ایک چاند مانگ کر مُفلس ہوئی
انتظار سے ٹُوٹا آدمی دیوار سے دُور تک جا چُکا ہے
وقت شرمندہ ہوتا ہے !
جس وقت لوگ جسم کے تِلوں پر خوشیاں رکھتے ہیں
مٹی سے بے تاریخ خط اُٹھایا
یہ بھی کوئی وقت تھا جو بِن مانگی بھیک کی طرح ملتا ہے
جب لوگ میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ بھُول جاتے ہیں
میں سوچتی ہوں
یہ پھر پھُول مارنے کی تیاری میں ہیں
ہزاروں لبوں کے عوض مُسکراتے ہیں
آنکھ پُکاری ! بہت غریب ہوں میں
سوچ پہ چہل قدمی نہ کرو تو اچھا ہے
یہاں نمستے ، مُسلمان ہے
کرنوں پر چلتی چلتی اگر سُورج تک گئی
تو دھُوپ سے نہا لوں گی
مٹی آج چھینک رہی ہے
رفو ہے زباں ہماری
جھُوٹ میں دھُت بٹن تمہارے سینے سے کھیل رہے ہیں
دہلیزوں پہ جمی دستکیں کسے بُلاتی ہیں
ہم ایک پیار کے عادی مُجرم ہیں۔۔۔۔
پرندے اپنے دُکھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے
سمندر کی حد میں کانٹا ڈال دیا جاتا ۔۔۔۔
وہ کالے دروازے پہ چاک داغ جاتا
مالی خُدا سے قریب تر ہو جاتا
اندیشوں کے پائنچے پَیروں کو کھری کھری سُناتے
کل پہ گھڑیاں لباس تبدیل کر دیں گی
دِن کو جوڑتے ہوئے میری اُنگلی پھنس جاتی
سفر کے نُکڑ پر بد کلام ٹہل رہے ہیں
لکڑی سے بندھا کپڑا سارے مکان سے سوال کرتا
زندہ گالی بن کر زندگی پہ قدم رکھنا۔۔۔۔
تمہارے پاس تو تمہارے دو ہاتھ بیٹھے ہیں
پیاس دیواروں سے اُونچی نہ ہونے پائے
ورنہ بچپن کے موزوں کا رنگ میری ماں کو بھی یاد نہیں
آ جا کے کنویں سامنے رکھ دیتے ہو
میرے پاس کوئی رَسی تو نہیں
تلاش سیاحوں کی آنکھوں میں جھانکتی ہے
سارا شگفتہ