آپ کا سلاماردو افسانےاردو تحاریر

چاند ماموں

افسانہ از اقبال خورشید

”کوئی شے زندگی سے زیادہ حیرت ناک نہیں۔ ماسوائے لکھنے کے۔ ماسوائے لکھنے کے۔ ہاں، بے شک، ماسوائے لکھنے کے۔ یہ اکلوتی ڈھارس ہے۔“
(اورحان پامک کے ناول The Black Book سے)
یہ اُن بیت چکے دنوں کا قصّہ ہے، جب تاروں بھرا آسمان ہمارا تھا۔
ہم چاند کو مٹھی میں بند کرلیتے۔ ہوائیں چکھنے کے لیے چہرہ رضائی سے باہر رکھتے۔ تیرتی تاریکی میں دُور کہیں مونگ پھلی والا آواز لگاتا۔ کتے کچھ دیر بھونک کر چپ ہوجاتے۔ اور کوئی زور سے کھانستا۔
ابھی ہماری گلی میں بجلی نہیں آئی تھی۔ گرمیوں میں چھت ایک نعمت ہوتی۔ زینہ چڑھنے سے قبل ہم بھاپ دیتا دودھ پی لیتے کہ ہماری دادیاں نانیاں توہم پرست تھیں۔ رسوئی میں ہم اُن کے پہلو میں بیٹھ جاتے۔ چولھے کی سُوسُو پر دھری کیتلی میں دودھ ابلا کرتا۔ پیالوں کی تہ میں بہت سی چینی ہوتی۔
صبح اترتے ہی پراٹھوں کی خوش بو تیر جاتی، جنھیں چائے میں ڈبو کر دھیرے دھیرے چبانا اہم ترین سرگرمی تھی۔ انڈے خال خال نصیب ہوتے۔ چچا جام کے ساتھ ناشتہ کرتے۔ موڈ میں ہوتے، تو ایک چمچہ میرے پراٹھے پر انڈیل دیتے۔ بڑے ابو کے کمرے میں دھرا ریڈیو نعتیں نشر کرتا۔ کبھی گانے نشر ہونے لگتے، تو وہ آواز دھیمی کردیتے کہ دادا موسیقی کو حرام سمجھتے تھے۔
تو یہ بیتے ہوئے دنوں کا قصّہ ہے۔
ہم اُس دور سے نکل آئے تھے، جب لوریاں نیند طاری کردیتیں۔ اب ہم کہانیوں میں پناہ ڈھونڈا کرتے۔ نانی آسیبی کہانیاں سناتیں۔ اُن میں چڑیلوں کا تذکرہ ہوتا۔ بزرگ، جو جنات قابو کرلیتے۔ نوجوان، جن پر پریاں عاشق ہوجاتیں۔
دادی انصاف پسند بادشاہوں کی کہانی سناتیں۔ ان میں دانش مند وزیر ہوتے، جن کے مشورے حکم رانوں کی کایا کلپ کردیتے۔ کہانیاں، جن میں فقیر اور شہزادے ایک دوسرے کی جگہ لے لیتے۔ جن میں شہزادیوں کی پرورش غریب گھرانوں میں ہوتی۔ ہاں، ان میں بھی پریاں ہوتیں، مگر ان کی حیثیت ان پریوں سے مختلف ہوتی، جن کی کہانی نانی سنایا کرتی تھیں۔
دادی کی کہانیاں سنتے سنتے ہم نیند میں اتر جاتے۔ پر نانی کی کہانیاں ہمیں جگائے رکھتیں۔ یہ احساس اجاگر کرتیں کہ کمرے کے باہر جو صحن ہے، جس کے کنارے رسوئی ہے، جس کے ساتھ غسل خانہ ہے، وہاں چھائی تاریکی میں کچھ چھپا ہے۔ اور گھر کے باہر، جو درخت ہیں، جن کی ہلتی شاخوں کی آواز یہاں تک سنی جاسکتی ہے، وہاں کسی کا بسیرا ہے۔
کہانیوں کا فرق قابل فہم ہے کہ نانی نان بائی کی بیٹی تھیں، جہاں مافوق الفطرت واقعات حقیقی تصور کیے جاتے۔ دادی نمبر دار کی لڑکی۔ وہ اپنے قصوں میں قدیم الفاظ، جو اب متروک ہوچکے، برت سکتی تھیں۔
جب ہم چھت پر سونے جاتے تو ان کہانیوں میں گم ہوتے۔ چاند مٹھی میں بند کر لیتے۔ دُور کہیں مونگ پھلی والا آواز لگاتا۔ اور پھر کوئی زور سے کھانستا۔
اور میں ببو کو دیکھ کر مسکرانے لگتا۔
وہ توتلی زبان میں کہتا: ”تاند ماموں تی تبیت تھراب ہے۔“ (چاند ماموں کی طبیعت خراب ہے)
ہم ہنسنے لگتے۔
دادی، جو تکیے پر سر رکھے رکھے گھر کے گرد مقدس آیات کا حصار کھینچ چکی ہوتیں، آواز لگاتیں:”کم بخت! اب تلک سوئے نہیں۔“
