ماموندر کی آدم خور
یہ جانور مادہ اور نوجوان تھی اور بغیر کسی وجہ کے آدم خور بنی۔ چونکہ اس کی وارداتیں چملا وادی کے آدم خور کی ہلاکت کے کچھ عرصے بعد اور انہی علاقوں میں شروع ہوئی تھیں، اس لیے اندازہ ہے کہ شاید اس آدم خور کا جوڑا ہو۔ ایک اور نظریہ یہ تھا کہ اس شیرنی نے اپنی ماں سے کم عمری میں یہ عادت پائی ہوگی۔
اس کی آدم خوری کی وجہ چاہے جو بھی ہو، اس نے پہلی بار ایک گڈریے پر حملہ کر کے اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس کوشش کی وجہ یہ تھی کہ شیرنی نے پہلے ایک دودھیل گائے پر حملہ کیا تھا اور اس کی گردن توڑ دی تھی کہ چرواہے نے اسے بھگانے کی کوشش کی تھی۔ چرواہے نے اس کو بھگانے کے لیے شور کرتے ہوئے اپنا ڈنڈا لہرایا تھا۔ عام شیر ایسی مداخلت سے بھاگ جاتے ہیں مگر اس بار اس کا الٹا اثر ہوا۔ بھاگنے کی بجائے شیرنی نے جست لگائی اور چرواہے پر حملہ کر دیا اور چشمِ زدن میں بیس گز کا فاصلہ طے کر کے حملہ کر دیا۔ چرواہا مڑ کر باھگا مگر شیرنی کے پنجے نے اس کے کندھے سے کولہوں تک اسے چھیل کر رکھ دیا۔ چرواہا زمین پر گرا مگر چونکہ انسان پر شیرنی کا یہ پہلا حملہ تھا تو بظاہر شیرنی اس وار کو کافی سمجھ کر پھر گائے کو لوٹ گئی۔
جب شیرنی نے گائے کو کھانا شروع کیا تو چالیس گز دور چرواہے شیرنی کے پیٹ بھرنے کی آوازیں سنتا رہا مگر اس نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اس بار شیرنی کا حملہ مہلک ثابت ہوتا۔ سو وہ اسی طرح اوندھا پڑا رہا مگر نہایت آہستگی سے سر موڑ کر شیرنی کو پیٹ بھرتے دیکھتا رہا۔
بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ اسے وہ ایک گھنٹہ ساری عمر یاد رہے گا۔ بظاہر کئی مرتبہ رک کر شیرنی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ایک بار تو کھانا چھوڑ کر شیرنی نے اس کی سمت چند قدم بھی اٹھائے۔ شکر ہے کہ دہشت کے مارے یہ بیچارہ حرکت نہ کر سکا۔ اگر وہ ذرا سی بھی حرکت کرتا تو ظاہر ہے کہ شیرنی اسے زندہ نہ چھوڑتی۔ خوش قسمتی سے شیرنی نے ارادہ بدل دیا۔
مزید ایک گھنٹہ گزرا اور پھر شیرنی کا پیٹ بھر گیا۔ پھر وہ پچھلے پیروں پر بیٹھ کر اپنے اگلے پنجے اور چہرہ چاٹ کر صاف کرتی رہی۔پھر چرواہے پر آخری نگاہ ڈال کر شیرنی اٹھی اور جنگل کو چلی گئی۔
چرواہا بیچارہ مزید دس منٹ لیٹا رہا کہ شیرنی واقعی چلی گئی ہے۔ پھر وہ اٹھا اور گاؤں کی جانب بھاگ کھڑا ہوا۔
اس کہانی کا انجام بھی یادگار تھا۔ کسی مناسب طبی امداد کے بغیر ہی اس کے گہرے زخم بھر گئے۔ حکیم نے اس کے زخموں پر گائے کا گوبر اور چند جڑی بوٹیاں کچل کر باندھی تھیں۔ شاید اس نے جو چادر اوڑھی ہوئی ہو، اس نے شیرنی کے پنجوں سے زہریلے مادے کو روک دیا ہو۔
یہ واقعہ ماموندر کے ریلوے سٹیشن سے بمشکل چار میل دور ہوا تھا اور وہاں پہاڑی اچانک تین سو فٹ نیچے ہو کر جنگل میں بدل جاتی ہے۔ یہاں ایک ندی بھی بہہ رہی تھی۔
زخمی ہونے کا اگلا واقعہ ایک موت پر منتج ہوا۔ اس بار بھی مویشیوں کے ریوڑ پر حملہ ہوا تھا اور بوڑھا آدمی زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ اس بار بھی تقریباً پچھلے واقعے کی طرح واقعات ہوئے۔ شیرنی جنگل میں ریلوے لائن سے ایک میل دور چرنے والے ریوڑ پر حملہ آور ہوئی اور ایک بار پھر دودھیل گائے کو نشانہ بنایا۔ جب خوفزدہ مویشی بھاگ کر چرواہے کے پاس پہنچے تو وہ جائزہ لینے خود آیا۔ جلد ہی اس نے شیرنی کو مردہ گائے پر دیکھا۔ تاہم اس بار وہ شیرنی کو دیکھتے ہی وہیں رک گیا۔ مگر شیرنی کو اس کی موجودگی پسند نہیں آئی اور اس نے حملہ کر کے اسے بری طرح زخمی کر دیا۔ پھر وہ مردہ گائے کو گھسیٹ کر جھاڑیوں میں لے گئی۔
تین گھنٹے بعد مدد پہنچی۔ مویشی ریلوے لائن کو عبور کر گئے تھے۔ اس بندے کا بھائی اس کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ مویشی تو موجود ہیں مگر رکھوالا غائب ہے۔ ریلوے لائن پر کھڑے ہو کر اس نے بھائی کو کئی آوازیں دیں مگر جواب نہ ملا۔ اسے گڑبڑ کا احساس ہوا تو وہ بھاگ کر ماموندر سے مدد لانے چلا گیا۔
کھوجی جماعت نے مویشیوں کے نشانات کا تعاقب کیا اور زخمی بندے تک آن پہنچے۔ جریانِ خون اور زخموں سے وہ بندہ قریب المرگ اور بیہوش تھا۔ وہ اسے اٹھا کر پہلے گاؤں اور پھر ریلوے سٹیشن لائے تاکہ مال گاڑی میں گارڈ کے ڈبے میں اسے نزدیکی قصبے رانی گنٹا لے جائیں۔ اُس جگہ ہسپتال تھا۔ مگر بوڑھا آدمی مال بردار گاڑی کے سفر میں ہی مر گیا۔
تیسری واردات کے بعد جا کر شیرنی نے آدم خوری شروع کی۔ اس بار بھی اس نے چرواہے پر حملہ کیا مگر اس بار یہ حملہ صبح نو بجے ہوا۔ اس حملے کے بارے ہمیں دوسرے چرواہے نے بتایا جو اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ شیرنی حسبِ معمول بھاگ کر آئی اور ایک کم عمر بیل پر حملہ کیا مگر اسے گرانے میں ناکام رہی۔ دوسری جانب بیل اپنی پشت پر سوار شیرنی کو لے کر چرواہوں کی جانب بھاگا۔ ان میں سے ایک جو زندہ بچا، وہ مڑ کر بھاگا۔ دوسرا حیرت اور خوف کے مارے وہیں گڑ گیا۔ بھاگنے والے نے ایک بار مڑ کر دیکھا تھا کہ شیرنی بیل کی پشت سے جست لگا کر اس بندے پر حملہ آور ہوئی۔ پھر اس نے دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھا۔
