نہ آئیں وہ تو کوئی موت کا پیغام آ جائے
ایک اردو غزل از قمر جلال آبادی
نہ آئیں وہ تو کوئی موت کا پیغام آ جائے
وہی اپنا ہے آڑے وقت پر جو کام آ جائے
شبِ فرقت قیامت اے دلِ ناکام آ جائے
اگر جل کر بھڑکنے پر چراغِ شام آ جائے
کہیں پر بیٹھ جا کیا دیکھتا ہے بزمِ ساقی میں
خدا معلوم پہلے کس طرف سے جام آ جائے
فسانہ کہہ رہے ہیں آج وہ اپنی محبت کا
خدا ایسا کرے میرا کہیں پر نام آ جائے
خدا معلوم اس طائر کے دل پر کیا گزرتی ہے
جو پر تولے ہوئے ہو اور زیرِ دام آ جائے
قمر اک دن سفر میں خود ہلالِ عید بن جاؤں
اگر قبضے میں میرے گردشِ ایام آ جائے
قمر جلال آبادی