- Advertisement -

کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی

میر تقی میر کی ایک غزل

کچھ کرو فکر مجھ دوانے کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی

دل کا اس کنج لب سے دے ہیں نشاں
بات لگتی تو ہے ٹھکانے کی

وہ جو پھرتا ہے مجھ سے دور ہی دور
ہے یہ تقریب جی کے جانے کی

تیز یوں ہی نہ تھی شب آتش شوق
تھی خبر گرم اس کے آنے کی

خضر اس خط سبز پر تو موا
دھن ہے اب اپنے زہر کھانے کی

دل صد چاک باب زلف ہے لیک
بائو سی بندھ رہی ہے شانے کی

کسو کم ظرف نے لگائی آہ
تجھ سے میخانے کے جلانے کی

ورنہ اے شیخ شہر واجب تھی
جام داری شراب خانے کی

جو ہے سو پائمال غم ہے میر
چال بے ڈول ہے زمانے کی

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل