے کی بہت بُری حالت تھی۔ زنگ آلود سوئیاں تپائی کے علاوہ کمرے کے ہر کونے میں بکھری ہوئی تھیں۔ اُس تپائی کے عین اوپر، دیوار پر چارفریم لٹک رہے تھے جن میں مختلف آدمیوں کی تصویریں جڑیں تھیں۔
ان تصویروں سے ذرا ادھرہٹ کر، یعنی دروازے میں داخل ہوتے ہی، بائیں طرف کی دیوار کے کونے میں، گنیش جی کی شوخ رنگ تصویر تھی جو تازہ اورسوکھے ہوئے پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ شاید یہ تصویر کپڑے کے کسی تھان سے اتارکر فریم میں جڑوائی گئی تھی۔ اُس تصویر کے ساتھ چھوٹے سے دیوار گیرپر، جو کہ بے حد چِکنا ہورہاتھا، تیل کی ایک پیالی دھری تھی جو دِیے کو روشن کرنے کے لیے وہاں رکھی گئی تھی۔ پاس ہی دیا پڑا تھا جس کی لَو، ہوا بند ہونے کے باعث، ماتھے کے تلک کے مانند سیدھی کھڑی تھی۔اس دیوار گیر پر دھوپ کی چھوٹی بڑی مروڑیاں بھی پڑی تھیں۔
جب وہ بوہنی کرتی تھی تو دور سے گنیش جی کی اِس مورتی سے روپے چھُوا کر اورپھر اپنے ماتھے کے ساتھ لگاکر، اُنھیں اپنی چولی میں رکھ لیاکرتی تھی۔ اُس کی چھاتیاں چونکہ کافی ابھری ہوئی تھیں، اِس لیے وہ جتنے روپے بھی اپنی چولی میں رکھتی، محفوظ پڑے رہتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی جب مادھوپوٗنے سے چھٹّی لے کر آتا تو اسے اپنے کچھ روپے پلنگ کے پائے کے نیچے اُس چھوٹے سے گڑھے میں چھپاناپڑتے تھے جو اُس نے خاص اِس کام کی غرض سے کھودا تھا۔ مادھو سے روپے محفوظ رکھنے کا یہ طریقہ سوگندھی کورام لال دلّال نے بتایاتھا۔ اُس نے جب یہ سُنا تھا کہ مادھو پوٗنے سے آکر سوگندھی پر دھاوے بولتاہے تو کہاتھا——’’اس سالے کو تو نے کب سے یار بنایا ہے؟—— یہ بڑی انوکھی عاشقی معشوقی ہے!——سالا ایک پیسہ اپنی جیب سے نکالتانہیں اورتیرے ساتھ مزے اُڑاتا رہتاہے۔ مزے الگ رہے تجھ سے کچھ لے بھی مرتاہے—— سوگندھی! مجھے کچھ دال میں کالا کالا نظر آتاہے۔ اس سالے میں کوئی بات ضرور ہے جو تجھے بھاگیا ہے—— سات سال سے یہ دھندا کررہاہوں۔ تم چھوکریوں کی ساری کمزوریاں جانتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر رام لال دلّال نے جو بمبئی شہر کے مختلف حصّوں سے ]میں؟[ دس روپے سے لے کر سوروپے تک والی، ایک سوبیس چھوکریوں کا دھندا کرتاتھا، سوگندھی کو بتایا—— ’’سالی اپنا دھن یوں نہ برباد کر——تیرے انگ پر سے، یہ کپڑے بھی، اتار کرلے جائے گا، وہ تیری ماں کا یار!—— اِس پلنگ کے پائے کے نیچے چھوٹا سا گڑھا کھودکر اُس میں سارے پیسے دبادِیا کر اور جب وہ آیاکرے تواُس سے کہا کر——’تیری جان کی قسم مادھو! آج صبح سے ایک دھیلے کا منہ نہیں دیکھا۔ باہر والے سے کہہ کرایک کوپ چائے اورایک افلاطون بسکٹ تَو منگا، بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں——‘سمجھیں؟ بہت نازک وقت آگیاہے میری جان!——اِس سالی کانگرس نے شراب بندکرکے بازار بالکل مندا کردیاہے۔ پر تجھے توکہیں نہ کہیں سے پینے کو مل ہی جاتی ہے۔ بھگوان قسم! جب تیرے یہاں کبھی رات کی خالی کی ہوئی بوتل دیکھتاہوںاوردارو کی باس سونگھتاہوں توجی چاہتاہے تیری جوٗن میں چلاجائوں۔‘‘
سوگندھی کو اپنے جسم میں سب سے زیادہ اپنا سینہ پسندتھا۔ ایک بارجمنا نے اُس سے کہاتھا: ’’نیچے سے اِن بمب کے گولوں کو باندھ کے رکھاکر، انگیاپہنا کرے گی تواِن کی سختائی ٹھیک رہے گی۔‘‘
سوگندھی یہ سُن کر ہنس دی ۔ ’’جمنا توسب کو اپنے سری کا سمجھتی ہے۔ دس روپے میں لوگ تیری بوٹیاں توڑکر چلے جاتے ہیں تو تو سمجھتی ہے کہ سب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا——کوئی مُوا لگائے تو ایسی ویسی جگہ، ہاتھ—— ارے ہاں! کل کی بات تجھے سنائوں: رام لال رات کے دوبجے ایک پنجابی کو لایا۔ رات کا تیس روپے طے ہوا——جب سونے لگے تو میں نے بتی بجھادی——ارے وہ تو ڈرنے لگا!——سنتی ہوجمنا؟ تیری قسم، اندھیرا ہوتے ہی اُس کا سارا ٹھاٹھ کِرکِرا ہوگیا—— وہ ڈر گیا! میں نے کہا: چلو چلودیر کیوں کرتے ہو! تین بجنے والے ہیں، ابھی دن چڑھ آئے گا—— بولا——روشنی کرو روشنی کرو—— میں نے کہا، یہ روشنی کیاہوا؟——بولا، لائٹ—— لائٹ!—— اُس کی بھنچی ہوئی آواز سُن کر مجھ سے ہنسی نہ رکی۔ ’’بھئی میں تولائٹ نہ کروںگی!‘‘ اوریہ کہہ کرمیں نے اُس کی گوشت بھری ران کی چٹکی لی—— تڑپ کر اُٹھ بیٹھا اور لائٹ اون کردی۔ میں نے جھٹ سے چادر اوڑھ لی، اورکہا: ’’تجھے شرم نہیں آتی مردُوے!‘‘ وہ پلنگ پر آیا تومیں اُٹھی اور لپک کر لائٹ بجھا دی!—— وہ پھرگھبرانے لگا—— تیری قسم! بڑے مزے میں رات کٹی—— کبھی اندھیرا کبھی اُجالا، کبھی اُجالا کبھی اندھیرا——ٹرام کی کھڑکھڑہوئی توپتلون وتلون پہن کر وہ اٹھ بھاگا——سالے نے تیس روپے سٹّے میں جیتے ہوں گے جو یوں مفت دے گیا——جمنا! توبالکل الّھڑ ہے۔ بڑے بڑے گُر یاد ہیں مجھے، اِن لوگوں کے ٹھیک کرنے کے لیے!‘‘
سوگندھی کو واقعی بہت سے گُر یادتھے جو اُس نے اپنی ایک دوسہیلیوں کو بتائے بھی تھے۔ عام طور پر وہ، یہ گُر سب کو بتایا کرتی تھی: ’’اگرآدمی شریف ہو، زیادہ باتیں نہ کرنے والا ہو، تواُس سے خوب شرارتیں کرو، ان گنت باتیں کرو، اُسے چھیڑو، ستائو، اس کے گُدگُدی کرو، اس سے کھیلو—— اگر داڑھی رکھتاہو تواس میں انگلیوں سے کنگھی کرتے کرتے دوچار بال بھی نوچ لو—— پیٹ بڑا ہو تو تھپتھپائو—— اُس کو اتنی مہلت ہی نہ دو کہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے پائے—— وہ خوش خوش چلا جائے گا اور تم بھی بچی رہوگی—— ایسے مرد جو گُپ چُپ رہتے ہیں، بڑے خطرناک ہوتے ہیں بہن—— ہڈی پسلی توڑدیتے ہیں، اگراُن کا داؤ چل جائے!‘‘