امدادی جماعت لاٹھیوں اور توڑے دار بندوقوں سے مسلح ہو کر پہنچے تو چرواہے کی لاش نہ ملی۔ سو اس جماعت نے گاؤں جا کر مزید افراد کو اپنے ساتھ ملایا اور تقریباً تین گھنٹے بعد سو آدمی جمع ہو کر تلاش کو نکلے۔ نشانات واضح تھے اور جلد ہی وہ متوفی کی لاش پر پہنچ گئے جو اوندھی ایک نالے کے اندر ریت پر پڑی تھی۔ اس کے کولہوں اور سینے کا کچھ گوشت کھایا جا چکا تھا۔
اگلے دو ماہ میں شیرنی نے تین اور انسانوں کو اپنا لقمہ بنایا۔ ان میں سے ایک چرواہا تھا جبکہ دوسرا مسافر اور تیسرا ایک لمبانی تھا جو جنگل سے شہد جمع کرنے نکلا تھا۔ اس کے بعد مویشیوں کا جنگل میں چرنا اور شہد جمع کرنے کا کام روک دیا گیا۔ مسافروں نے بھی پیدل سفر کرنا بند کر دیا اور ٹرین سے سفر شروع کر دیا۔
اُس وقت محکمہ جنگلات کا ضلعی افسر مسٹر لٹل ووڈ تھا اور اس نے مجھے خط لکھ کر دعوت دی کہ میں اگلے چند روز اس کے ساتھ ماموندر کے خوبصورت فارسٹ بنگلے میں اس کے ساتھ گزاروں اور شیرنی کو مارنے کی کوشش کروں۔ پندرہ روز کی چھٹی لے کر میں نے بنگلور سے رات والی میل ٹرین پکڑی اور اگلے دن ساڑھے تین بجے دوپہر کو ماموندر اترا کہ یہ ٹرین بہت سست چلتی ہے۔
فارسٹ بنگلا سٹیشن سے سات فرلانگ دور ایک بنجر پہاڑی پر واقع ہے۔ اس بنگلے کو جانے والا راستہ ماموندر سے گزر کر جاتا ہے جہاں رک کر میں سب کو اپنی آمد کا سبب بتا دیا کہ میں یہاں اس شیرنی کو ہلاک کرنے آیا ہوں۔ میرا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس خبر کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دیں۔ اس طرح مجھے نہ صرف شیرنی کے بارے پوری تفصیل مل جاتی بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہونے والے نئے حملے کا بھی پتہ چلتا رہتا۔ اس کے علاوہ میں نے یہاں تین بھینسے بھی خریدے اور ایک مقامی شکاری اروکیا سوامی کے ذمے لگا دیے۔ یہ شکاری پہلے سے میرے لیے کام کر رہا تھا۔
اس بنگلے کا برآمدہ لمبا اور چوڑا تھا۔ یہاں سے پانچ مختلف فائر لائن یا فارسٹ لائن نکلتی تھیں۔ جنوب اور جنوب مغرب کو جانے والی لائنیں گاؤں اور ریلوے لائن کے قریب سے گزرتی تھیں۔باقی تین جنگل میں دور تک جاتی تھیں اور انسان کئی میل دور تک دیکھ سکتا تھا۔ شمال والی فائر لائن اس جگہ جاتی تھی جہاں پہلا چرواہا زخمی ہوا تھا۔ مشرق اور شمال مشرق کی جانب یہ بالکل سیدھی جاتی تھیں۔ ہر طرف زمین مسطح تھی۔
بہت برس قبل جب یہاں شکار بکثرت ہوتا تھا، میں نے بہت مرتبہ برآمدے یا صحن میں کھڑے ہو کر دورین کی مدد سے ان فارسٹ لائنوں پر جنگلی جانوروں کو علی الصبح یا شام کے وقت گزرتے دیکھا تھا۔ سانبھر، چیتل اور مور تو بکثرت انہیں عبور کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ تین بار ریچھ بھی انہیں عبور کرتے دیکھے تھے اور ایک بار شام پانچ بجے یہاں سے گزرتا دیکھا تھا۔ دو میل دور میں نے گیارہ جنگلی کتوں کو ایک بوڑھے ریچھ کا گھیراؤ کرتے دیکھا تھا۔ ریچھ کو عبرتناک انجام سے بچانے کے لیے میں پیچھے لپکا۔ تین کتے میری گولی کا شکار ہوئے تو اس کے ساتھیوں کو خطرے کا احساس ہوا۔ چوتھے کتے کی ہلاکت پر ان کا پورا گروہ بھاگ نکلا۔ جتنی دیر وہ نظروں سے اوجھل ہوتے، پانچواں کتا بھی اپنے انجام کو پہنچا۔
ان دنوں میرے پاس اعشاریہ 405 بور کی ونچسٹر تھی اور اب پانچوں گولیاں چلانے کے بعد خالی رائفل ہاتھ میں تھامے مجھے احساس ہوا کہ اب میرا سامنا غصے سے پاگل ریچھ سے ہے جو کتوں کے ہاتھوں زخمی بھی ہو چکا ہے۔
میں اس سے ساٹھ گز دور تھا جب اس نے سیدھا مجھ پر حملہ کر دیا۔ ‘ووف ووف‘ کرتا ہوا آیا اور میں نے فارسٹ لائن پر دوڑ لگا دی اور ساتھ ہی ساتھ رائفل میں گولی بھر کر رائفل کو تیار کر لیا۔ پھر مڑ کر میں نے ریچھ کی طرف رخ کیا جو اب محض پندرہ گز دور تھا۔ عام ریچھوں کی مانند پانچ گز کے فاصلے پر پہنچ کر وہ پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا جسے ریچھ کا معانقہ کہتے ہیں اور ہر کوئی اس مہلک معانقے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
تاہم ہندوستانی ریچھ ایسا معانقہ نہیں کرتے بلکہ پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر ریچھ اپنے تین انچ لمبے ناخنوں سے شکار کا منہ نوچ لیتے ہیں یا پھر اس کے سر کو چبانے لگتے ہیں۔ تاہم جب ریچھ بلند ہوا تو اس کے سینے پر V کا نشان واضح دکھائی دینے لگا۔ ایک ہی کارتوس رائفل میں تھا، سو میں نے عین اسی نشان کے نچلے سرے پر گولی چلا دی اور ریچھ مجھ سے دو گز دور گرا اور مر گیا۔
تین جنگلی کتے نر اور دو مادہ تھے۔ محکمہ جنگلات ہر نر کے بدلے دس روپے اور مادہ کے بدلے پندرہ روپے کا انعام دیتا ہے۔ جنگلی کتے ہرنوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں اس لیے ان کی تباہی کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم مجھے ریچھ کی ہلاکت پر افسوس ہوا کہ ریچھ نے مجھے اس پر مجبور کر دیا تھا۔
تاہم یہ سب بہت عرصہ قبل ہوا تھا۔