اور ہم سو جاتے۔ مگر پھر کوئی کھانستا۔ ہم پھر ہنسنے لگتے۔
چاند ماموں ساتھ والے مکان میں رہتے تھے۔ ایک بڑا سا خالی پلاٹ، جس کے گرد بے تربیب چار دیواری۔ ایک جانب چھوٹا سا کمرہ۔ کمرے کے باہر اداس صحن۔ اور صحن میں نیم کا توانا درخت۔ جس کی شاخیں ہماری چھت پر سایہ کرتیں۔ جب خسرہ کی وبا پھیلتی تو چچا چھت پر کھڑے کھڑے نیم کی شاخیں توڑ لیتے۔
اس صحن میں، جس کی مدتوں بعد صفائی ہوتی، خشک ٹہنیاں اور پتے بکھرے رہتے۔ کونے میں غسل خانہ تھا، جسے ہم اپنی چھت پر کھڑے ہو کر دیکھتے تو اتنا ہی غلیظ لگتا، جتنے چاند ماموں تھے۔
ان کے بیوی بچے نہیں تھے۔ رنگت سیاہ۔ ٹانگ میں لنگ۔ بیساکھی ساتھ رکھتے۔ عینک کے عدسے موٹے۔ سر پر گندا سا صافہ بندھا ہوتا۔ کپڑے بوسیدہ اور میلے۔ فقط تہوار پر وہ گہرے رنگ کے، نسبتاً نئے کپڑوں میں نظر آتے۔
اب یاد کرتا ہوں، تو لگتا ہے کہ شاید وہ ساٹھ کے پیٹے میں رہے ہوں۔ پر اس وقت تو لگتا تھا، جیسے وہ ہمیشہ سے ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے کہ اُس وقت ہم موت نامی واقعے سے ناواقف تھے۔
ان کا اکلوتا رشتے دار دو گلیاں چھوڑ کر رہتا تھا۔ لوگ کہتے، بٹوارے کے سمے چاند ماموں کڑیل جوان ہوا کرتے تھے۔ بہت سے ہندوﺅں کو مارا۔ پھر پولیس میں بھرتی ہوگئے۔ ڈاکوﺅں کے ایک گروہ سے صدر کے علاقے میں مڈبھیڑ ہوگئی۔ اسی میں ٹانگ ضایع ہوئی۔ دماغ الٹ گیا۔
وہ اچھے زمانے تھے، لوگ چاند ماموں کے گھر دو وقت کا کھانا بھجوا دیتے۔ شام وہ گلی میں کسی بچے کو دیکھتے، تو آواز لگاتے: ”باجی سے کہو، چاند بھائی چائے مانگ رہے ہیں۔“
پت جھڑ میں، بڑے ابو کے مشورے پر، گھر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں، تو باہر ایک چبوترا بھی بنایا گیا۔ وہ چبوترا میرے بیتے دنوں کی سب سے توانا یاد ہے۔
ایک شام چاند ماموں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ دادا کے سینے کی طرف جھک کر بات کر رہے تھے۔ لوٹنے کے بعد دادا نے بڑے ابو کو کمرے میں بلوایا۔
جلد ہی ہم بچوں نے اندازہ لگا لیا کہ کسی بات پر بحث ہورہی ہے۔ میں نے کھڑکی سے جھانکا۔ دادی، جو پان دان لیے بیٹھی تھیں، غرائیں:”کیا بے شرموں کی طرح سلاخ سے چمٹ رہا ہے۔ تیری ماں کہاں ہے؟“
میں بھاگا بھاگا صحن میں بچھے پلنگ کے نیچے چھپ گئے۔ وہاں چچا بیٹھے تھے۔ انھوں نے پلنگ کے نیچے حرکت کرتے معصوم قہقہوں پر توجہ نہیں دی۔ دھیان دادا کے کمرے سے آتی آوازوں پر مرکوز رکھا۔ جو ذرا بلند ہوتیں، تو رسوئی میں عورتیں مزید تن دہی سے اپنے کام سر انجام دینے لگتیں۔ جب تائی کے چھوٹے لڑکے نے، جس نے زیر جامہ گیلا کر دیا تھا، رونا شروع کیا، تو انھوں نے اِس زور سے ڈانٹا کہ میں پلنگ کے نیچے سہم گیا۔
بڑے ابو بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے باہر آئے۔ چچا کا بلاوا آیا۔ وہ ایک ایسے نوجوان کی مانند، جو خوف زدہ ہونے کے باوجود پراعتماد تھا، کمرے کی سمت بڑھے۔
رات بھر تجسس نے مجھے گھیرے رکھا۔ صبح عقدہ کھلا۔ چبوترے میں کچھ توسیع ہورہی تھی۔ چچا کھڑے ہدایات جاری کر رہے تھے۔ بڑھوتری چاند ماموں کی دیوار تک چلی گئی۔ ہم سمجھ گئے کہ ان کی مستقبل بیٹھک کا امکان پیدا کیا جارہا ہے کہ جو کرسی وہ بچھا کر گلی میں بیٹھا کرتے تھے، وہ عرصہ ہوا ٹوٹ چکی ہے۔