سوگندھی اتنی چالاک نہیں تھی، جتنی کہ خود کو ظاہر کرتی تھی۔ اُس کے گاہک بہت کم تھے۔ غایت درجہ جذباتی لڑکی تھی؛ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام گُر جو اسے یادتھے، اس کے دماغ سے پھِسل کر اس کے پیٹ میں آجاتے تھے۔ جس پر ایک بچّہ پیدا ہونے کے باعث کئی لکیریں پڑگئی تھیں—— اُن لکیروں کو پہلی مرتبہ دیکھ کراُسے ایسا لگاتھا کہ اس کے خارش زدہ کُتّے نے اپنے پنجے سے یہ نشان بنادیے ہیں——جب کوئی کُتیا بڑی بے اعتنائی سے اس کے پالتو کُتّے کے پاس سے گزر جاتی تھی تووہ شرمندگی دُور کرنے کے لیے زمین پر اپنے پنجوں سے اِسی قسم کے نشان بنایا کرتا تھا۔
سوگندھی دماغ میں زیادہ رہتی تھی لیکن جوں ہی کوئی نرم ونازک بات، کوئی کومل بول، اُس سے کہتا توجھٹ پگھل کر وہ اپنے جسم کے دوسرے حصّوں میں پھیل جاتی۔ گومرد اور عورت کے جسمانی ملاپ کو اس کا دماغ بالکل فُضول سمجھتا تھا مگر اس کے جسم کے باقی اعضا، سب کے سب، اس کے بہت بُری طرح قائل تھے؛ وہ تھکن چاہتے تھے—— ایسی تھکن جو انھیں جھنجھوڑ کر—— انھیں مارکر، سُلانے پر مجبور کردے—— ایسی نیند جو تھک کر چور چور ہونے کے بعدآئے، کتنی مزے دار ہوتی ہے——وہ بے ہوشی جو مار کھاکر بندبند ڈھیٖلے ]ڈھیلا؟[ہوجانے پر طاری ہوتی ہے، کتنا آنند دیتی ہے!——کبھی ایسا معلوم ہوتاہے کہ تم ہو اور کبھی ایسا معلوم ہوتاہے کہ تم نہیں ہو اور اس ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ تم ہَوا میں بہت اونچی جگہ لٹکی ہوئی ہو۔ اوپرہوا، نیچے ہوا، دائیں ہوا، بائیں ہوا، بس ہوا ہی ہوا! اورپھر اُس ہوا میں دم گھٹنا بھی ایک خاص مزا دیتاہے۔
بچپن میں جب وہ آنکھ مچولی کھیلا کرتی تھی اور اپنی ماں کا بڑا صندوق کھول کر اس میں چھُپ جایاکرتی تھی تو، ناکافی ہوا میں دم گھُٹنے کے ساتھ ساتھ، پکڑے جانے کے خوف سے، وہ تیز دھڑکن جو اس کے دل میں پیدا ہوجایاکرتی تھی، کتنا مزہ دیاکرتی تھی!
سوگندھی چاہتی تھی کہ اپنی ساری زندگی کسی ایسے ہی صندوق میں چھپ کر گزاردے جس کے باہر، ڈھونڈنے والے پھرتے رہیں؛ کبھی کبھی اس کو ڈھونڈنکالیں تاکہ وہ بھی ان کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ یہ زندگی جو وہ پانچ برس سے گزار رہی تھی، آنکھ مچولی ہی توتھی!——کبھی وہ کسی کو ڈھونڈلیتی تھی اورکبھی کوئی اسے ڈھونڈلیتا تھا—— بس یوں ہی اس کا جیون بیت رہاتھا۔ وہ خوش تھی اس لیے کہ اس کو خوش رہنا پڑتا تھا۔ ہر روز رات کو کوئی نہ کوئی مرد اس کے چوڑے ساگوانی پلنگ پر ہوتا تھا اورسوگندھی جس کو مردوں کے ٹھیک کرنے کے لیے بے شمار گُر یادتھے، اِس بات کا بار بار تہیّہ کرنے پر بھی کہ وہ ان مردوں کی کوئی ایسی ویسی بات نہیں مانے گی اوران کے ساتھ بڑے روکھے پن کے ساتھ پیش آئے گی؛ ہمیشہ اپنے جذبات کے دھارے میں بہہ جایا کرتی تھی اورفقط ایک پیاسی عورت رہ جایاکرتی تھی۔
ہر روز رات کو اس کا پرانا یانیا ملاقاتی اس سے کہاکرتا تھا: ’’سوگندھی! میں تجھ سے پریم کرتاہوں۔‘‘ اورسوگندھی یہ جان بوجھ کر کہ وہ جھوٹ بولتاہے، بس موم ہوجاتی تھی اورایسا محسوس کرتی تھی جیسے سچ مُچ اس سے پریم کیا جارہا ہے——پریم——کتنا سندربول ہے! وہ چاہتی تھی، اِس کو پگھلا کر اپنے سارے انگوں پر مل لے، اِس کی مالش کرے تاکہ یہ سارے کاسارا اس کے مساموں میں رچ جائے——یاپھر وہ خود اس کے اندرچلی جائے، سمٹ سمٹاکر اِس کے اندر داخل ہوجائے اوراُوپر سے ڈھکنا بندکردے ]کرلے؟[ کبھی کبھی جب پریم کرنے اور پریم کیے جانے کا جذبہ اُس کے اندر بہت شدّت اختیار کرلیتاتو کئی بار اس کے جی میں آتاکہ اپنے پاس پڑے ہوئے آدمی کو گود میں لے کر تھپتھپاناشروع کردے اور لوریاں دے کر اُسے اپنی گود ہی میں سلادے۔
پریم کرسکنے کی اہلیت اُس کے اندر اِس قدر زیادہ تھی کہ ہر اُس مرد سے جو اُس کے پاس آتا تھا، وہ محبت کرسکتی تھی اورپھر اس کو نباہ بھی سکتی تھی۔ اب تک چارمردوں سے اپناپریم نباہ ہی تورہی تھی جن کی تصویریں اس کے سامنے دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ ہر وقت یہ احساس اس کے دل میں موجود رہتا تھا کہ وہ بہت اچھّی ہے لیکن یہ اچھّا پن مردوں میں کیوں نہیں ہوتا؟ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی—— ایک بار آئینہ دیکھتے ہوئے بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا تھا—— ’’سوگندھی!—— تجھ سے زمانے نے اچھا سلوک نہیں کیا!‘‘
یہ زمانہ، یعنی پانچ برسوں کے دن اوران کی راتیں، اُس کے جیون کے ہر تار کے ساتھ وابستہ تھا۔ گو اس زمانے سے اس کو ]وہ[خوشی نصیب نہیں ہوئی تھی جس کی خواہش اس کے دل میں موجود تھی، تاہم وہ چاہتی تھی کہ یوں ہی اس کے دن بیتتے چلے جائیں۔ اسے کون سے محل کھڑے کرنا تھے جو روپے پیسے کا لالچ کرتی۔ دس روپے اس کا عام نرخ تھا جس میں سے ڈھائی روپے رام لال اپنی دلّالی کے کاٹ لیتاتھا۔ ساڑھے سات روپے اسے روز مل ہی جایا کرتے تھے جو اس کی اکیلی جان کے لیے کافی تھے۔ اورمادھو جب پوٗنے سے، بقول رام لال دلّال، سوگندھی پر دھاوے بولنے کے لیے آتا تھا، تووہ دس پندرہ روپے خراج بھی ادا کرتی تھی۔ یہ خراج صرف اس بات کا تھا کہ سوگندھی کو اُس سے کچھ وہ ہو گیاتھا۔ رام لال دلّال ٹھیک کہتاتھا؛ اُس میں ایسی بات ضرور تھی جو سوگندھی کو بہت بھاگئی تھی۔ اب اس کو چھپانا کیاہے، بتاہی کیوںنہ دیں!—— سوگندھی سے جب مادھو کی پہلی ملاقات ہوئی تو اُس نے کہاتھا: ’’تجھے لاج نہیں آتی اپنا بھائو کرتے! جانتی ہے تومیرے ساتھ کس چیز کا سودا کررہی ہے؟—— اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں؟—— چھی چھی چھی—— دس روپے، اورجیسا کہ توکہتی ہے ڈھائی روپے دلّال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے ناساڑھے سات؟——اب ان ساڑھے سات روپلّیوں پر تومجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اورمیں ایسی چیز لینے آیا ہوں جو میں لے ہی نہیں سکتا—— مجھے عورت چاہیے پر تجھے کیا اِس وقت، اِسی گھڑی مرد چاہیے؟——مجھے تو کوئی عورت بھی بھاجائے گی پر کیا میں تجھے جچتا ہوں؟تیرا میراناتا ہی کیاہے، کچھ بھی نہیں—— بس یہ دس روپے، جن میں سے ڈھائی، دلّالی میں چلے جائیں گے اورباقی اِدھر اُدھر بکھر جائیں گے، تیرے اورمیرے بیچ میں بج رہے ہیں—— توبھی اِن کا بجنا سُن رہی ہے اورمیں بھی۔ تیرا من کچھ اور سوچتا ہے، میرامن کچھ اور——کیوںنہ کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اورمجھے تیری—— پوٗنے میں حوالدار ہوں۔ مہینے میں ایک بار آیاکروں گا، تین چاردن کے لیے——یہ دھندا چھوڑ——میں تجھے خرچ دیاکروں گا——کیا بھاڑا ہے اِس کھولی کا——؟‘‘