اس بنگلے کو ایک اور چیز پسندیدہ بناتی ہے۔ دن کو دو بجے کے بعد سمندر کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں اس بنگلے سے براہ راست اگر دیکھا جائے تو خلیج بنگال پچہتر میل سے کم نہیں۔ تاہم میں اتنا ماہر نہیں کہ یہ کہہ سکوں کہ سمندر کی ہوا کتنے فاصلے پر پہنچ کر بے اثر ہو جاتی ہے۔ مجھے اتنا علم ہے کہ ہر روز دو بجے کے بعد یہ بنگلہ کافی ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور قیلولہ کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو ماموندر کے فارسٹ بنگلے کا چکر لگا لیں۔
اس روز بہت دیر ہو گئی تھی کہ بھینسے ساڑھے پانچ آن پہنچے، سو میں نے ایک بھینسا دو میل دور شمالی فائر لائن پر املی کے بڑے درخت کے نیچے باندھا۔ سات بجے کے بعد میں واپس بنگلے پہنچا اور گیراج میں دیگر دو بھینسے باندھد یے اور ارکیا سوامی سے کہا کہ وہ باورچی خانے میں سو جائے۔
اگلی صبح ہم باہر نکلے۔ سب سے پہلے ہم نے رات والے گارے کا معائنہ کیا جو زندہ سلامت تھا اور اسے عین اُس جگہ لے گئے جہاں پہلی واردات ہوئی تھی۔ یہاں ہم نے بھینسے کو گھاس کے ایک خوبصورت قطعے میں درخت کی جڑ سے باندھ دیا۔
ہم بنگلے واپس لوٹے اور دوسرے بھینسے کو مشرق کو جانے والی فائر لائن پر لے گئے اور تقریباً اسی جگہ جا کر باندھ دیا جہاں ریچھ اور جنگلی کتوں والا واقعہ ہوا تھا۔
پھر بنگلے آ کر ہم نے تیسرے بھینسے کو ریلوے لائن کے مغرب میں لے جا کر وہاں باندھا جہاں بوڑھا چرواہا ہلاک ہوا تھا۔
جب ہم تیسری بار بنگلے لوٹے تو گرمی بہت بڑھ چکی تھی۔ پسینے سے بھیگی اپنی قمیض اتار کر میں نے ٹھنڈا کھانا کھایا اور سمندری ہوا کا انتظار کرنے لگا جو مجھے علم تھا کہ دو بجے شروع ہو جائے گی۔ عین دو بجے ہوا چلنا شروع ہوئی اور انتہائی گرم برآمدہ اچانک ٹھنڈا ہونے لگا۔
اگلے دو دن بیکار گزرے۔ میں ہر روز گاروں کا انتظار کرتا مگر انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا۔ پانچویں روز کی شام کو تکلیف دہ حادثہ پیش آیا۔
جنوبی ہندوستان میں ریلوے لائن کے کنارے رات کے وقت مٹی کے تیل سے جلنے والے اشارے استعمال ہوتے ہیں مگر بڑے ریلوے جنکشنوں کے شنٹنگ یارڈ پر ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کو علم ہوگا کہ ہر ریلوے سٹیشن پر دو اشارے دونوں سمتوں میں ہوتے ہیں۔ نزدیکی اشارے کو ہوم سگنل اور بیرونی کو آؤٹر سگنل کہتے ہیں۔ عام طور پر ریلوے کے ملازمین ہر روز شام کو چھ بجے ان لیمپوں کے شیشے صاف کر کے بتی کو تراشتے ہیں اور پھر جلا کر واپس آ جاتے ہیں۔ تاہم ماموندر کی آدم خور شیرنی کی وجہ سے اور چونکہ دونوں سمتوں کے آؤٹر سگنل عین جنگل میں تھے، یہ کام سورج غروب ہونے سے قبل پانچ بجے سے پہلے سرانجام دے دیا جاتا تھا۔
اس شام کو چار بجے دو پوائنٹس مین سنگل جلانے نکلے۔ دونوں نے مخالف سمتوں کا رخ کیا۔ دوسرا پوائنٹس مین واپس نہ لوٹا۔
چھ بجے سے ذرا قبل سات افراد کی جماعت دوڑتی ہوئی بنگلے میں اطلاع دینے آئی۔ انہیں سٹیشن ماسٹر نے بھیجا تھا۔ رائفل، ٹارچ اور رت جگے کے لیے درکار دیگر چیزیں اٹھاتے ہوئے میں نے ان لوگوں کو ارکیا سوامی کے ساتھ سٹیشن بھیجا کہ وہ اب رات کو اکیلا بنگلے میں رہنے کے خیال سے دہشت زدہ تھا۔ پھر میں نے مغرب کو جانے والے فارسٹ لائن کا رخ کیا جس کے بارے مجھے علم تھا کہ یہ اندرونی اور بیرونی سگنلوں کے درمیان سے گزرتی تھی۔
جب میں ریلوے لائن کو پہنچا جو زمین سے دس فٹ اونچی گزرتی ہے، میں نے بائیں جانب دیکھا تو پتہ چلا کہ اندرونی سگنل چمک رہا تھا۔
میں نے سوچا: ‘احمق آدمی، ابھی دن موجود تھا تو اسے پہلے بیرونی سگنل جلانا چاہیے تھا اور پھر اندرونی سگنل کو جاتا۔ اس طرح اس نے پہلے اندرونی سگنل جلایا جس سے کافی وقت ضائع ہو گیا۔‘
پھر دائیں جانب مڑ کر میں آؤٹر سگنل کو گیا جو موڑ مڑنے کے بعد دکھائی دیا۔ چلتے ہوئے میں زمین پر غور سے دیکھتا گیا کہ حملہ یہیں کہیں ہوا ہوگا مگر مجھے کوئی نشان نہ دکھائی دیا۔ جب میں نے آؤٹر سگنل کے پاس پہنچ کر سر اٹھایا تو دیکھا کہ یہ روشن تھا۔ یعنی پوائنٹس مین دراصل بیرونی سگنل جلائے جانے کے بعد ہلاک ہوا۔ اندرونی سگنل بھی جل رہا تھا۔ یعنی سنگل مین کی ہلاکت اندرونی سنگل اور سٹیشن کے درمیان کہیں ہوئی تھی۔
مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ اندرونی سنگل سے بھی پہلے کھیت شروع ہو جاتے تھے جو سٹیشن تک پھیلے ہوئے تھے۔ سو کوئی شیر چاہے وہ آدم خور ہی کیوں نہ ہو، کیا دن کے وقت کھلے میں آ سکتا ہے؟ ایسا ہونا ممکن تو تھا مگر بہت کم امکان تھا۔
میری گھڑی پر 6 بج کر 55 منٹ ہو رہے تھے اور اندھیرا چھانے لگا تھا۔ اس لیے میں نے بہت محتاط ہو کر اندرونی سگنل کو گیا۔ خوش قسمتی سے چاند نکل آیا تھا اور چاندنی سے اندھیرا چھٹ گیا تھا۔
جہاں میں پہلے پہنچا تھا، وہاں پہنچا تو دیکھا کہ فارسٹ لائن کی طرف سے ایک نالی آ رہی تھی جو گہرے نالے میں بدل جاتی تھی۔ وہاں مجھے کوئی چیز ریلوے کے سلپیروں کے نیچے پھڑپھڑاتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میں رکا اور جھک کر سلیپروں کے درمیان دیکھا۔