چاند ماموں اپنی کھڑکی میں کھڑے معاملے کا جائزہ لیتے رہے۔ وہ چچا کو اور چچا انھیں، بڑی سہولت سے، نظرانداز کر رہے تھے۔ بعد میں تائی نے تصدیق کی کہ ضمیر میاں کے مشورے پر چاند ماموں نے دادا سے چبوترے میں توسیع کی درخواست کی تھی۔
دادا جب نماز کو نکلے، چاند ماموں نے بڑے ادب سے سلام کیا۔ سہ پہر جب بڑے ابو کالج سے لوٹے، تو چاند ماموں کی کھڑکی سے پھر سلام برآمد ہوا۔ بڑا ابو کاندھے پر کوٹ لٹکائے آگے بڑھ گئے۔ ماموں کھسیانی ہنسی ہنسے۔ چچا کے چہرے پر سنجیدگی در آئی۔ اور مزدور اوزار رکھ کر سستانے لگے۔
٭٭٭
موسم بدلتے رہے۔ اور اُن کا بدلاﺅ ہمارے شعور پر، جو ابھی ابھی بیدار ہوا تھا، اَن مٹ نقوش چھوڑتا رہا۔
دوپہریں گرم ہوتیں۔ نیم کا درخت، جس کی چھاﺅں دھوپ کی شدت کچھ کم کردیتی، گرد سے اٹ گیا۔ ظہرانے کے بعد آم کھائے جاتے، تو نیند ہمکنے لگتی۔ عورتیں چارپاﺅں پر چلی جاتیں، اور اپنے بچوں کو سلانے کے جتن کرتیں۔ میں، میرا چھوٹا بھائی، جسے بڑی امی ببو کہتیں، اور تائی کا بڑا لڑکا، جسے بڑی امی بھولو میاں کہتیں، سونے کی اداکاری کرتے، اور اپنی ماﺅں کی آنکھ لگتے ہی گرم صحن میں نکل آتے۔
ہم چُھپن چُھپائی کھیلتے۔ میں مٹکے کے پیندے سے نمی کے قطرے انگلیوں پر اتار کر چہرے پر مل لیتا، اور اسٹور میں جا چھپتا، جہاں تاریکی اور سیلن کا امتزاج پُرسکون معلوم ہوتا۔ بھولو چھت پر چڑھ جاتا۔ ببو ہماری تلاش میں ناکامی کے بعد دھوپیلے صحن میں اس امید پر کھڑا رہتا کہ ہم ترس کھا کر خود کو ظاہر کر دیں۔ جب ایسا نہیں ہوتا، وہ رونے لگتا۔
اُس کی آواز سب سے پہلے دادی کے کانوں میں پڑتی۔ وہ امی کو کوستی۔ امی جب کمرے سے باہر آتیں، تو چہرے پر نیند اور خجالت دونوں ہی ہوتے۔ وہ روتے ہوئے ببو کو کمرے میں لے جاتیں، اور چانٹا رسید کرتیں، جو اُسے فوراً سُلا دیتا۔
اور اگر وہ نہیں سوتا، اور روتا رہتا، تو بڑی امی اپنے کمرے سے نکل کر اسے آغوش میں بھر لیتیں۔ وہ ببو کو ساتھ لے جاتیں۔ میں اسٹور میں چھپا رہتا۔ اور بھولو چھت پر جل رہا ہوتا، جہاں سے جنات کا گزر ہوتا تھا۔
کالج گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے بند تھے۔ بڑے ابو کا زیادہ وقت گھر میں گزرتا۔ ایک شام وہ ہمارے لیے دودھ والی ٹافیاں لے آئے۔ اُنھیں منہ میں رکھتے ہی رس بھر جاتا۔ ہر ایک کے حصے میں پانچ پانچ ٹافیاں آئیں۔
شام کے وقت گلی میں کھیلتے ہوئے، جب میں نے جیب سے ٹافی نکال کر کھولی، تو چبوترے پر بیٹھے چاند ماموں نے آواز لگائی: ”باجی سے کہنا، چاند بھائی کو بھی ایک ٹافی بھجوا دیں۔“
میں دوڑا دوڑا گیا۔ الماری میں رکھی ببو کی تین میں سے ایک ٹافی اٹھائی، اور چاند ماموں کے ہاتھ پر رکھ دی۔ ان کی ہتھیلی کھردری تھی۔
ببو کو جلد اپنی ایک ٹافی کی گم شدگی کا علم ہوگیا۔ اُس نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ہمیں سچ بولنے کی نصیحت اس تواتر سے کی گئی تھی کہ وہ ہمارے ذہنوں پر ثبت ہوگئی۔ میں نے چوری کا اعتراف کر لیا کہ اگر ایسا نہ کرتا، تو میرے منہ میں کیڑے پڑ جاتے۔
