- Advertisement -

کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے

ایک اردو غزل از ادریس بابر

کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے

مرے عزیز کو ہر اک بہانہ آتا ہے

ذرا سا مل کے دکھاؤ کہ ایسے ملتے ہیں

بہت پتا ہے تمہیں چھوڑ جانا آتا ہے

ستارے دیکھ کے جلتے ہیں آنکھیں ملتے ہیں

اک آدمی لئے شمع فسانہ آتا ہے

ابھی جزیرے پہ ہم تم نئے نئے تو ہیں دوست

ڈرو نہیں مجھے سب کچھ بنانا آتا ہے

یہاں چراغ سے آگے چراغ جلتا نہیں

فقط گھرانے کے پیچھے گھرانا آتا ہے

یہ بات چلتی ہے سینہ بہ سینہ چلتی ہے

وہ ساتھ آتا ہے شانہ بہ شانہ آتا ہے

گلاب سنیما سے پہلے چاند باغ کے بعد

اتر پڑوں گا جہاں کارخانہ آتا ہے

یہ کہہ کے اس نے سمسٹر بریک کر ڈالا

سنا تھا آپ کو لکھنا لکھانا آتا ہے

زمانے ہو گئے دریا تو کہہ گیا تھا مجھے

بس ایک موج کو کر کے روانہ آتا ہے

چھلک نہ جائے مرا رنج میری آنکھوں سے

تمہیں تو اپنی خوشی کو چھپانا آنا ہے

وہ روز بھر کے خلائی جہاز اڑاتے پھریں

ہمیں بھی رج کے تمسخر اڑانا آتا ہے

پچاس میل ہے خشکی سے بحریہ ٹاؤن

بس ایک گھنٹے میں اچھا زمانہ آتا ہے

بریک ڈانس سکھایا ہے ناؤ نے دل کو

ہوا کا گیت سمندر کو گانا آتا ہے

مجھے ڈیفینس کی لنگوا‌ فرانکا نئیں آتی

تمہیں تو صدر کا قومی ترانہ آتا ہے

مجھے تو خیر زمیں کی زباں نہیں آتی

تمہیں مریخ کا قومی ترانہ آتا ہے

ادریس بابر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از ادریس بابر