یہ متوفی کی سفید دھوتی تھی جو پتھر میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس سے بیس فٹ دور ایک تاریک چیز دکھائی دی جو مجھے علم تھا کہ متوفی کی لاش ہوگی۔ اس کم روشنی میں بھی میں بتا سکتا تھا کہ اتنی مختصر مدت میں ہی اس لاش کو جزوی طور پر کھایا گیا ہے۔ گردن پوری طرح چبائی گئی تھی اور سر الگ ہو کر ایک گز دور پڑا تھا۔ شاید شیرنی اس وقت بھی پاس ہی کہیں چھپی ہوئی ہو یا مجھے دیکھ رہی ہو، سو نیچے اتر کر لاش کا تفصیلی معائنہ کرنا فضول ہوتا۔
بعجلت جائزہ لیا تو فیصلہ کیا کہ میں ریلوے کی پٹری پر آڑا لیٹنا ہی پڑے گا۔ یہ جگہ نالے کے عین وسط میں تھی۔ اس طرح میں سامنے اور پیچھے سے حملے سے محفوظ رہتا کہ شیرنی کو نالے کی تہہ سے کم از کم پندرہ فٹ کی چھلانگ لگانی پڑتی۔ اس طرح شیرنی دائیں یا بائیں سے حملہ کرتی۔ میں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ نالے کی چوڑائی بیس فٹ تھی۔ اگرچہ یہ زیادہ نہیں مگر مجھے اتنا وقت مل جاتا کہ شیرنی کی آمد سے خبردار ہو جاتا۔
یہ بھی ممکن تھا کہ شیرنی نالے کے کنارے پر چڑھ کر جست لگات، جو میرے پیچھے یا اطراف سے بھی ہو سکتا تھا۔ تاہم یہ خطرہ مول لینا ہی تھا۔
بنگلے سے روانہ ہوتے وقت میں نے ٹارچ کو رائفل پر لگا لیا تھا۔ میں نے اپنا تھیلا اپنے سامنے رکھا اور اس پر اوندھا لیٹ گیا۔ یہ پٹڑی براڈ گیج تھی اور دونوں کا درمیانی فاصلہ ساڑھے پانچ فٹ تھا۔ اپنی ٹانگیں پھیلائیں تو پیروں کے تلوے دوسری ریل کو چھونے لگے۔ میں آٹھ انچ چوڑے ٹیک کی لکڑی کے سلیپر پر لیٹا تھا جو بہت سخت تھا۔
چاند خوب چمک رہا تھا اور پورا منظر واضح دکھائی دے رہا تھا۔ لاش اور اس کا سر مجھے صاف دکھائی دے رہے تھے جو نالے کی باریک ریت پر پڑے تھے۔ ہر طرف موت کا سا سکوت چھایا ہوا تھا۔
لال رنگ کا آؤٹر سگنل مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا۔
گھنٹے گزرتے رہے۔ مغرب کی سمت جنگل سے سانبھر کی آواز سنائی دی۔ شاید شیرنی کو دیکھ کر سانبھر بولا ہو؟ نہیں، دوسرے سانبھر نے شمال مشرق سے جواب دیا اور تیسرے کی آواز مشرق سے ائی۔ وقفے وقفے سے چیتل بھی آوازیں نکالتے رہے۔
تاہم یہ ساری آوازیں مختلف سمتوں سے آتی رہیں، اگر آواز ایک سمت سے آ رہی ہوتی تو اس کا مطلب کسی درندے کی موجودگی ہوتی۔ مگر ہر طرف سے آنے والی آوازیں بتا رہی تھیں کہ کئی درندے نکلے ہوئے ہیں۔ چاندنی رات کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ جنگلی کتوں کا غولِ بیابانی شکار پر نکلا ہو۔ جنگلی کتے عموماً دن کے وقت یا پھر بعض جنگلوں میں چاندنی رات کو بھی شکار پر نکلتے ہیں مگر تاریک راتوں میں دکھائی نہیں دیتے۔
نصف شب کو خاموشی چھا گئی۔ پھر اچانک میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے کیونکہ ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔کٹا ہوا سر اچانک ایک جانب لڑھک گیا۔
ابھی تک اس کا رخ آسمان کی جانب تھا مگر اب اس کی بے جان آنکھیں میری جانب ہو گئیں۔ حالانکہ کسی جانور نے اسے نہیں چھوؤا۔ یہ سر کھلی جگہ چاندنی تلے صاف دکھائی دے رہا تھا۔
پھر سر نے دوبارہ حرکت کی اور واپس پہلی حالت میں چلا گیا۔ پھر نصف مڑا اور جیسے حرکت کی سکت نہ ہو، رک گیا اور پھر مڑ کر اپنی بے جان آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگا۔
میں بتاتا چلوں کہ میں توہم پرست نہیں اور نہ ہی اندھیرے سے ڈرتا ہوں۔ میں نے بے شمار راتیں اس سے بھی خطرناک جگہوں پر گزاری ہیں۔ میں نے ادھ کھائی انسانی لاشوں پر بھی آدم خور کا انتظار کرتے ان گنت راتیں بسر کی ہیں اور پہلے بھی مجھے ایسے لگا تھا کہ جیسے لاشیں حرکت کر رہی ہوں۔ مگر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کٹا ہوا سر اپنے آپ اس طرح ہلا ہو۔
انتہائی شدید خوف نے مجھے جیسے جکڑ لیا ہو اور دل چاہا کہ اٹھ کر بھاگ جاؤں۔ مگر پھر عقلِ سلیم نے تسلی دی کہ مردہ انسانی سر کسی بھی قیمت پر خود سے نہیں ہل سکتا۔ مگر پھر کس چیز نے اسے ہلایا ہوگا؟
میں نے سر کو بغور دیکھا اور پھر چاندنی میں مجھے جواب مل گیا۔ سفید ریت پر دو تاریک جسم ہلتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ دو کالے بھنورے تھے جو ڈیڑھ انچ لمبے ہوتے ہیں۔ انہیں Rhinoceros beetles کہتے ہیں اور ان کی ناک لمبوتری ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ شبینہ ہوتے ہیں مگر علی الصبح یا شام کو بھی جنگل میں دکھائی دے جاتے ہیں اور عموماً گوبر کی گیند بنا کر اسے لڑھکائے جا رہے ہوتے ہیں جو ان سے دو یا تین گنا زیادہ بڑی ہوتی ہے۔
دونوں بھنوروں نے مل کر ایک بار سر کو حرکت دے دی مگر دوسری بار کامیاب نہ ہو پائے۔ میں اس منظر میں اتنا کھو گیا تھا کہ مجھے شیرنی یکسر بھول گئی تھی۔اگر شیرنی حملہ کرتی تو میں بالکل تیار نہ ہوتا۔
ایک بج کر چالیس منٹ پر پٹڑیاں لرزنے لگیں۔ پھر مجھے دور سے آواز نزدیک ہوتی سنائی دی۔ پھر تیز سیٹی کی آواز نے ماحول درہم برہم کر دیا اور پھر انجن کی طاقتور روشنی مجھ پر پڑی۔ مدراس سے بمبئی جانے والی نائٹ میل ٹرین تھی۔
بادلِ نخواستہ میں اٹھا اور اپنا تھیلا اٹھا کر نالے کے کنارے پٹڑی سے دو فٹ دور چلا گیا۔ تاہم مجھے ٹرین ڈرائیور یاد نہ رہا۔ اس نے روشنی میں مجھے دیکھ لیا تھا مگر میری رائفل اسے دکھائی نہ دی۔ چند منٹ بعد اس نے مجھے بتایا کہ وہ سمجھا کہ میں خودکشی کرنے لیٹا تھا اور عین وقت پر ہمت جواب دے گئی تو اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ بتاتا چلوں کہ ہندوستان میں خودکشی کا یہ طریقہ کافی مقبول ہے۔