امی نے چانٹا رسید کیا، تو بڑے ابو درمیان میں آگئے۔
”بس کرو دلہن۔“ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے: ”اگر اور ٹافی چاہیے تھی، تو بڑی امی کو کہہ دیتے۔“
میں آنسو پونچھتے ہوئے چلایا: ”ٹافی میں نے اپنے لیے نہیں، چاند ماموں کے لیے چرائی تھی۔“
بڑے ابو کا چہرہ تن گیا۔ دادی، جو کھڑکی سے پوری کارروائی دیکھ رہی تھیں، سینے پر دوہتڑ مارنے لگیں: ”ناس پیٹے نے میرے بچے کو چوری کرنا سکھا دیا۔“
چچا درمیان میں کودے۔ چاند ماموں کی معذوری کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں معصوم ٹھہرانے لگے۔ میری چوری چکاری کی نوزائیدہ عادت کو بھولو میاں کی تربیت کا فیضان ٹھہرایا۔
تائی، جو سروتے سے چھالیا کتر رہی تھیں، اپنے لخت جگر کا نام سنتے ہی کھڑی ہوگئیں:”ضمیر میاں، خبردار۔“
چچا خبردار اور ہوشیار کے مرحلے سے گزر چکے تھے۔ بھولو کی کچھ اور قبیح عادتوں پر روشنی ڈالی۔ بڑی امی نے چمک کر کہا؛ وہ تو چاند ماموں کا ساتھ دیں گے ہی کہ وہ اور محلے کے اوباش لڑکے رات گئے تک لنگڑے کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہیں، اور کیا پتا، نشہ بھی کرتے ہوں۔
چچا غصے میںآگ بگولا ہوگئے۔ اور بڑی امی کو، جو چند برس پہلے تک اُنھیں نہلانے دھلانے کی ذمے دار تھیں کہ اس وقت وہ بہت چھوٹے تھے، یہ تک کہہ گئے کہ وہ زبان سنبھال کر بات کریں۔
بڑے ابو نے آگے بڑھ کر انھیں چانٹا رسید کر دیا۔
”ب ب ھ ا ساب۔“ چچا اتنا ہی کہہ سکے۔
آنگن میں لگے پودے مرجھانے لگے۔ شام گہری ہوگئی۔ بڑے ابو کمرے میں غائب ہوگئے تھا۔ رات کسی نے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھایا۔ چچا، جو گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے، نہ جانے کس پہر لوٹے۔
آنے والے دن، گزرے ہوئے دنوں سے یک سر مختلف تھے۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ ظہرانے کے بعد آم کھانے کا مزہ ماند پڑ گیا۔ دھوپیلے صحن میں کھیلنے کا حسن غارت ہوا۔ امی نے میرا کان پکڑ کا اس شدت سے مروڑا کہ میں نے کمرے سے باہر نکلنے سے توبہ کر لی۔
سب جوں کا توں رہتا، اگر گرمیوں کی چھٹیاں ختم نہیںہوجاتیں۔
معمول کی زندگی لوٹ آئی۔ بڑے ابو صبح کوٹ پہنے کالج کو نکل جاتے۔ چچا کتابیں اٹھائے اسٹاپ کی سمت دوڑتے۔ بھولو میاں چائے پیتے ہوئے ٹسوے بہاتا رہتا۔ میرا بھی اسکول میں داخلہ کروا دیا گیا۔
پورے ایک ماہ تک بڑی امی ہمیں چھوڑنے اور لینے آتی رہیں۔ واپسی میں وہ ہمیں دودھ والی ٹافیاں دلاتیں۔ ایک ٹافی ببو کے لیے ہوتی، جو وہ کبھی میرے حوالے نہیں کرتیں۔ اسے خود دیتیں۔
اسکول سے واپسی پر کبھی چاند ماموں نظر نہیں آئے۔ چبوترا خالی ہوتا۔ اب وہ بیمار رہنے لگے تھے۔ کبھی کبھار سودا سلف لانے والے سستانے کو وہاں بیٹھ جاتے۔
کرکٹ ورلڈ کپ کا آغاز، ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ گھر میں اخبار آنے لگا۔ گلی میں اسٹریٹ لائٹ کی پہلی کرن نمودار ہوئی۔ بھوت پریت کا خوف کچھ کم ہوا۔
بڑے ابو کے کمرے میں رکھے ریڈیو نے سب کی توجہ حاصل کرلی تھی۔ چچا کا جوش و خروش عروج پر تھا۔
