دل عشق میں خوں دیکھا آنکھوں کو گیا دیکھا
پیغمبر کنعاں نے دیکھا نہ کہ کیا دیکھا
مجروح ہے سب سینہ تس پر ہے نمک پاشی
آنکھوں کے لڑانے کا ہم خوب مزہ دیکھا
یک بار بھی آنکھ اپنی اس پر نہ پڑی مرتے
سو مرتبہ بالیں سے ہم سر کو اٹھا دیکھا
کاہش کا مری اب یہ کیا تجھ کو تعجب ہے
بیماری دل والا کوئی بھی بھلا دیکھا
آنکھیں گئیں پھر تجھ بن کیا کیا نہ عزیزوں کی
پر تونے مروت سے ٹک ان کو نہ جا دیکھا
جی دیتے ہیں مرنے پر سب شہر محبت میں
کچھ ساری خدائی سے یہ طور نیا دیکھا
کہہ دل کو گنوایا ہے یا رنج اٹھایا ہے
اے میر تجھے ہم نے کچھ آج خفا دیکھا
میر تقی میر