مادھونے اوربھی بہت کچھ کہاتھا، جس کا اثر سوگندھی پر اس قدر زیادہ ہواتھا کہ وہ چندلمحات کے لیے خود کو حوالدارنی سمجھنے لگی تھی۔ باتیں کرنے کے بعد مادھونے اُس کے کمرے کی بِکھری ہوئی چیزیں قرینے سے رکھی تھیں اورننگی تصویریں جو سوگندھی نے اپنے سرہانے لٹکارکھی تھیں، بناپوچھے گچھے پھاڑدی تھیں اورکہاتھا: ’’سوگندھی بھئی میں ایسی تصویریں یہاں نہیں رکھنے دوںگا—— اورپانی کا یہ گھڑا——دیکھا کتنا میلا ہے اوریہ—— یہ چیتھڑے——یہ چِندیاں—— اف کتنی بُری باس آتی ہے، اُٹھاکے باہر پھینک اِن کو—— اور تونے اپنے بالوں کا کیا ستیاناس کررکھاہے—— اور——اور——‘‘
تین گھنٹے کی بات چیت کے بعد سوگندھی اورمادھودونوں آپس میں گھُل مل گئے تھے اور سوگندھی کو تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ برسوں سے حوالدار کو جانتی ہے۔ اُس وقت تک کسی نے بھی کمرے میں بدبودار چیتھڑوں، میلے گھڑے اور ننگی تصویروں کی موجودگی کا خیال نہیں کیاتھا اورنہ کبھی کسی نے اس کو یہ محسوس کرنے کا موقع دیاتھاکہ اس کا ایک گھر ہے، جس میں گھریلو پن آسکتاہے۔ لوگ آتے تھے اوربستر تک کی غلاظت کو محسوس کیے بغیر چلے جاتے تھے۔ کوئی سوگندھی سے یہ نہیں کہتا تھا: ’’دیکھ تو آج تیری ناک کتنی لال ہورہی ہے کہیں زکام نہ ہوجائے تجھے——ٹھہر میں تیرے واسطے دوالاتاہوں۔‘‘ مادھو کتنا اچھا تھا۔ اس کی ہر بات باون تولے اور پائورتی ّکی تھی۔ کیا کھری کھری سنائی تھیں اس نے سوگندھی کو—— اسے محسوس ہونے لگا کہ اسے مادھو کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان دونوں کا سمبندھ ہوگیا۔
مہینے میں ایک بارمادھوپوٗنے سے آتا تھا اورواپس جاتے ہوئے ہمیشہ سوگندھی سے کہا کرتا تھا: ’’دیکھ سوگندھی! اگر تونے پھر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی—— اگرتونے ایک بار بھی کسی مرد کو اپنے یہاں ٹھہرا یاتوچٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دوں گا—— دیکھ اِس مہینے کا خرچ میں تجھے پوٗنا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوںگا——ہاں کیابھاڑا ہے اس کھولی کا——؟‘‘
نہ مادھونے کبھی پوٗنا سے خرچ بھیجا تھا اورنہ سوگندھی نے اپنا دھندا بندکیاتھا۔ دونوں اچھی طرح جانتے تھے ]کہ[کیاہورہاہے۔ نہ سوگندھی نے کبھی مادھو سے یہ کہاتھا: ’’تویہ ٹرٹر کیاکرتا ہے، ایک پھوٹی کوڑی بھی دی ہے کبھی تُونے؟‘‘ اورنہ مادھو نے کبھی سوگندھی سے پوچھاتھا: ’’یہ مال تیرے پاس کہاں سے آیاہے جب کہ میں تجھے کچھ دیتا ہی نہیں——!‘‘ دونوں جھوٹے تھے۔ دونوںایک ملمّع کی ہوئی زندگی بسر کررہے تھے—— لیکن سوگندھی خوش تھی۔ جس کو اصل سونا پہننے کو نہ ملے وہ ملمّع کیے ہوئے گہنوں ہی پر راضی ہوجایاکرتا ہے۔
اِس وقت سوگندھی تھکی ماندی سورہی تھی۔ بجلی کا قمقمہ جسے اوف کرنا وہ بھول گئی تھی، اس کے سر کے اوپر لٹک رہاتھا۔ اس کی تیز روشنی اس کی مندی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ٹکرارہی تھی مگر وہ گہری نیند سورہی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی—— رات کے دوبجے یہ کون آیاتھا؟ سوگندھی کے خواب آلود کانوں میں دستک کی آواز بھنبھناہٹ بن کر پہنچی۔ دروازہ جب زورسے کھٹکھٹایاگیاتو چونک کر اُٹھ بیٹھی—— دوملی جلی شرابوں اوردانتوں کی ریخوں میں پھنسے ہوئے مچھلی کے ریزوں نے اس کے منہ کے اندرایسا لعاب پیدا کردیاتھا جو بے حد کسیلا اورلیس دار تھا۔ دھوتی کے پلّوٗ سے اس نے یہ بدبوٗدار لعاب صاف کیا اورآنکھیں ملنے لگی۔ پلنگ پر وہ اکیلی تھی۔ جھک کر اس نے پلنگ کے نیچے دیکھا تواُس کا کتّا سوکھے ہوئے چپّلوں پرمنہ رکھے سورہا تھا اورنیند میں کسی غیرمرئی چیز کا منہ چڑا رہاتھا اور توتا پیٹھ کے بالوں میں سردیے سورہاتھا۔
دروازے پر دستک ہوئی۔ سوگندھی بستر پر سے اٹھی۔ سردرد کے مارے پھٹا جارہا تھا۔ گھڑے سے پانی کا ایک ڈونگا نکال کر اس نے کُلّی کی اور دوسرا ڈونگا غٹاغٹ پی کر اس نے دروازے کا پٹ تھوڑا سا کھُولا اورکہا: ’’رام لال؟‘‘
رام لال جوباہر دستک دیتے دیتے تھک گیاتھا، بھنّا کرکہنے لگا: ’’تجھے سانپ سونگھ گیاتھا یا کیاہوگیاتھا۔ ایک کلاک (گھنٹے) سے باہر کھڑا دروازہ کھٹکھٹارہاہوں۔ کہاں مرگئی تھی——؟‘‘ پھر آواز دباکر اس نے ہولے سے کہا: ’’اندرکوئی ہے تو نہیں؟‘‘
جب سوگندھی نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ تو رام لال کی آواز پھر اونچی ہوگئی: ’’تو دروازہ کیوں نہیں کھولتی——؟ بھئی حد ہوگئی۔ کیانیند پائی ہے۔ یوں ایک چھوکری اُتارنے میں دودوگھنٹے سرکھپاناپڑے تو میں اپنا دھندا کرچکا—— اب تو میرامنہ کیا دیکھتی ہے؟ جھٹ پٹ یہ دھوتی اتارکر وہ پھولوں والی ساڑی پہن، پوڈر ووڈر لگااور چل میرے ساتھ—— باہر موٹر میں ایک سیٹھ بیٹھے تیرا انتظار کررہے ہیں—— چل چل ایک دم جلدی کر۔‘‘
سوگندھی آرام کرسی پر بیٹھ گئی اوررام لال آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگا۔
سوگندھی نے تپائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور بام کی شیشی اٹھاکر اس کا ڈھکنا کھولتے ہوئے کہا: ’’رام لال! آج میرا جی اچھا نہیں۔‘‘
رام لال نے کنگھی دیوار گیر پر رکھ دی اور مڑکر کہا: ’’توپہلے ہی کہہ دیا ہوتا!‘‘
سوگندھی نے ماتھے اورکنپٹیوں پر بام ملتے ہوئے، رام لال کی غلط فہمی دُور کردی: ’’وہ بات نہیں رام لال——ایسے ہی میرا جی اچھانہیں——بہت پی گئی۔‘‘