ہم بھی بڑے ابو کے کمرے میں جا گھستے۔ وہاں کتابوں کی خوش بو تھی۔ ان کی لکھنے کی میز گھر کی ہر اس شے سے، جس سے میں آشنا تھا، یک دم الگ تھی۔
ورلڈ کپ اپنے پیچھے کرکٹ کا شوق چھوڑ گیا۔ ہم نے بڑے ابو سے ضد کرکے گیند اور بلا منگوایا۔ شام ہوتی، تو گلی میں میلہ سج جاتا۔
یہ سلسلہ شروع ہوئے پانچواں دن ہوگا، جب میں نے چاند ماموں کو چبوترے پر براجمان دیکھا۔ خستہ حالی کچھ اور عیاں ہوگئی تھی۔ آنکھوں کی سرخی بڑھ گئی۔ جلد مزید میلی ہوگئی۔
تائی نے ایک روز آٹا گوندھتے ہوئے بتایا، چاند بھائی کو ٹی بی ہوگئی ہے۔ لالچی رشتہ دار زور ڈال رہا ہے کہ وہ پلاٹ اس کے نام کر دیں۔
امی نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ میں نے لقمہ منہ میں ڈالا، اور ان سے چار آنے کا تقاضا کر دیا۔ جواب میں اُنھوں نے مجھے بے طرح گھورا۔ میں نے بن چبائے لقمہ حلق میں اتار لیا۔
٭٭٭
چچا کے رشتے کی بات چل نکلی۔ ہم اُن کی منگنی میں خوب ناچے۔ اور بہت سے سکے جمع کیے۔ ہماری متوقع چچی نے، جو خوب رو، گوری چٹی اور گھبرائی ہوئی تھیں، سب سے زیادہ ببو کو پیار کیا۔
محلے میں مٹھائی بانٹی گئی۔ برفی کی ایک ڈلی میرے ہاتھ چاند ماموں کو بھجوائی گئی۔
وہ سرخ آنکھیں لیے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ بے دلی سے پوچھا: ”کاکا ہوا ہے؟“
”نہیں۔ چچا کی منگنی ہوگئی۔“
جب میں کچھ دیر بعد گیند اور بلا لیے گھر سے نکلا، چبوترا خالی تھا۔ وہاں برفی کی آدھی ڈلی پڑی تھی۔ اس پر چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔ ایک بھکاری نے اسے اٹھا کر جھاڑا، اور منہ میں ڈال لیا۔
محرم شروع ہوگئے تھے۔ گھر میں شربت بنا۔ حلیم کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا۔ چچا اس عمل میں پیش پیش تھے۔
آٹھ اور نو محرم کو گلی میں کرکٹ نہیں کھیلی گئی۔ تعزیے گزرے۔ امی اور تائی نے بچوں کے تعویذ اتار دیے۔ میں نے تعزیے چومے، اور اُن سے لٹکے چھوہارے توڑ لیے۔ بھولو میاں بچوں کے ساتھ زمین پر لیٹ گیا، تاکہ تعزیے اوپر سے گزر جائیں، اور وہ آسمانی بلاﺅں سے محفوظ ہوجائے۔
شاید وہ وہیں لیٹا رہتا کہ محلے کے ایک باریش بزرگ نے اسے کان سے پکڑ کر کھڑا کر دیا۔ جب تعزیے گزر گئے، اور بھولو نے پورا واقعہ چچا کو سنایا، تو اُنھوں نے منہ بنایا: ”شیخ صاحب وہابی ہوگئے ہیں۔“
رات بھر حلیم گھوٹا گیا۔ صبح تقسیم ہوا۔ چاند ماموں کی تھیلی چچا نے مجھے پکڑا دی۔ میں نے اُن کے دروازہ پر دستک دی۔
”دروازہ کھلا ہے۔“ نحیف سی آواز آئی۔
میں اندر داخل ہوا۔ وہاں کھٹی بو کا بسیرا تھا۔ میری آنکھوں کو تاریکی سے ہم آہنگ ہونے میں وقت لگا۔ جھریوں سے آتی روشنی میں مَیں نے ایک بوسیدہ جسم کو پلنگ پر لیٹا پایا۔
ان کی حالت خاصی بگڑگئی تھی۔
”جی وہ حلیم۔ چچا نے بھجوایا ہے۔“
”وہاں رکھ دو۔“ انھوں نے سلیب کی جانب اشارہ کیا۔ وہاں سنے ہوئے برتن پڑے تھے۔ چولھا اس حال میں تھا، جیسے برسوں سے استعمال نہ ہوا ہو۔ ذرا نیچے مجھے شطرنج کا چوکور خانوں والا تختہ نظر آیا۔ میں نے ایک برتن میں حلیم انڈیل دیا۔
