دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر
شکستہ پَرسی نا اُمید، اشک آنکھوں میں بھر کر
اس طرح ساکت نہ بیٹھو اک جگہ پر
کانچ کو پتھر کی سنگت میں ہی رہنا ہو
تو اک رستہ یہ ہے
وہ فاصلوں کو درمیاں رکھے
سنو!
یہ زیست ایسی شے نہیں مل پائے گی پھر
دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر
چلو ہلکے سے رنگوں کی لپیٹو اوڑھنی
برآمدے میں اس سے کھیلیں گی ہوائیں کا سنی،
پھر جامنی سی روشنی اوڑھائے گی اک مخملیں چادر
مقیش اس میں ستارے ٹانکنے اتریں گے،
دیکھو!
زندگی کا اور اک دن ہے گزرنے کو، اٹھو تو
دو جہاں کا حسن لے کر منتظر ہے شام کھڑکی پر
ترنم ریاض