رام لال کے منہ میں پانی بھرآیا: ’’تھوڑی بچی ہوتو، لا——ذرا ہم بھی منہ کا مزا ٹھیک کرلیں۔‘‘
سوگندھی نے بام کی شیشی تپائی پر رکھ دی اورکہا: ’’بچائی ہوتی تویہ مُوا سرمیں درد ہی کیوں ہوتا——دیکھ رام لال! وہ جو باہر موٹر میں بیٹھا ہے اُسے اندر ہی لے آ۔‘‘
رام لال نے جواب دیا: ’’نہیں بھئی، وہ اندرنہیں آسکتے جنٹل مین آدمی ہیں، وہ تو موٹر کو گلی کے باہر کھڑی کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے—— توکپڑے وپڑے پہن لے اور ذرا گلی کی نُکّڑ تک چل—— سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
ساڑھے سات روپے کا سودا، سوگندھی اِس حالت میں جب کہ اُس کے سر میںشدّت کا درد ہورہاتھا، کبھی قبول نہ کرتی مگراسے روپوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے ساتھ والی کھولی میں ایک مدراسی عورت رہتی تھی جس کا خاوند موٹر کے نیچے آکر مرگیاتھا۔ اُس عورت کو اپنی جوان لڑکی سمیت اپنے وطن جانا تھا لیکن اس کے پاس چونکہ کرایہ ہی نہیں تھا اس لیے وہ کس مپُرسی کی حالت میں پڑی تھی۔ سوگندھی نے کل ہی اس کو ڈھارس دی تھی اور اس سے کہاتھا: ’’بہن تو چنتا نہ کر۔ میرا مرد پوٗنے سے آنے ہی والاہے۔ میں اس سے کچھ روپے لے کر تیرے جانے کا بندوبست کردوںگی۔‘‘ مادھو پوٗنا سے آنے والا تھا مگرروپوں کا بندوبست توسوگندھی ہی کو کرناتھا۔ چنانچہ وہ اُٹھی اور جلدی جلدی کپڑے تبدیل کرنے لگی۔ پانچ منٹوں میں اس نے دھوتی اُتار کر پھولوں والی ساڑی پہنی اور گالوں پر سرخی پوڈر لگاکر تیار ہوگئی۔ گھڑے کے ٹھنڈے پانی کا ایک اور ڈونگا پیا اوررام لال کے ساتھ ہولی۔
گلی جو کہ چھوٹے شہروں کے بازار سے بھی کچھ بڑی تھی، بالکل خاموش تھی۔ گیس کے وہ لیمپ جو کھمبوں پر جڑے تھے، پہلے کی نسبت بہت دھندلی روشنی دے رہے تھے۔ جنگ کے باعث ان کے شیشوں کو گدلا کردیاگیاتھا۔اس اندھی روشنی میں گلی کے آخری سرے پر ایک موٹر نظر آرہی تھی۔
کمزور روشنی میں اُس سیاہ رنگ کی موٹر کا سایہ سا نظر آنا اوررات کے پچھلے پہر کی بھیدوں بھری خاموشی—— سوگندھی کوایسا لگا کہ اس کے سر کا درد فضا پر بھی چھاگیا ہے۔ ایک کسیلاپن اُسے ہوا کے اندربھی محسوس ہوتا تھا جیسے برانڈی اور بیوڑا کی باس سے وہ بھی بوجھل ہورہی ہے۔
آگے بڑھ کر رام لال نے موٹر کے اندربیٹھے ہوئے آدمیوں سے کچھ کہا۔ اتنے میں جب سوگندھی موٹر کے پاس پہنچ گئی تورام لال نے ایک طرف ہٹ کر کہا: ’’لیجیے وہ آگئی—— بڑی اچھی چھوکری ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں اِسے دھندا شروع کیے۔‘‘ پھر سوگندھی سے مخاطب ہوکر کہا: ’’سوگندھی! اِدھر آ، سیٹھ جی بلاتے ہیں۔‘‘
سوگندھی، ساڑی کا ایک کنارہ اپنی انگلی پر لپیٹتی ہوئی، آگے بڑھی اورموٹر کے دروازے کے پاس کھڑی ہوگئی۔ سیٹھ صاحب نے بیٹری اس کے چہرے کے پاس روشن کی۔ ایک لمحے کے لیے اُس روشنی نے سوگندھی کی خمار آلود آنکھوں میں چکاچوند پیدا کی۔ بٹن دبانے کی آواز پیدا ہوئی اورروشنی بُجھ گئی۔ ساتھ ہی سیٹھ کے منہ سے ’’اونہہ!‘‘ نکلا۔ پھر ایک دم موٹر کا انجن پھڑپھڑایا اورکار، یہ جا، وہ جا——
سوگندھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موٹرچل دی۔ اس کی آنکھوں میں ابھی تک بیٹری کی تیز روشنی گھُسی ہوئی تھی۔ وہ ٹھیک طرح سے سیٹھ کا چہرہ بھی تونہ دیکھ سکی تھی۔ یہ آخر ہوا کیاتھا۔ اُس ’’اونہہ‘‘ کا کیا مطلب تھا جو ابھی تک اس کے کانوں میں بھنبھنارہی تھی۔ کیا؟——کیا؟
رام لال دلّال کی آواز سنائی دی: ’’پسندنہیں کیا تجھے!—— اچھا بھئی میں چلتا ہوں۔ دوگھنٹے مفت ہی میں برباد کیے۔‘‘
یہ سُن کر سوگندھی کی ٹانگوں میں، اس کی بانہوںمیں، اس کے ہاتھوں میں؛ ایک زبردست حرکت پیدا ہوئی—— کہاں ہے وہ موٹر——کہاں ہے وہ سیٹھ——تو ’’اونہہ‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اُس نے مجھے پسندنہیں کیا——اُس کی۔۔۔
گالی اس کے پیٹ کے اندر سے اُٹھی اور زبان کی نوک پر آکر رُک گئی۔ وہ آخر گالی کسے دیتی۔ موٹر تو جاچکی تھی۔ اُس کی دُم کی سرخ بتّی اس کے سامنے بازار کے اندھیارے میں ڈُوب رہی تھی اورسوگندھی کو ایسا محسوس ہورہاتھا کہ یہ لال لال انگارہ ’’اونہہ‘‘ ہے جو اُس کے سینے میں برمے کی طرح اُترا چلا جارہاہے۔ اس کے جی میں آئی کہ زور سے پکارے: ’’اوسیٹھ—— اوسیٹھ—— ذرا موٹر روکنا اپنی——بس ایک منٹ کے لیے۔‘‘ پر وہ سیٹھ، تھُڑی ہے اُس کی ذات پر، بہت دُور نکل چکا تھا۔
وہ سنسان بازار میں کھڑی تھی۔ پھولوں والی ساڑی جووہ خاص خاص موقعوں پر پہنا کرتی تھی، رات کے پچھلے پہر کی ہلکی پھلکی ہوا سے لہرا رہی تھی۔ یہ ساڑی اوراس کی ریشمیں سرسراہٹ، سوگندھی کو کتنی بُری معلوم ہورہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس ساڑی کے چیتھڑے اڑادے کیونکہ ساڑی ہوا میں لہرا لہرا کر ’’اونہہ اونہہ‘‘ کر رہی تھی۔
گالوں پر اُس نے پوڈر لگایاتھا اورہونٹوں پر سرخی۔ جب اسے خیال آیاکہ یہ سنگاراس نے اپنے آپ کو پسند کرانے کے واسطے کیاتھا توشرم کے مارے اُسے پسینہ آگیا۔ یہ شرمندگی دور کرنے کے لیے اس نے کیا کچھ نہ سوچا—— ’’میں نے اُس موئے کو دکھانے کے لیے تھوڑی اپنے آپ کو سجایا تھا، یہ تو میری عادت ہے—— میری کیا سب کی یہی عادت ہے——پر——پر——یہ رات کے دوبجے اور رام لال دلّال اور——یہ بازار—— اور وہ موٹر اوربیٹری کی چمک——‘‘ یہ سوچتے ہی روشنی کے دھبّے اس کی حدِنگاہ تک فضا میں اِدھر اُدھر تیرنے لگے اور موٹر کے انجن کی پھڑپھڑاہٹ اُسے ہوا کے ہرجھونکے میں سنائی دینے لگی۔