خیر، بریکوں کی آواز اور بھاپ کی سیٹی کے بعد ٹرین مجھ سے تھوڑا آگے جا کر رکی۔ اگلے لمحے بھاری بوٹوں کی دھمک ہوئی اور کئی لوگ میری جانب لپکے۔ یہ ڈرائیور اور دو فائر مین تھے جو انجن سے اترے۔
آتے ہی انہوں نے مجھے دبوچ لیا۔ پھر انہیں احساس ہوا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس دوران بوگی کی کھڑکیوں سے لوگوں نے سرنکال کر دیکھنا شروع کر دیا اور سینکڑوں آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ گارڈ بھی ٹرین کے عقب سے آیا۔ سو انہیں حقیقت بتانی ہی پڑی۔
‘لاش کہاں ہے؟‘ ادھیڑ عمر کے اینگلو انڈین ڈرائیور نے پوچھا۔ میں نے لاش کی جانب اشارہ کیا۔ ‘تم یہاں اکیلے لیٹے ہوئے ہو؟‘ اس نے غیر یقینی سے پوچھا۔
جب میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے کہا، ‘تم پاگل ہو گئے ہو‘ اور ساتھ اپنی کھوپڑی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے دو فائرمین اور ہندوستانی گارڈ نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
چند منٹ بعد ٹرین بمبئی کو اپنے سفر پر روانہ ہو گئی اور میں پھر اکیلا رہ گیا۔ اتنے شور و غل کے بعد شیرنی کا آنا ناممکن لگ رہا تھا۔
اڑھائی بجے پھر پٹڑیاں لرزنے لگیں۔ اس بار انجن کی روشنی پڑنے سے قبل ہی میں کنارے پر لیٹ گیا اور رائفل چھپا دی۔ نتیجتاً مال بردار گاڑی بغیر رکے نکل گئی۔ چار بجے پھر یہ عمل دہرایا گیا اور اس بار ریٹرن میل ٹرین تھی جو پوری رفتار سے بمبئی سے مدراس جا رہی تھی کہ میل ٹرینیں ماموندر پر نہیں رکتیں۔
صبح کاذب آئی اور چلی گئی۔ پھر دور سے بیدار ہوتے مور کی آواز سنائی دی جس کے فوراً بعد جنگل کے سب سے پیارے پرندے بھورے جنگلی مرغ کی آواز آئی۔
ہلکے گلابی رنگ کی لکیر مشرقی پہاڑیوں پر دکھائی دی جو کالے آسمان میں واضح دکھائی دے رہی تھی۔ اسی دوران ساری رات چمکنے کے بعد چاند غروب ہونے والا تھا اور اب مدھم پڑنا شروع ہو گیا۔
پھر گلابی رنگ مدھم ہوتا ہوا سرخی مائل اور پھر سبز اور نیلے کے رنگوں کے امتزاج کے ساتھ بدلتا رہا۔ پھر اس کا رنگ عنابی مائل زرد ہوا اور پھر نارنجی اور پھر گہرا سرخ اور پھر سورج مشرقی پہاڑیوں کے اوپر سے نمودار ہوا۔
سورج کی روشنی بڑھنے لگی اور آخرکار پورا سورج نکل آیا۔ آسمان پر خوبصورت بادل دکھائی دے رہے تھے۔ پھر اچانک سارے جنگل سے اندھیرا چھٹ گیا اور سورج کی روشنی ہر جگہ پڑنے لگی۔
ایک نیا دن پیدا ہوا اور اپنے ہمراہ پورے جنگل کے پرندوں کی خوبصورت چہکار لے کر آیا۔ ہر جھاڑی اور درخت زندگی سے بھرپور اور تازہ دم تھا۔ ہندوستانی جنگلوں میں طلوعِ آفتاب دیکھنے والے لوگ کبھی وہ منظر نہیں بھول سکتے۔
سر کا رخ اب بھی میری جانب تھا مگر اس نے دوبارہ حرکت نہیں کی۔ اسے حرکت دینے والے بھنورے کب کے جا چکے تھے۔
میں نے سٹیشن کا رخ کیا اور مایوسی کی حالت میں سٹیشن ماسٹر کو حالات سے آگاہی دی کہ وہ متوفی کی لاش کو شمشان گھاٹ بھجوا دے۔ آٹھ بجے میں بنگلے کے برآمدے میں سو رہا تھا۔ دوپہر کو سمندری ہوا سے میری نیند بھی گہری ہو گئی۔
چار بجے میں اٹھا تو بالکل تازہ دم تھا اور جلدی جلدی دوپہر کا کھانا کھا کر چائے پی۔ اتنی دیر میں ارکیا سوامی نے بتایا کہ وہ چار دیگر افراد کے سات گاروں کو دیکھنے گیا تھا اور سبھی بعافیت تھے۔ لگتا تھا کہ شیرنی انہیں نہیں مارنے والی۔
پھر مغرب کا وقت ہوا اور بہترین چاندنی پھیل گئی۔ میرا دل چاہا کہ گشت کروں۔ اگر میں فائر لائن کے عین وسط میں چلتا تو محتاط چلتے ہوئے میں محفوظ رہتا۔ اس کے علاوہ یہ شیرنی کو للچانے کا بھی ایک طریقہ تھا۔
میں اپنے ہمراہ خاکی کپڑے اور کالی قمیض لایا تھا جو رات کو مچان پر بیٹھنے کے لیے ہی مناسب ہوتے ہیں۔ سو میں نے ارکیا سوامی کے گھر جا کر اس کی لمبی سفید قمیض مانگی اور نیچے خاکی پتلون پہنی ہوئی تھی۔ پھر ارکیا سوامی نے میرے سر پر پگڑی بھی باندھ دی۔
پتہ نہیں کہ مجھے دیکھ کر شیرنی کو کیا محسوس ہوتا مگر دیہاتی لوگ میرا منصوبہ سن کر کافی پریشان ہوئے۔
کچھ دیر تو میں سوچتا رہا کہ کون سی فائر لائن لوں پھر میں نے مشرقی سمت جانے والی لائن پکڑ لی۔ ساڑھے سات بجے گشت کا آغاز ہوا۔ میں لائن کے عین وسط میں چل رہا تھا اور آنکھوں کو حرکت دیتے ہوئے دونوں اطراف سے پوری طرح چوکنا تھا۔ وقتاً فوقتاً میں اپنے عقب میں بھی دیکھ لیتا۔
اگرچہ چاندنی خوب چھٹکی ہوئی تھی مگر جھاڑیوں کے نیچے تاریکی ہی تھی۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ چاندنی کے باوجود مجھے جھاڑیوں میں بیٹھے درندے کو دیکھنا کارِ دارد ہوگا اور یہ شیرنی تو ویسے بھی چھپی ہوئی ہوگی۔اس لیے میں نے سماعت پر بھروسہ کیا اور ساتھ چھٹی حس بھی تو موجود تھی۔
ہر دس منٹ بعد میں سیٹی پر کوئی نہ کوئی دھن بجاتا تاکہ شیرنی کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر سکوں۔ ہر تیس سیکنڈ بعد اسے روک دیتا تاکہ میرے کانوں کو آوازیں سننے میں مشکل نہ ہو۔