پلٹتے ہوئے میں نے چاند ماموں کے سرہانے کچھ رنگین کاغذات دیکھے۔ بالکل ویسے، جیسے دادا کے پاس تھے۔ فائلوں کی صورت۔ صندوق میں محفوظ۔
”ضمیر بھائی اب شطرنج کھیلنے نہیں آتے۔ اُن کی شادی ہوگئی؟“ دروازے سے باہر نکلتے ہوئے میرے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی، جو اجنبی تھی۔
”نہیں جی۔ اگلے مہینے ہوگی۔“ میں جست لگا کر اس کھٹی اور سیلن زدہ دنیا سے نکل گیا۔
٭٭٭
چیزیں بدل رہی تھیں۔ وہ اسٹور، جو میری پناہ گاہ تھا، گھر کا اہم ترین حصہ بن گیا۔ عورتیں دن میں کئی بار وہاں آتی جاتیں۔ صندوق کھل گئے۔ اُن میں نہ تو کوئی شہزادہ تھا، نہ ہی کوئی پری، بلکہ دمکتے برتن اور زرق برق ملبوسات تھے۔ دادا دادی بیٹھک میں اٹھ آئے۔ خالی کمرے کی دیواروں پر رنگ ہوا۔ کھڑکیوں میں سبز شیشے لگے۔ سلیب پر جزدان میں لپٹا قرآن پاک رکھا گیا۔ قطار میں اسٹیل کے برتن سجا دیے گئے۔
ان ہی دنوں ٹیلی فون پر میرے والد سے رابطہ کیا گیا، جو ملازمت کے سلسلے میں مسقط میں تھے۔
ایک روز دادا شیخ صاحب کے ہاں سے ٹرنک کال کر کے لوٹے، تو دادی کے کان میں کچھ کہا۔ دادی کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔ انھوں نے امی کو بلا کر کچھ سمجھایا۔ امی کے گول مٹول سے چہرے پر خوشی اور شرم؛ دونوں کیفیات بے یک وقت ظاہر ہوئیں۔
کمرے میں پہنچ کر اُنھوں نے مجھے اور ببو کو گلے لگا لیا۔ بہت دیر تک چومتی رہیں۔ ہم بھی نم ہوگئے۔
شام میں بڑی امی نے بتایا؛ تمھارے ابو مسقط سے لوٹ رہے ہیں۔
خوف اور خوشی؛ دونوں مجھ پر وارد ہوئے۔ دو برس ادھر، سوٹ کیس اٹھائے گھر چھوڑنے سے قبل دو آنے مانگنے پر اُنھوں نے مجھے خوب پیٹا تھا۔ اگر بڑی امی درمیان میں نہیں پڑتیں، تو شاید قتل کر ڈالتے۔
ایک ہفتے بعد تایا آگئے۔ وہ خلاف توقع خاصے چپ تھے۔
جب وہ صحن میں بچھے تخت پر، جس کی عمر دادی کے بہ قول، ہمارے بڑے ابو سے زیادہ تھی، بیٹھے چائے پی رہے تھے، انھوں نے دبی آواز میں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے تھے، دادا ابا کوآگاہ کیا کہ حالات بدل رہے ہیں۔ حکومت مخالف تحریک نے زور پکڑ لیا ہے۔
دادی اماں، جو بٹوارے اور سانحہ¿ مشرقی پاکستان کا ذکر ایک ہی ڈھب پر کیا کرتیں، سر تھام کر بیٹھ گئیں۔
بڑے ابو نے، جو اسلامی سوشل ازم پر یقین رکھتے تھے، نفی میں گردن ہلائی: ”حالات پر جلد قابو پالیا جائے گا۔“
”بھائی جان، معاملات بگڑ چکے ہیں۔“ تایا اب بھی دبے لہجے میں بات کر رہے تھے۔ ”کسی وقت بھی مارشل لا“
”بس کرو۔“ دادا نے ہاتھ اٹھایا۔ ”خدا سب کی خیر کرے۔“
شادی کی تیاری جاری تھی۔ اور اِسی دوران وہ شام اتری، جسے بھولنے کی میں نے کبھی کوشش نہیں کی۔
ہم بچے گلی میں کھیل رہے تھے۔ شور بلند ہوتا جارہا تھا۔ اچانک چاند ماموں کے گھر کا دروازہ کھلا۔ وہ بیساکھی تھامے باہر نکلے، اور اپنی نشست سنبھال لی۔ کچھ بچے، جو انھیں دیکھنے کے عادی نہیں تھے، ڈر گئے۔ مگر میری اور بھولو میاں کی تحریک پر دوبارہ کھیل شروع ہوا۔