اُس کے ماتھے پر بام کا لیپ جو سنگار کرنے کے دوران میں بالکل ہلکا ہوگیاتھا، پسینہ آنے کے باعث اس کے مساموں میں داخل ہونے لگا اور سوگندھی کو اپنا ماتھا، کسی اور کا ماتھا معلوم ہوا۔ جب ہوا کاایک جھونکا اس کے عرق آلود ماتھے کے پاس سے گزرا تواسے ایسا لگا کہ سرد سرد ٹین کا ٹکڑا کاٹ کر اس کے ماتھے کے ساتھ چسپاں کردیاگیا ہے۔ سرمیں درد ویسے کا ویسا موجود تھا مگر خیالات کی بھیڑ بھاڑ اوراُن کے شورنے اس درد کو اپنے نیچے دبارکھاتھا۔ سوگندھی نے کئی بار اس درد کو اپنے خیالات کے نیچے سے نکال کر اوپرلاناچاہا مگرناکام رہی۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اُس کا انگ انگ دُکھنے لگے، اس کے سرمیں درد ہو، اس کی ٹانگوں میں درد ہو، اس کے پیٹ میں درد ہو، اس کی بانہوں میں درد ہو——ایسا درد کہ وہ صرف درد ہی کا خیال کرے اور سب کچھ بھول جائے۔ یہ سوچتے سوچتے اس کے دل میں کچھ ہُوا——کیا یہ دردتھا؟—— ایک لمحے کے لیے اس کا دل سُکڑا اور پھر پھیل گیا—— یہ کیاتھا؟——لعنت!یہ تووہی ’’اونہہ‘‘ تھی جو اس کے دل کے اندر کبھی سکڑتی اور کبھی پھیلتی تھی۔
گھر کی طرف سوگندھی کے قدم اٹھے ہی تھے کہ رُک گئے اور وہ ٹھہر کر سوچنے لگی—— رام لال دلّال کا خیال ہے کہ اُسے میری شکل پسند نہیں آئی—— شکل کا تواُس نے ذکر نہیں کیا۔ اُس نے تویہ کہا تھا: ’’سوگندھی! تجھے پسند نہیں کیا!‘‘ اُسے——اُسے—— صرف میری شکل ہی پسندنہیں آئی——نہیں آئی تو کیاہوا؟——مجھے بھی توکئی آدمیوںکی شکل پسند نہیں آتی—— وہ جو اماوس کی رات کو آیاتھا، کتنی بری صورت تھی اُس کی—— کیا میں نے ناک بھوں نہیں چڑھائی تھی؟ جب وہ میرے ساتھ سونے لگا تھا تومجھے گھن نہیں آئی تھی؟—— کیامجھے ابکائی آتے آتے نہیں رُک گئی تھی؟—— ٹھیک ہے، پر سوگندھی—— تو نے اسے دھتکارانہیں تھا، تونے اس کو ٹھکرایانہیں تھا——اِس موٹر والے سیٹھ نے توتیرے منہ پر تھوکا ہے——اونہہ—— اِس ’’اونہہ‘‘ کا اور مطلب ہی کیا ہے؟—— یہی کہ اِس چھچھوندرکے سرمیں چنبیلی کا تیل—— اونہہ—— یہ منہ اور مسور کی دال—— ارے رام لال! تویہ چھپکلی کہاں سے پکڑ کرلے آیاہے۔ اس لونڈیا کی اتنی تعریف کررہاہے تو۔ دس روپے اوریہ عورت—— خچرّ کیا بُری ہے۔۔۔
سوگندھی سوچ رہی تھی اور اُس کے پیر کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک گرم لہریں دوڑ رہی تھیں۔ اُس کو کبھی اپنے آپ پر غصّہ آتا تھا اورکبھی رام لال دلّال پر جس نے رات کے دوبجے اسے بے آرام کیا۔ لیکن فوراً ہی دونوں کو بے قصورپا کر وہ سیٹھ کا خیال کرتی تھی۔ اس خیال کے آتے ہی اُس کی آنکھیں، اس کے کان، اس کی بانہیں، اس کی ٹانگیں، اس کا سب کچھ؛ مڑتا تھا کہ سیٹھ کو کہیں دیکھ پائے—— اس کے اندر یہ خواہش بڑی شدّت سے پیدا ہورہی تھی کہ جو کچھ ہوچکاہے، ایک بار پھر ہو—— صرف ایک بار—— وہ ہولے ہولے موٹر کی طرف بڑھے، موٹر کے اندر سے ایک ہاتھ، بیٹری نکالے اور اس کے چہرے پر روشنی پھینکے۔ ’’اونہہ‘‘ کی آواز آئے اور وہ—— سوگندھی—— اندھا دھند اپنے دونوں پنجوں سے اُس کا منہ نوچنا شروع کردے۔ وحشی بلّی کی طرح جھپٹے اور——اور اپنی انگلیوں کے سارے ناخن جو اس نے موجودہ فیشن کے مطابق بڑھارکھے تھے، اس سیٹھ کے گالوں میں گاڑدے۔ بالوں سے پکڑ کراسے باہر گھسیٹ لے اور دھڑا دھڑ مُکّے مارنا شروع کردے اور جب تھک جائے——جب تھک جائے تو رونا شروع کردے۔
رونے کا خیال سوگندھی کوصرف اس لیے آیا کہ اس کی آنکھوں میں، غصّے اور بے بسی کی شدّت کے باعث، تین چار بڑے بڑے آنسو بن رہے تھے۔ ایکاایکی سوگندھی نے اپنی آنکھوں سے سوال کیا: ’’تم روتی کیوں ہو؟ تمھیں کیاہوا ہے کہ ٹپکنے لگی ہو؟‘‘——آنکھوں سے کیاہُوا سوال، چند لمحات تک ان آنسوئوں میں تیرتارہا جو اَب پلکوں پر کانپ رہے تھے۔ سوگندھی اُن آنسوئوں میں سے دیر تک اس خلا کو گھُورتی رہی جدھر سیٹھ کی موٹر گئی تھی۔
پھڑپھڑپھڑ—— یہ آواز کہاں سے آئی؟—— سوگندھی نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کسی کو نہ پایا—— ارے!یہ تو اس کا دل پھڑپھڑایاتھا۔ وہ سمجھی تھی موٹر کا انجن بولا ہے—— اس کا دل—— یہ کیا ہوگیا تھا اس کے دل کو!—— آج ہی یہ روگ لگ گیاتھا اِسے—— اچھا بھلا چلتاچلتاایک جگہ رُک کر دھڑدھڑکیوں کرتا تھا——بالکل اُس گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح جو سوئی کے نیچے ایک جگہ آکے رُک جاتا تھا: ’’رات کٹی گِن گِن تارے۔‘‘ کہتا کہتا تارے تارے کی رٹ لگادیتا تھا۔
آسمان تاروں سے اٹا ہواتھا۔ سوگندھی نے ان کی طرف دیکھا اور کہا: ’’کتنے سُندر ہیں——‘‘ وہ چاہتی تھی کہ اپنا دھیان کسی اور طرف پلٹ دے، پر جب اس نے سندر کہا توجھٹ سے یہ خیال اس کے دماغ میں کودا: یہ تارے سندر ہیں، پر تو کتنی بھونڈی ہے——کیابھول گئی کہ ابھی ابھی تیری صورت کوپھٹکارا گیاہے؟
سوگندھی بدصورت تونہیں تھی۔یہ خیال آتے ہی وہ تمام عکس ایک ایک کرکے اُس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگے جو اِن پانچ برسوں کے دوران میں وہ آئینے میں دیکھ چکی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا رنگ روپ اب وہ نہیں رہاتھا جو آج سے پانچ سال پہلے تھا جبکہ وہ تمام فکروں سے آزاد اپنے ماں باپ کے ساتھ رہا کرتی تھی لیکن وہ بدصورت تونہیں ہوگئی تھی۔ اس کی شکل وصورت اُن عام عورتوں کی سی تھی جن کی طرف مرد، گزرتے گزرتے گھُور کے دیکھ لیا کرتے ہیں۔ اس میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو سوگندھی کے خیال میں، ہر مرد اُس عورت میں ضروری سمجھتا ہے جس کے ساتھ اُسے ایک دوراتیں بسر کرنا ہوتی ہیں۔ وہ جوان تھی۔ اس کے اعضا متناسب تھے۔ کبھی کبھی نہاتے وقت جب اس کی نگاہیں اپنی رانوں پر پڑتی تھیں تو وہ خود ان کی گولائی اور گدراہٹ کو پسند کیا کرتی تھی۔ وہ خوش خلق تھی۔ ان پانچ برسوں کے دوران میں شاید ہی کوئی آدمی اس سے ناخوش ہوکر گیاہو۔ بڑی ملنسار تھی، بڑی رحم دل تھی۔ پچھلے دنوں کرسمس میں جب وہ گول پیٹھا میں رہاکرتی تھی، ایک نوجوان لڑکا اس کے پاس آیا تھا۔ صبح اُٹھ کر جب اُس نے دوسرے کمرے میں جاکر کھونٹی سے اپنا کوٹ اُتارا تو بٹوا غائب پایا۔ سوگندھی کا نوکر یہ بٹوا لے اُڑاتھا۔ بے چارہ بہت پریشان ہوا۔ چھٹّیاں گزارنے کے لیے حیدرآباد سے بمبئی آیاتھا، اب اُس کے پاس واپس جانے کے دام نہ تھے۔ سوگندھی نے ترس کھاکر اسے اس کے دس روپے واپس دے دیے تھے—— ’’مجھ میں کیا برائی ہے؟‘‘ سوگندھی نے یہ سوال ہر اُس چیز سے کیا جو اس کی آنکھوں کے سامنے تھی: گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھّر اورسڑک کی اکھڑی ہوئی بجری—— ان سب چیزوں کی طرف اس نے باری باری دیکھا، پھر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں جو اس کے اُوپر جھُکاہوا تھا مگر سوگندھی کو کوئی جواب نہ ملا۔
