حجرے شکستہ دل ،در و دیوار دم بخود
آرام گاہِ شاہ کے آثار دم بخود
جکڑا ہوا زمیں نے ستونوں کا اک جلوس
اک پَل پہ آکے وقت کی رفتار دم بخود
اندر کی سمت گرتی ہوئی دل گرفتہ سِل
باہر کے رخ جھکے ہوئے مینار دم بخود
یہ سنگِ ماہ رنگ کہ مر مر کہیں جسے
یہ روشنی سی برف کے اُس پار دم بخود
اک دوسرے کو تکتے ہوئے عکس و آئنہ
اظہار منجمد ، لبِ گفتار دم بخود
سکتے میں چار سمت زرہ پوش جالیاں
محراب کی کھنچی ہوئی تلوار دم بخود
صدیوں سے بادشاہ یہاں محو خواب ہے
صدیوں سے ہے لگا ہوا دربار دم بخود
کُو کُو کی گونج پھیلی ہوئی چار سُو مگر
اس داستاں کا مرکزی کردار دم بخود
سعود عثمانی