ببو کا شاٹ چاند ماموں کی طرف گیا۔ خلاف توقع ان کے جسم میں حرکت ہوئی۔ گیند اٹھانے کو جھکے، مگر بھولو نے پہلے ہی گیند اٹھا لی۔ ہم پھر مست ہوگئے۔ چند ساعتیں گزری ہوں گی کہ گیند پھر چاند ماموں کی طرف گئی، اِس سے پہلے کہ ببو دوڑ کر اُسے اٹھاتا، ماموں حرکت میں آئے۔ اب گیند ان کے کھردرے ہاتھ میں تھی۔ کوئی بچہ آگے بڑھ کر گیند مانگنے کو تیار نہیں تھا۔ میں اپنے ساتھیوں کے خوف پر مسکرایا۔ اعتماد سے آگے بڑھا، اور گیند مانگ لی۔ انھوں نے گیند دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کی، اور دائیں ہاتھ سے میرے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔
اُن کے کھردرے ہاتھ کی بُو مجھ پر ثبت ہوگئی۔
سب بچے بھاگ گئے۔ حیرت کے باعث کچھ دیر تو میں رو ہی نہیں سکا۔ البتہ جب بھولو مجھے گھسیٹتا ہوا گھر لایا، آنکھوں میں تیرتے آنسوﺅں کے باعث ہر منظر دھندلا گیا تھا۔
ببو نے توتلی زبان میں واقعات بیان کیے۔ تایا مجھے چپ کروانے لگے۔ میں نے بڑے ابو کو اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑا دیکھا۔ ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، اور چہرے پر وہی حیرت تھی، جو تھپڑ کھانے کے بعد میرے چہرے پر ظاہر ہوئی تھی۔
”بڈھا سٹھیا گیا ہے۔“ یہ دادی کے الفاظ تھے۔ ”بڑی دلہن، چل میرے ساتھ اس ناس پیٹے کو“
جملہ درمیان میں رہ گیا۔ چچا، جو منظر سے غائب ہوگئے تھے، اچانک اسٹور سے برآمد ہوئے۔ اُن کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا۔
”ضمیر رک!“ بڑی امی نے چادر میں خود کو لپیٹا۔
”شکیل روکو اُسے۔“ یہ بڑے ابو کے الفاظ تھے۔ تایا دوڑے۔ تائی نے مجھے آغوش میں لے لیا۔ دوپٹے سے کتھے کی بو آرہی تھی۔
گلی میں شور بلند ہوا، اور بڑھتا گیا۔ امی، تائی اور بھولو بیٹھک کی سمت لپکے، جس کی کھڑکی گلی میں کھلتی تھی۔ میں اپنا غم بھول کر ساتھ ہولیا۔ وہاں میری آنکھوں نے وہ منظر دیکھا، جسے بھولنے کی میں کوشش بھی کروں، تو کبھی بھول نہیں پاﺅں گا۔
سورج نیچے ہوگیا۔ اسٹریٹ لائٹ چپ تھی۔ چاند ماموں بیساکھی کے سہارے کھڑے تھے۔ چچا کے منہ سے جھاگ اڑ رہے تھے۔ تایا دونوں کے درمیان دیوار بن گئے۔ دادی اور بڑی امی نے چچا کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔
”سالے تیرے ہمت کیسے ہوئی؟“
”سالے۔“ یہ وہ لفظ تھا، جو شاید میں پہلے بھی سن چکا تھا، مگراس شدت سے نہیں۔
”وہ دیوار پر گیند مار رہے تھے۔“ یہ چاند ماموں کا جواب تھا، جو مجھے گراں گزرا۔ صریحاً جھوٹ۔
”بکواس بند کر۔ میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔“ چچا دہاڑے۔
”ضمیر خود کو سنبھال۔ “ تایا نے کہا۔
”سالے، بھڑوے۔“
”بھڑوے۔“ ہاں، یہ وہ لفظ تھا، جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ کبھی نہیں۔
اسٹریٹ لائٹ تاحال چپ تھی۔ چند محلے داروں نے چاند ماموں کو ان کے گھر میں دھکیل دیا۔
”بڈھا پاگل ہوگیا ہے اماں۔“ ایک نے دادی سے کہا۔ ”بچوں سے کہیں اس سے دور رہا کریں۔“
تایا چچا کو گھر لے آئے۔ سب بیٹھک کی کھڑکی چھوڑ کر صحن کی طرف دوڑے، البتہ میں وہیں رہ گیا۔
اسٹریٹ لائٹس چپ تھی۔
اگلے تین روز تک چاند ماموں گھر سے نہیں نکلے۔ چوتھے روز لالچی رشتے دار ان کے گھر گیا، تو منہ پر رومال رکھے لوٹ آیا۔ اور دروازے پیٹ پیٹ کر محلے والوں کو جمع کرنے لگا۔