جواب اُس کے اندر موجودتھا—— وہ جانتی تھی کہ وہ بُری نہیں، اچھّی ہے، پر وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کی تائید کرے—— کوئی—— اِس وقت کوئی اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر صرف اتنا کہ، دے: ’’سوگندھی! کون کہتاہے، تو بُری ہے، جو تجھے بُرا کہے، وہ آپ بُرا ہے——‘‘ نہیں ! یہ کہنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی، کسی کا اتنا کہہ دینا کافی تھا: ’’سوگندھی توبہت اچھّی ہے!‘‘
وہ سوچنے لگی کہ وہ کیوں چاہتی ہے کہ کوئی اس کی تعریف کرے۔ اِس سے پہلے اسے اِس بات کی اتنی شدّت سے ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔ آج کیوں وہ بے جان چیزوں کو بھی ایسی نظروں سے دیکھتی ہے جیسے اُن پر اپنے اچھے ہونے کا احساس طاری کرنا چاہتی ہے۔ اس کے جسم کا ذرّہ ذرّہ کیوں ’’ماں‘‘ بن رہاتھا—— وہ ماں بن کر دھرتی کی ہرشے کو اپنی گودمیں لینے کے لیے کیوں تیار ہورہی تھی؟—— اس کا جی کیوں چاہتا تھا کہ سامنے والے گیس کے آہنی کھمبے کے ساتھ چمٹ جائے اور اس کے سرد لوہے پر اپنے گال رکھ دے—— اپنے گرم گرم گال—— اور اُس کی ساری سردی چوس لے۔
تھوڑی دیر کے لیے اُسے ایسا محسوس ہوا کہ گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھّر اور ہر وہ شے جو رات کے سنّاٹے میں اس کے آس پاس تھی، ہمدردی کی نظروں سے اسے دیکھ رہی ہے اوراس کے اوپر جھُکا ہوا آسمان بھی، جو مٹیالے رنگ کی ایسی موٹی چادر معلوم ہوتا تھا جس میں بے شمار سُوراخ ہورہے ہوں، اس کی باتیں سمجھتا تھا اور سوگندھی کو بھی ایسا لگتا تھا کہ وہ تاروں کا ٹمٹمانا سمجھتی ہے—— لیکن اس کے اندر یہ کیا گڑبڑ تھی؟—— وہ کیوں اپنے اندر اُس موسم کی فضا محسوس کرتی تھی جو بارش سے پہلے دیکھنے میں آیا کرتاہے—— اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کے جسم کا ہرمسام کھُل جائے اور جو کچھ اس کے اندر اُبل رہاہے،اُن کے رستے باہر نکل جائے۔ پر، یہ کیسے ہو——کیسے ہو؟
سوگندھی گلی کے نکّڑ پر خط ڈالنے والے لال بھبکے کے پاس کھڑی تھی—— ہوا کے تیز جھونکے سے اس بھبکے کی آہنی زبان جو اس کے کھلے ہوئے منہ میں لٹکی رہتی ہے، لڑکھڑائی توسوگندھی کی نگاہیں یک بیک اُس طرف اُٹھیں جدھر موٹر گئی تھی مگراسے کچھ نظرنہ آیا—— اسے کتنی زبردست آرزو تھی کہ وہ موٹر پھر ایک بارآئے اور—— اور——
’’نہ آئے——بلاسے——میں اپنی جان کیوں بے کار ہلکان کروں——گھر چلتے ہیں اور آرام سے لمبی تان کرسوتے ہیں۔ ان جھگڑوں میں رکھاہی کیاہے۔ مُفت کی دردسری ہی توہے——چل سوگندھی گھر چل، ٹھنڈے پانی کا ایک ڈونگاپی، اورتھوڑا سابام مل کر سوجا—— فسٹ کلاس نیندآئے گی اورسب ٹھیک ہوجائے گا—— سیٹھ اوراُس موٹر کی ایسی تیسی——‘‘
یہ سوچتے ہوئے سوگندھی کا بوجھ ہلکا ہوگیاجیسے وہ کسی ٹھنڈے تالاب سے نہادھوکر باہر نکلی ہے۔ جس طرح پُوجا کرنے کے بعد اس کا جسم ہلکا ہوجاتاتھا اُسی طرح اب بھی ہلکا ہوگیاتھا۔ گھر کی طرف چلنے لگی توخیالات کا بوجھ نہ ہونے کے باعث اس کے قدم کئی بارلڑکھڑائے۔
اپنے مکان کے پاس پہنچی توایک ٹیس کے ساتھ پھر تمام واقعہ اُس کے دل میں اُٹھا اور درد کی طرح اس کے روئیں روئیں پر چھا گیا—— قدم پھر بوجھل ہوگئے اور وہ اس بات کو شدّت کے ساتھ محسوس کرنے لگی کہ گھر سے بُلاکر، باہر بازارمیں، منہ پر روشنی کا چانٹا مارکر، ایک آدمی نے اس کی ابھی ابھی ہتک کی ہے۔ یہ خیال آیاتو اس نے اپنی پسلیوں پر کسی کے سخت انگوٹھے محسوس کیے جیسے کوئی اسے بھیڑبکری کی طرح دبادباکر دیکھ رہاہے کہ آیا گوشت بھی ہے یا بال ہی بال ہیں—— اس سیٹھ نے——پرماتما کرے۔۔۔ سوگندھی نے چاہا کہ اس کو بددُعا دے مگر سوچا، بددُعا دینے سے کیابنے گا۔ مزا تو جب تھا کہ وہ سامنے ہوتا اور وہ اس کے وجود کے ہرذرّے پر اپنی لعنتیں لکھ دیتی—— اس کے منہ پر کچھ ایسے الفاظ کہتی کہ زندگی بھر بے چین رہتا——کپڑے پھاڑکر اس کے سامنے ننگی ہوجاتی اور کہتی: ’’یہی لینے آیاتھا نا تو؟——لے دام دِیے بنا لے جا اِسے——پرجو کچھ میں ہوں، جو کچھ میرے اندر چھُپا ہواہے، وہ توکیا، تیرا باپ بھی نہیں خریدسکتا——‘‘
انتقام کے نئے نئے طریقے سوگندھی کے ذہن میں آرہے تھے، اگراُس سیٹھ سے ایک بار——صرف ایک بار——اس کی مُڈبھیڑ ہوجائے تو وہ یہ کرے۔ نہیں، یہ نہیں، یہ کرے—— یوں اس سے انتقام لے، نہیں یوںنہیں، یوں——لیکن جب سوگندھی سوچتی کہ سیٹھ سے اس کا دوبارہ ملنا محال ہے تووہ ایک چھوٹی سی گالی دینے ہی پر، خود کو راضی کرلیتی——بس صرف ایک چھوٹی سی گالی، جو اُس کی ناک پر چپکو مکھّی کی طرح بیٹھ جائے اور ہمیشہ وہیں جمی رہے۔
اِسی اُدھیڑبُن میں وہ دوسری منزل پر اپنی کھولی کے پاس پہنچ گئی۔ چولی میں سے چابی نکال کر تالاکھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو چابی ہوا ہی میں گھوم کر رہ گئی۔ کُنڈے میں تالا نہیں تھا۔ سوگندھی نے کواڑ اندر کی طرف دبائے توہلکی سی چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ اندر سے کسی نے کنڈی کھولی اور دروازے نے جمائی لی۔ سوگندھی اندر داخل ہوئی۔