جھاڑیوں سے بھری کئی پہاڑیوں کے پاس سے میں نے گزرتے ہوئے سرسراہٹیں سنیں۔ یہ آوازیں بانس کے جھنڈ میں رہنے والے چوہے عام نکالتے ہیں جو میری آمد سے خبردار ہو کر چھپ جاتے تھے۔ پھر مجھے طویل سرسراہٹ سنائی دی جو شاید رسل وائپر ہوگا۔ اس سانپ کی عادت ہے کہ کنڈلی مار کر بیٹھتا ہے تاکہ گرم ہو سکے۔ پھر فائر لائن سے گزرنے والے ایک خرگوش پر آسمان سے کوئی بھاری چیز گری۔ یہ بڑا الو تھا جو خرگوش کی پیشانی پر اب مسلسل ٹھونگے مارتا جا رہا تھا۔ میں نزدیک پہنچا تو الو نے اپنے پر خرگوش کے گرد اس طرح پھیلا دیے جیسے وہ اسے بچا رہا ہو، ویسے ہی جیسے مرغی چوزوں کو بچاتی ہے۔ جب میں بہت قریب پہنچا تو الو اڑ گیا۔ میں نے لپک کر خرگوش کو اٹھایا اور اس کی کمر تھپکی۔ جونہی اسے ہوش آیا، اس نے لاتیں مارنا شروع کر دیں۔ میں نے اسے نرمی سے زمین پر رکھا اور وہ بھاگ کر اونچی گھاس میں گم ہو گیا۔
ان جنگلوں میں بھینسے نہیں ہوتے مگر ریچھ عام ملتے ہیں۔ جلد ہی ریچھ دکھائی دے گیا جو دیمک کھائے جا رہا تھا۔ درمیان میں وہ عجیب عجیب طرح کی بڑبڑاہٹ اور غراہٹ کی آوازیں نکالے جا رہا تھا۔ اس آواز سے مجھے اس کی موجودگی کا علم ہوا اور پھر دکھائی دے گیا۔
یہاں میرے دائیں جانب دیمک کی بل تھی اور اس کے پاس کھڑے ہو کر ریچھ نے اس میں سوراخ کیا اور سر ڈال کر دیمک ہڑپ کرنا شروع کر دی۔ جب بھی بڑی مقدار میں دیمک نگلتا تو خوشی کی آواز آتی۔
ریچھ اتنا مصروف تھا کہ میں اس کے پاس سے گزر گیا مگر اسے میری موجودگی کا احساس تک نہ ہوا۔ دو گھنٹے تک میں اس فائر لائن پر چلتا رہا اور پھر واپس مڑا۔ ریچھ جا چکا تھا۔ فارسٹ بنگلے تک کچھ اور نہ دکھائی دیا۔
پھر میں نے شمالی فائر لائن کا رخ کیا اور ریل کی پٹڑی کی سمت چل پڑا۔ یہ فائر لائن سیدھی نہیں ہے بلکہ دائیں بائیں گھومتی جاتی ہے۔ تیسرے میل پر ایک ندی راستے میں پڑتی ہے جس میں صاف شفاف اور ٹھنڈا پانی چاندی کی طرح چمک رہا تھا۔
یہاں جھک کر میں نے بائیں ہاتھ کی اوک سے پانی پیا جبکہ دائیں ہاتھ میں رائفل تھامی ہوئی تھی۔ اس دوران میں نے پوری توجہ سے آس پاس کے جنگل کو دیکھا۔ تاہم نہ تو کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی کچھ سنائی دیا۔ میں پھر چل پڑا۔
گارا اگلے موڑ پر بندھا ہوا تھا اور صحیح سلامت تھا۔ جب میں پاس سے گزرا تو اس نے مجھے عجیب سے انداز سے دیکھا کہ میں نے اسے کیوں یہاں باندھا ہوا ہے۔ میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا، سو نظریں چراتے ہوئے میں چل پڑا۔
آخرکار میں پٹڑی پر پہنچا۔ یہاں فائر لائن رک جاتی ہے اور یہاں سے جنگلی جانوروں کی گزرگاہ شروع ہو کر سبزے میں گم ہو جاتی ہے۔ مزید آگے جانا خطرناک ہوتا۔ سو میں واپس مڑا۔
واپسی کے راستے پر مجھے ایک کوبرا دکھائی دیا جو جنگلی چوہے کو نگل رہا تھا۔ تین چوتھائی چوہا اندر تھا اور پچھلے پیر اور دم لٹک رہی تھی۔ سانپ نے مجھے دیکھا تو اپنا پھن زمین سے دو فٹ اوپر اٹھا کر پھیلا دیا۔ پچھلی ٹانگیں اور دم اس کے منہ سے لٹک رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں چاندنی میں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں۔
یہاں رک کر میں نے نے زمین پر پیر مارے اور تالی بجائی۔ سانپ اچانک پریشان ہوا اور چوہے کو اگلنے کے بعد ایک طرف کی گھاس میں گم ہو گیا۔
ایک بار پھر میں بنگلے کو پہنچ گیا۔ پونے تین بج رہے تھے اور میں ںے بیس میل طے کر لیے تھے۔
اب دو فائر لائن بچ گئی تھیں مگر میرے پاس ایک کا وقت تھا۔ یا تو جنوب مشرق والی کا رخ کرتا جو ابھی تک میں نے نہیں دیکھی تھی یا پھر جنوب مغرب والی کا رخ کرتا جو ریلوے کی پٹڑی کو جاتی ہے اور وہاں پچھلی رات میں لاش پر بیٹھا تھا۔ بغیر کسی وجہ کے میں نے دوسری کا رخ کیا۔
میں ریلوے لائن تک پہنچا اور اسے عبور کر کے مزید آگے ایک میل مغرب کو گیا کہ اچانک شیرنی کی دھاڑ سے رات کا سناٹا ٹوٹ گیا۔ ایسا لگا کہ شیرنی مجھ سے محض دو فرلانگ آگے ہو۔ شاید شیرنی اسی فائر لائن پر ہی آ رہی ہو یا اس کا رخ دوسری جانب ہو۔
پچاس گز دوڑ کر میں ایک درخت کے پیچھے چھپا اور رائفل کو تیار کر کے تانا اور پھر نر شیر کی آواز نکالی۔
فوری جواب ملا اور اس بار یہ جواب محض سو گز دور سے آیا تھا۔ اب اگر میں دوبارہ بولتا تو اتنے قریب سے شیرنی کو احساس ہو جاتا کہ آواز نقلی ہے۔
بہت قریب سے شیر کی آواز نہیں نکالنی چاہیے کیونکہ اصلی شیر آواز کا فرق پہچان لیتا ہے۔ اگر شیر کو شک ہو جائے تو فرار ہو جاتا ہے۔ سو گز سے زیادہ دوری پر یہ آواز کام دیتی ہے۔ اگرچہ آدم خور شیر ہو یا ویسے فطری تجسس، عین ممکن ہے کہ شیر پھر بھی آ جائے، مگر اس کو شک ہو جائے تو فرار بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں خاموش رہا۔
تیس سیکنڈ بعد شیرنی میرے سامنے فائر لائن پر آتی دکھائی دی۔ اس کی کھال چاندنی میں چمک رہی تھی۔ وہ میرے سامنے پہنچی اور پھر گزر گئی۔
میں نے کان کے پیچھے گولی چلائی۔ زمین پر گرتے ہوئے اس کی دم ایک بار ہلی۔ اسے علم بھی نہ ہو سکا کہ کیا ہوا ہے۔ انتہائی غیر شکاری انداز سے شیرنی ہلاک ہوئی۔
تاہم گزشتہ کئی سال سے ماموندر میں درندوں کے ہاتھوں کوئی انسانی ہلاکت نہیں ہوئی۔ یہ شیرنی نوجوان اور ہٹی کٹی تھی اور کوئی وجہ نہیں دکھائی دی کہ اس نے کیوں آدم خوری شروع کی۔ شاید چملا کے آدم خور نے اسے عادت ڈالی ہو۔