چاند ماموں کا انتقال ہو چکا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا، جب مجھے ادراک ہوا کہ لوگ مر بھی جاتے ہیں۔
سب اکٹھے ہوگئے۔ کچھ لوگ گیس بتی لیے گھر میں داخل ہوئے۔ سڑانڈ کم کرنے کے لیے کافور چھڑکا۔ لالچی رشتے دار، یہ کہتے ہوئے کہ وہ گھر سے کچھ پیسے لے کر آتا ہے کہ تدفین کا انتظام کر سکے، بغل میں ایک فائل دبائے وہاں سے چلا گیا، اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔
محلے والے یونہی متذبذب رہتے، اگر چچا پُرنم آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھ کر تدفین کے انتظامات شروع نہ کرتے۔ تایا مسجد گئے۔ گہوارہ آگیا۔ چچا کاندھا دینے والوں میں سب سے آگے تھے۔ ان کی آنکھوں میں بہت سا پانی تھی۔
بڑے ابو بھی قبرستان گئے۔ تایا نے لوٹنے کے بعد بتایا؛ ضمیر نے چاند ماموں کو قبر میں اتارا۔

ابو کی فلائٹ والے روز شہر میں کرفیو لگ گیا۔ تایا اُنھیں لینے گئے، تو اتنی تاخیر سے لوٹے کہ گھر کی عورتوں نے مصلے بچھا لیے۔ شام ڈھلے جب ابو گھر میں داخل ہوئے، دادی اماں نے اُن کا ماتھا چومنے سے قبل سجدے میں گر کر زمین کو بوسہ دیا۔
ابو نے مجھے گود میں اٹھا لیا۔ میں دو برس پرانی مار بھول گیا۔ اس رات بڑے امی نے ببو اور مجھے اپنے پاس سلایا۔
بارات والے روز بھی شہر میں کرفیو لگا تھا۔ نہ تو ڈھول بجا، نہ ہی گیت گائے گئے۔ عورتیں اور بچے گھر ہی میں ٹھہرے۔ مردوں کے ساتھ صرف دادی گئیں۔ ناچنے اور پیسے لوٹنے کا میرا اور بھولو کا منصوبہ غارت ہوا۔
چند گھنٹے بعد جب وہ لوٹے، تو ہماری گھبرائی ہوئی خوب صورت چچی، سرخ رنگ میں یوں لپٹی تھیں کہ گھبراہٹ اور خوب صورتی، دونوں چھپ گئے۔
دلہن کو کمرے میں بھیجنے سے قبل تمام بچوں کو سُلادیا گیا۔ میں بھی صحن میں بچھے پلنگ پر سو جاتا، اگر اُس رات نانی کے بجائے دادی کہانی سنا رہی ہوتیں۔
آسیبی کہانیوں کے تحیر نے مجھے جگائے رکھا۔ میں نے دلہن کو چھن چھن کرتے کمرے میں جاتے، کچھ دیر بعد چچا کو سر جھکائے کمرے میں داخل ہوتے، اور پھر دروازہ بند ہوتے دیکھا۔
آخر میں کھڑکی بند ہوئی۔ جس کے بند ہونے سے پہلے میں نے جزدان اور دمکتے برتنوں کے پہلو میں پڑا شطرنج کا تختہ دیکھ لیا تھا۔
مارشل لا لگنے کے دور روز بعد لالچی رشتے دار نے نیم کا درخت کٹوا دیا، اور ہم چھاﺅں سے محروم ہوگئے۔ بڑے ابو پورے ایک ہفتے خاموش رہے۔
اگلے موسم گرما میں جب چھت پر چارپائیاں بچھیں، تو میں نے تاروں بھرے آسمان کو خود پر ایستادہ پایا۔ چاند مٹھی میں بند کیا۔ چہرہ رضائی سے باہر رکھا۔ مونگ پھلی والے کی آواز سنی۔ کتے بھونکے۔ اور پھر
کوئی کھانسا….

 

اقبال خورشید

اقبال خورشید نے 1982ء میں سندھ کے شہر کراچی میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی برس سعودی عرب کے شہر جدہ میں گذرے۔ انھوں نے سائنس سے گریجویشن کرنے کے بعد 2006ء میں جامعہ کراچی سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کیا۔، جس کے بعد انھوں نے عملی صحافت میں قدم رکھا۔

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button