مادھومونچھوں میں ہنسا اور دروازہ بندکرکے سوگندھی سے کہنے لگا: ’’آج تو نے میرا کہا مان ہی لیا—— صبح کی سیر تن درستی کے لیے بڑی اچھی ہوتی ہے۔ ہر روز، اس طرح صبح اُٹھ کر، گھُومنے جایاکرے گی تو تیری ساری سُستی دور ہوجائے گی اوروہ تیری کمر کا درد بھی غائب ہوجائے گا جس کی بابت توآئے دن شکایت کیاکرتی ہے—— وکٹوریہ گارڈن تک تو ہو آئی ہوگی تو؟——کیوں؟‘‘
سوگندھی نے کوئی جواب نہ دیااورنہ مادھونے جواب کی خواہش ظاہر کی۔ دراصل جب مادھوبات کیا کرتا تھا، تو اُس کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھاکہ سوگندھی ضرور اس میں حصّہ لے۔ اور سوگندھی جب کوئی بات کیاکرتی تھی تویہ ضروری نہیں ہوتا تھا کہ مادھو اُس میں حصّہ لے۔ چونکہ کوئی بات کرنا ہوتی تھی، اس لیے وہ کچھ کہہدیاکرتے تھے۔
مادھو بید کی کرسی پر بیٹھ گیا جس کی پشت پر اس کے تیل سے چپڑے ہوئے سرنے میل کا بہت بڑا دھبّا بنارکھاتھا، اورٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اپنی مونچھوں پر اُنگلیاں پھیرنے لگا۔
سوگندھی پلنگ پر بیٹھ گئی اور مادھوسے کہنے لگی: ’’میں آج تیرا انتظار ہی کررہی تھی۔‘‘
مادھو بڑا سٹپٹایا: ’’انتظار؟——تجھے کیسے معلوم ہوا کہ میں آج آنے والا ہوں۔‘‘
سوگندھی کے بھنچے ہوئے لب کھُلے،اُن پر ایک پیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی: ’’میں نے رات تجھے سپنے میں دیکھا تھا—— اُٹھی تو کوئی بھی نہ تھا۔ سو، جی نے کہا چلو کہیں باہر گھُوم آئیں—— اور۔۔۔‘‘
مادھو خوش ہوکر بولا: ’’اورمیں آگیا——بھئی بڑے لوگوں کی باتیں بڑی پکّی ہوتی ہیں۔ کسی نے ٹھیک کہاہے، دل کو دل سے راہ ہے——تونے یہ سپنا کب دیکھا تھا؟‘‘
سوگندھی نے جواب دیا: ’’چاربجے کے قریب۔‘‘
مادھوکرسی پر سے اُٹھ کر سوگندھی کے پاس بیٹھ گیا۔ ’’اورمیں نے تجھے ٹھیک دوبجے سپنے میں دیکھا—— جیسے توپھُولوں والی ساڑی——ارے بالکل یہی ساڑی پہنے، میرے پاس کھڑی ہے۔ تیرے ہاتھوں میں۔۔۔کیاتھا تیرے ہاتھوں میں!——ہاں، تیرے ہاتھوں میں روپوں سے بھری ہوئی تھیلی تھی۔ تونے یہ تھیلی]وہ تھیلی؟[میری جھُولی میں رکھ دی اور کہا: ’’مادھو! توچنتا کیوں کرتاہے؟—— لے یہ تھیلی—— ارے تیرے میرے روپے کیا دوہیں؟‘‘ —— سوگندھی تیری جان کی قسم! فوراً اُٹھا اور ٹکٹ کٹاکر اِدھر کا رخ کیا——کیاسنائوں بڑی پریشانی ہے!——بیٹھے بٹھائے ایک کیس ہوگیاہے۔ اب بیس تیس روپے ہوں تو——انسپکٹر کی مٹھّی گرم کرکے چھٹکارا ملے——تھک تونہیں گئی تو؟ لیٹ جا،میں تیرے پیر دبادوں۔ سیر کی عادت نہ ہو توتھکن ہوہی جایا کرتی ہے—— اِدھر میری طرف پیر کرکے لیٹ جا۔‘‘
سوگندھی لیٹ گئی۔ دونوں بانہوں کا تکیہ بناکروہ اُن پر سر رکھ لیٹ گئی اوراُس لہجے میں جو اُس کا اپنا نہیں تھا، مادھو سے کہنے لگی: ’’مادھو یہ کس موئے نے تجھ پر کیس کیاہے؟——جیل ویل کا ڈر ہو تو مجھ سے کہہدے——بیس تیس کیاسوپچاس بھی ایسے موقعوں پر پولیس کے ہاتھ میں تھمادِیے جائیں توفائدہ اپنا ہی ہے—— جان بچی لاکھوں پائے——بس بس اب جانے دے، تھکن کچھ زیادہ نہیں ہے——مٹھّی چابی چھوڑ اورمجھے ساری بات سُنا——کیس کا نام سُنتے ہی میرا دل دھک دھک کرنے لگا ہے—— واپس کب جائے گاتو؟‘‘
مادھو کو سوگندھی کے منہ سے شراب کی باس آئی۔ اُس نے یہ موقع اچھا سمجھا اور جھٹ سے کہا: ’’دوپہر کی گاڑی سے واپس جانا پڑے گا——اگرشام تک سب انسپکٹر کو سوپچاس نہ تھمائے تو—— زیادہ دینے کی ضرورت نہیں، میں سمجھتاہوں پچاس میں کام چل جائے گا۔‘‘
’’پچاس!‘‘ یہ کہہ کرسوگندھی بڑے آرام سے اُٹھی اور اُن چار تصویروں کے پاس، آہستہ آہستہ گئی جو دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ بائیں طرف سے تیسرے فریم میں مادھو کی تصویر تھی۔ بڑے بڑے پھولوں والے پردے کے آگے، کرسی پر، وہ دونوں رانوں پر اپنے ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میںگلاب کا پھول تھا۔ پاس ہی تپائی پر دوموٹی موٹی کتابیں دھری تھیں۔ تصویراُترواتے وقت، تصویر اُتروانے کا خیال،مادھو پر اس قدرغالب تھاکہ اس کی ہرشے تصویر سے باہر نکل نکل کر گویا پکاررہی تھی: ’’ہمارا فوٹو اُترے گا۔ ہمارا فوٹو اُترے گا!‘‘ کیمرے کی طرف مادھو آنکھیںپھاڑپھاڑ کر دیکھ رہا تھا اورایسا معلوم ہوتا تھا کہ فوٹو اترواتے وقت اسے بہت تکلیف ہورہی تھی۔
سوگندھی کھلکھلاکر ہنس پڑی—— اس کی ہنسی کچھ ایسی تیکھی اور نوکیلی تھی کہ مادھو کے سوئیاں سی چبھیں۔ پلنگ پر سے اٹھ کر وہ سوگندھی کے پاس گیا۔ ’’کس کی تصویر دیکھ کر تواِس قدر زور سے ہنسی ہے؟‘‘
سوگندھی نے بائیں ہاتھ کی پہلی تصویر کی طرف اشارہ کیاجومیونسپلٹی کے داروغۂ صفائی کی تھی۔ ’’اِس کی—— منشی پالٹی کے اس داروغہ کی—— ذرا دیکھ تو اِس کا تھوبڑا——کہتا تھا، ایک رانی مجھ پر عاشق ہوگئی تھی—— اونہہ! یہ منہ اور مسورکی دال۔‘‘ یہ کہہکرسوگندھی نے فریم کو اِس زور سے کھینچاکہ دیوار میں سے کیل بھی پلستر سمیت اُکھڑآئی۔
مادھو کی حیرت ابھی دُورنہ ہوئی تھی کہ سوگندھی نے فریم کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ دومنزلوں سے یہ فریم نیچے زمین پر گرا اور کانچ ٹوٹنے کی جھنکار سنائی دی۔ سوگندھی نے اُس جھنکار کے ساتھ کہا: ’’رانی بھنگن، کچرااٹھانے آئے گی تومیرے اِس راجا کو بھی ساتھ لے جائے گی۔‘‘
ایک بارپھر، اُسی نوکیلی اورتیکھی ہنسی کی پھوار سوگندھی کے ہونٹوں سے گرنا شروع ہوئی جیسے وہ اُن پر چاقو یاچھری کی دھار تیز کررہی ہے۔
مادھو بڑی مشکل سے مسکرایا، پھر ہنسا: ’’ہی ہی ہی۔۔۔‘‘
سوگندھی نے دوسرا فریم بھی نوچ لیا اورکھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ ’’اِس سالے کا یہاں کیا مطلب ہے؟—— بھونڈی شکل کا کوئی آدمی یہاں نہیں رہے گا——کیوں مادھو؟‘‘
مادھو پھر بڑی مشکل سے مسکرایا اور پھر ہنسا: ’’ہی ہی ہی۔۔۔‘‘