گرہٹی کا پاگل ہاتھی
یہ ایک پاگل ہاتھی کی داستان ہے جسے مدراس کی حکومت نے سرکاری طور پر سالم کے کلکٹر اور ضلعی افسر برائے جنگلات کے ذریعے پاگل قرار دیا تھا۔
یہ واقعات بہت پہلے رونما ہوئے تھے۔ عام پاگل ہاتھیوں کی مانند اس ہاتھی کے پاگل ہونے کا سبب بھی معلوم نہیں ہو سکا۔ گرہٹی کے فارسٹ گارڈ کے مطابق اس ہاتھی کے پاگل ہونے سے ایک ماہ قبل رات کے وقت اس نے دو نر ہاتھیوں کی لڑائی کی آواز جنگل میں سنی تھی۔ اس کے مطابق لڑائی تین گھنٹے سے زیادہ جاری رہی اور فارسٹ بنگلے سے نصف میل دور چشمے پر ہوئی تھی۔
اگلے روز وہ جنگل گیا تو اس نے بہت زیادہ خون دیکھا۔ اس کے بیان کردہ واقعات سے اندازہ ہے کہ یہ لڑائی بہت بڑی تھی۔ شاید پاگل ہاتھی اس لڑائی میں شدید زخمی ہوا ہوگا اور پھر اس نے نسلِ انسانی سے انتقام لینا شروع کر دیا۔
ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی جاتی تھی کہ شاید یہ مست ہاتھی ہوگا۔ ہر سال نر ہاتھی تین ماہ کے لیے مست ہوتے ہیں اور بہت خطرناک ہو جاتے ہیں۔
تیسرا امکان یہ ہے کہ ضلع سالم میں بہت سارے چور شکاری ہیں اور یہ ہاتھی ان میں سے کسی کی گولی کا نشانہ بنا ہوگا۔ یہ لوگ خشک موسم میں چشموں اور چاٹن (جہاں مٹی میں قدرتی طور پر نمک ملتا ہو) کے قریب چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہاں آنے والے ہر معصوم جانور کو بے دریغ ہلاک کرتے جاتے ہیں۔ شاید کسی چور شکاری نے غلطی سے یا گھبرا کر ہاتھی کو گولی ماری ہو اور زخمی ہاتھی پاگل ہو گیا ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی فصل کی حفاظت کرتے ہوئے کسی کسان نے اس پر توڑے دار بندوق سے گولی چلائی ہو۔ ہاتھی جنگل کے قریب کھیتوں میں سخت تباہی پھیلاتے ہیں۔
وجہ جو بھی رہی ہو، گرہٹی کا پاگل ہاتھی اچانک نمودار ہوا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے پورا جنگل بند کر کے دہشت پھیلا دی اور پیدل مسافر اور بیل گاڑی پر سوار افراد چار سو مربع میل کے اس علاقے سے کترانے لگے۔
گرہٹی چھوٹی سی بستی ہے جس میں پانچ یا چھ گھر ہیں اور انچٹی سے پناگرام جانے والی سڑک سے دو میل دور وادی میں ہے۔ یہ جگہ ضلع سالم کے شمالی فارسٹ ڈویژن میں ہے۔ یہاں کا علاقہ پہاڑی ہے اور تلوادی کی ندی سے تین میل کے فاصلے تک بانس کے گھنے جنگل ہیں۔ اس مقام سے پندرہ میل آگے جا کر تلوادی ندی دریائے کاویری سے مل جاتی ہے۔ بانس کے جنگل میں ہمیشہ سے ہاتھی رہتے آئے ہیں اور اکثر تین چار تنہا ہاتھی بھی مل جاتے ہیں جو اگرچہ پاگل تو نہیں ہوتے، مگر ان کا سامنا کرنے سے عموماً گریز ہی کیا جاتا ہے۔
ایک اور ندی گولاموٹھی کے نام سے ہے جو تلوادی کے متوازی اور اس سے بارہ میل شمال میں بہتی ہے اور آگے جا کر گنڈالم دریا سے ملتی ہے۔ یہ دریا مزید آگے کاویری سے مل جاتا ہے۔ یہ تین دریا اور یہاں کی پہاڑیاں اور بانس کے گھنے جنگل ہاتھیوں کی رہائش کے لیے بہترین مقام ہیں اور یہیں سے پاگل ہاتھی کی وارداتوں کا آغاز ہوا۔
ابتدا کچھ ایسے ہوئی۔ گرمیوں کے وسط میں گولاموتی کی ندی خشک ہو گئی اور کہیں کہیں پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب سے بچ گئے جو دریا کی تہہ میں اور پتھروں سے گھرے ہوئے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک تالاب میں کچھ مچھلیاں بھی جمع ہو گئی تھیں جو چھ سے آٹھ انچ لمبی تھیں۔ ایک روز سہ پہر کے وقت پانچ میل دور انچٹی سے دو بندے اس خشک ہوتے ہوئے تالاب میں جال ڈال کر مچھلیاں پکڑنے آئے۔
تالاب پر پہنچ کر انہوں نے جال لگایا۔ جلد ہی کافی مچھلیاں پکڑ لیں۔ پھر مچھلیاں ٹوکریوں میں ڈال کر وہ ایک درخت کے نیچے قیلولہ کرنے سو گئے۔
پانچ بجے ان میں سے ایک کی آنکھ کھلی۔ سورج تالاب کے مغرب والی پہاڑی کے پیچھے چھپ گیا تھا مگر روشنی خاصی تھی۔ جب وہ بیٹھا تو پیچھے سے کوئی آواز سنائی دی۔ مڑ کر دیکھا کہ گولاموتی کے جنوبی کنارے سے ہاتھی اتر کر ان کی سمت آ رہا تھا۔
اس بندے نے اپنے ساتھی کو جھنجھوڑا اور تامل میں چیخا: ‘انائی وارا دھو‘ جس کا مطلب تھا کہ ہاتھی آ رہا ہے۔ پھر وہ بندہ شمالی کنارے کے جنگل کو بھاگ گیا۔ اس کا ساتھی اچانک نیند سے بیدار ہوا تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور حیرت سے اپنے ساتھی کو جاتے دیکھتا رہا۔ اتنے میں ہاتھی سر پر آ گیا۔
فرار ہونے والا بندہ اپنے پیچھے ساتھی کی چیخیں سنتا رہا جو ہاتھی کی چنگھاڑ کے ساتھ آ رہی تھیں۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ ظاہر ہے کہ اس نے رک کر صورتحال جاننے کی کوشش نہیں کی۔ دو روز بعد انچٹی سے ایک جماعت اس بندے کی باقیات کو اٹھانے آئی جو گوشت اور ہڈیوں کے ملغوبے کی شکل میں باقی تھا۔ پہلے ہاتھی نے اس پر اپنا پیر رکھا اور پھر سونڈ کی مدد سے اس کے اعضا اکھاڑ دیے۔ پھر اس کی ایک ٹانگ دس گز دور لے جا کر جامن کے درخت سے ٹکرائی اور پھر اسے دور پھینک دیا۔
اس پاگل ہاتھی کا یہ پہلا شکار تھا۔ اس نے دوسری مرتبہ ایک لڑکے پر حملہ کیا جو اپنے مویشیوں کو گنڈالم لے جا رہا تھا۔ یہ لڑکا نوجوان اور پھرتیلا ہونے کی وجہ سے ندی کی ریت پر بھاگا اور ہاتھی پیچھے پیچھے تھا۔ جب اس نے ہاتھی کو قریب آتے دیکھا تو وہ پہاڑی کے کنارے پر چڑھ گیا جو کافی ڈھلوان تھا اور وہاں چھوٹے چھوٹے گول پتھر بکثرت تھے۔ یہاں اسے دور نکلنے کا موقع مل گیا۔