ایک ہاتھ سے سوگندھی نے پگڑی والے کی تصویر اُتاری اور دوسرا ہاتھ اُس فریم کی طرف بڑھایا جس میں مادھو کا فوٹوجڑا تھا۔ مادھو اپنی جگہ پر سمٹ گیا جیسے ہاتھ اُس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک سیکنڈ میں، فریم کیل سمیت، سوگندھی کے ہاتھ میں تھا۔
زور کا قہقہہ لگاکر اُس نے ’’اونہہ‘‘ کی اوردونوں فریم ایک ساتھ کھڑکی میں سے باہر پھینک دیے۔ دومنزلوں سے جب فریم زمین پر گرے اورکانچ ٹوٹنے کی آواز آئی تومادھو کو ایسا معلوم ہوا کہ اُس کے اندر کوئی چیزٹوٹ گئی ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے ہنس کر اتنا کہا: ’’اچھا کِیا—— مجھے بھی یہ فوٹو پسندنہیں تھا۔‘‘
آہستہ آہستہ سوگندھی مادھو کے پاس آئی اور کہنے لگی: ’’تجھے یہ فوٹو پسندنہیں تھا——پر میں پوچھتی ہوں، تجھ میں ہے ایسی کون سی چیز، جو کسی کو پسندآسکتی ہے—— یہ تیری پکوڑا ایسی ناک، یہ تیرا بالوں بھرا ماتھا، یہ تیرے سُوجے ہوئے نتھنے، یہ تیرے مُڑے ہوئے کان، یہ تیرے منہ کی باس، یہ تیرے بدن کا میل؟——تجھے اپنا فوٹوپسند نہیں تھا، اونہہ——پسندکیوںہوتا، تیرے عیب جو چھپارکھے تھے اُس نے——آج کل زمانہ ہی ایسا ہے، جو عیب چھُپائے وہی بُرا——‘‘
مادھو پیچھے ہٹتا گیا۔ آخرجب وہ دیوار کے ساتھ لگ گیا تواس نے اپنی آواز میں زور پیدا کرکے کہا: ’’دیکھ سوگندھی! مجھے ایسا دکھائی دیتاہے کہ تو نے پھِرسے اپنا دھندا شروع کردیا ہے—— اب تجھ سے آخری بار کہتاہوں۔۔۔‘‘
سوگندھی نے اِس سے آگے مادھو کے لہجے میں کہناشروع کیا: ’’اگر تونے پھِر سے اپنا دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی۔ اگرتو نے پھر کسی کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیاسے پکڑکر تجھے باہر نکال دوں گا—— اِس مہینے کا خرچ میں تجھے پوٗنا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا—— ہاں کیابھاڑا ہے اِس کھولی کا؟‘‘
مادھو چکراگیا۔
سوگندھی نے کہنا شروع کیا: ’’میں بتاتی ہوں——پندرہ روپیہ بھاڑا ہے اِس کھولی کا—— اور دس روپیہ بھاڑا ہے میرا——اور جیسا تجھے معلوم ہے، ڈھائی روپے دلّال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟ ان ساڑھے سات روپلّیوں میں مَیں نے ایسی چیز دینے کا وچن دیاتھا، جو میں دے ہی نہیں سکتی تھی اور تو ایسی چیز لینے آیا تھا جو تو لے ہی نہیں سکتا تھا—— تیرا میرا ناتا ہی کیاتھا۔ کچھ بھی نہیں۔ بس یہ دس روپے تیرے اورمیرے بیچ میں بج رہے تھے، سوہم دونوں نے مل کر ایسی بات کی کہ تجھے میری ضرورت ہوئی اور مجھے تیری—— پہلے تیرے اورمیرے بیچ میں دس روپے بجتے تھے، آج پچاس بج رہے ہیں۔ توبھی ان کا بجنا سُن رہاہے اور میں بھی اُن کا بجنا سن رہی ہوں—— یہ تونے اپنے بالوں کا کیاستیاناس کررکھاہے؟‘‘
یہ کہہکرسوگندھی نے مادھو کی ٹوپی انگلی سے ایک طرف اڑادی۔ یہ حرکت مادھو کو بہت ناگوار گزری۔ اس نے بڑے کڑے لہجے میں کہا: ’’سوگندھی!‘‘
سوگندھی نے مادھو کی جیب سے رومال نکال کر سونگھا اور زمین پر پھینک دیا۔’’ یہ چیتھڑے، یہ چِندیاں—— اُف کتنی بُری باس آتی ہے، اُٹھاکے باہر پھینک اِن کو۔۔۔ ‘‘
مادھو چلّایا: ’’سوگندھی!‘‘
سوگندھی نے تیز لہجے میں کہا: ’’سوگندھی کے بچّے، توآیا کس لیے ہے، یہاں؟—— تیری ماں رہتی ہے اِس جگہ جو تجھے پچاس روپے دے گی؟ یاتو کوئی ایسا بڑا گبرو جوان ہے جو میں تجھ پر عاشق ہوگئی ہوں——کتّے، کمینے، مجھ پر رعب گانٹھتاہے؟ میں تیری دبیل ہوں کیا؟بھکِ منگے، تو اپنے آپ کو سمجھ کیا بیٹھا ہے؟—— میں پوچھتی ہوں تو ہے کون؟ چوریا گٹھ کُترا؟——اِس وقت تومیرے مکان میں کرنے کیا آیا ہے؟——بلائوں پولیس کو؟——پوٗنے میں تجھ پر کیس ہونہ ہو، یہاں توتجھ پر ایک کیس کھڑا کر]ہی؟[دوں——‘‘
مادھو سہم گیا۔ دبے ہوئے لہجے میں وہ صرف اِس قدر کہہ سکا:’’سوگندھی، تجھے کیا ہوگیا ہے۔‘‘
’’تیری ماں کا سر——تو ہوتا کون ہے مجھ سے ایسے سوال کرنے والا—— بھاگ یہاں سے، ورنہ۔۔۔‘‘ سوگندھی کی بلند آواز سُن کر اُس کا خارش زدہ کتّا جو سوکھے ہوئے چپلوں پر منہ رکھے سورہا تھا، ہڑبڑا کراٹھا اور مادھو کی طرف منہ اُٹھاکر بھونکنا شروع کردیا۔ کتّے کے بھونکنے کے ساتھ ہی سوگندھی زور زور سے ہنسنے لگی۔
مادھو ڈر گیا۔ گری ہوئی ٹوپی اُٹھانے کے لیے وہ جھُکا توسوگندھی کی گرج سنائی دی: ’’خبردار——!پڑی رہنے دے وہیں——توجا! تیرے پوٗنا پہنچتے ہی میںاِس کو منی آرڈر کردوں گی۔‘‘ یہ کہہکروہ اورزور سے ہنسی اورہنستی ہنستی بید کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اُس کے خارش زدہ کتّے نے بھونک بھونک کر مادھو کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ سیڑھیاں اُتارکر، جب کتّا اپنی ٹنڈمنڈ دُم ہلاتا سوگندھی کے پاس واپس آیااوراُس کے قدموں کے پاس بیٹھ کر کان پھڑپھڑانے لگا توسوگندھی چونکی—— اُس نے اپنے چاروں طرف ایک ہول ناک سنّاٹا دیکھا—— ایسا سنّاٹا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھاتھا۔ اُسے ایسا لگاکہ ہر شے خالی ہے—— جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی، سب اسٹیشنوں پر مسافر اتارکر، اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے——یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہوگیا تھا، اُسے بہت تکلیف دے رہاتھا۔ اس نے کافی دیر تک اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ وہ ایک ہی وقت میں بے شمار خیالات اپنے دماغ میں ٹھونستی تھی مگر بالکل چھلنی کا سا حساب تھا؛ اِدھر دماغ کو پُر کرتی تھی، اُدھر وہ خالی ہوجاتا تھا۔
بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اُس کو اپنا دِل پرچانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اُس نے اپنے خارش زدہ کُتّے کوگود میں اٹھایا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر، اُسے پہلو میں لٹاکر، سوگئی۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از احمد ندیم قاسمی