دیوانہ وار بھاگتے ہوئے اس بیچارے کے پیروں کے تلوے لیر لیر ہو گئے اور جسم پر جگہ جگہ کانٹوں سے زخمی ہو گیا۔ تاہم اس نے دوڑ جاری رکھی اور آخرکار اونچی چٹان پر چڑھ گیا جو پہاڑی پر دو سو گز کی بلندی سے شروع ہوتی تھی۔
بعد میں اس نے بتایا کہ ہاتھی اس چٹان تک پہنچ گیا تھا اور چٹان کے گرد کئی بار چکر بھی لگایا اور اپنی سونڈ سے اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ تاہم اس لڑکے نے سمجھداری سے کام لیا اور مسلسل حرکت کرتا ہوا ہاتھی سے دور رہا۔ یہاں چٹان کا کل رقبہ پچیس مربع فٹ تھا اور کئی بار ہاتھی کی سونڈ اس کے پیر سے ایک فٹ دور رہ گئی تھی۔ ایک گھنٹہ کوشش کے بعد ہاتھی اچانک مڑا اور چلا گیا۔ تاہم یہ لڑکا اتنا پریشان تھا کہ اس نے ساری رات وہیں گزاری اور اگلی صبح جب سورج خاصا چڑھ آیا تھا تو وہ اپنی تسلی کر کے اترا۔
اس کے بعد ایک ماہ گزر گیا اور مقامی لوگ یہ سوچنے لگے کہ شاید ہاتھی کہیں اور نکل گیا ہوگا یا پھر مست والی حالت ختم ہو گئی ہوگی۔
تاہم ان کی امیدیں نہ بر آئیں۔ لڑکے والے واقعے کے ٹھیک سوا مہینے بعد پاگل ہاتھی نے نترا پالم کو پیدل جانے والے دو مسافروں کا پیچھا کیا۔ یہ بستی انچٹی سے آٹھ میل جنوب میں ہے۔ ان بندوں نے اچانک دیکھا کہ سو گز دور ہاتھی ان کے پیچھے بھاگا آ رہا ہے۔ ایک آدمی تیس اور دوسرا چالیس سال کا تھا۔ بڑی عمر کا آدمی جلدی تھک گیا اور اس کا سانس چڑھ گیا۔ اسے علم تھا کہ اس کے پیچھے خوفناک موت آ رہی ہے سو اس نے ہمت نہیں ہاری۔ بدقسمتی سے اس بندے کی عقل کام چھوڑ گئی تھی ورنہ چاہتا تو کسی درخت پر چڑھ جاتا، کسی چٹان کے پیچھے چھپ جاتا یا اپنے کپڑے کا کوئی حصہ اتار کر پھینک دیتا۔ اتار کر پھینکے گئے کپڑے سے اسے کم از کم چند منٹ کا اضافی وقت مل جاتا۔ جب بھی ہاتھی پیچھے لگا ہو تو آخری چارے کے طور پر کپڑے اتار کر پھینکے چاہیں کہ جب ہاتھی کپڑوں کے پاس پہنچتا ہے تو ان میں سے انسانی بو آتی ہے اور ہاتھی انہیں پھاڑنے کے لیے رک جاتا ہے۔ اس طرح شکار کو فرار ہونےکا موقع مل جاتا ہے۔
تاہم جب تک ہمت رہی، یہ بندہ بھاگتا رہا اورجب گرا تو ہاتھی سر پر پہنچ گیا۔ ہاتھی نے اسے اٹھا کر ساتھ پڑے بڑے پتھر سے ٹکرا ٹکرا کر اس کا قیمہ بنا دیا اور پھر پھینک کر جنگل میں گم ہو گیا۔
ان واقعات کی وجہ سے محکمہ جنگلات کو عرضیاں بھیجی گئیں کہ اس ہاتھی کو پاگل قرار دیا جائے تاکہ اس ضلع کے تمام شکاریوں کو ہاتھی کے شکار کی عام اجازت مل جائے۔ عام طور پر ہندوستان میں ہاتھیوں کو بچانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔سرخ فیتے کی وجہ سے منظوری میں تین ماہ گزر گئے۔ پھر ایک ماہ کا وقفہ گزرا جس میں ضلع کے تمام لائسنس یافتہ شکاریوں کو اطلاع بھیجی گئی۔
اس دوران ہاتھی نچلا نہیں بیٹھا۔ اس نے صندل کی لکڑی سے لدی ایک بیل گاڑی پر حملہ کیا۔ گاڑی بان اور فارسٹ گارڈ جو ہمراہ تھے، جنگل میں چھپ کر اپنی جان بچا سکےتاہم گاڑی کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور بیل بھی معمولی زخمی ہوئے۔
کچھ دن گزرے کہ ہاتھی نے عجیب کام کام کیا۔ عموماً چرواہے جب مویشی چراتے ہیں تو وہ کافی رقبے پر پھیل جاتے ہیں۔ شاید ایک جانور ہاتھی کے بہت قریب چلا گیا اور ہاتھی نے اس پر حملہ کر کے اس کی کمر توڑ دی۔
پھر کچھ دن خاموشی سے گزرے کہ خبر آئی کہ ہاتھی نے ایک پجاری کو ہلاک کر دیا ہے۔ پجاری قبیلے کے لوگ اس علاقے میں رہتے تھے۔ یہ بندہ ایک ٹھیکدار کے لیے شہد جمع کر کے آ رہا تھا جس کے پاس جنگل کے اس حصے سے شہد جمع کرنے کا ٹھیکہ تھا۔
پھر سرکاری اطلاع میرے پاس پہنچی۔ اصولی طور پر مجھے ہاتھی کا شکار کرنے میں کوئی لطف نہیں آتا کہ مجھے ہاتھی پسند ہیں۔ دوسرا یہ بھی کہ اس میں خطرے کا عنصر نہیں ہے کیونکہ ہاتھی بہت بڑا جانور ہے اور جب یہ پیٹ بھر رہے ہوں تو ان کی آواز دور سے سنائی دے جاتی ہے۔ پھر محض ہوا کے رخ کا خیال رکھتے ہوئے مخالف سمت سے جا کر قریب پہنچ کر گولی چلا دی۔ اس لیے محض ہلکا سا تجربہ کافی ہے کہ پیر رکھتے ہوئے کیسے احتیاط کرنی چاہیے تاکہ کوئی ٹہنی یا خشک پتے نہ آواز پیدا کریں۔
شکار کا ایک اور اہم اصول ساکت ہونا ہے۔ چاہے آپ جس بھی حالت میں ہوں، جب شکار آپ کی سمت دیکھے تو آپ اسی حالت میں تھم جائیں۔ بعض حالتیں ایسی ہوتی ہیں کہ رکنا مشکل ہوتا ہے مگر اس وقت ہلکی سی حرکت بھی آپ کا بھانڈا پھوڑ سکتی ہے۔ ایک ہی حالت میں دس منٹ تک ساکت رہنے کی صلاحیت بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بعض اوقات یہ بہت تھکا دیتی ہے۔
ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے میں ہاتھیوں سے محض چند گز کے فاصلے تک پہنچ جاتا ہوں اور انہیں سکون سے پیٹ بھرتے دیکھتا ہوں اور انہیں میری خبر تک نہیں ہوتی۔ مگر میری بو کا ہلکا سا جھونکا یا معمولی سی آواز بھی انہیں بھاگنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ہاتھی کی نگاہ انتہائی کمزور ہوتی ہے اور اگر آپ خاکی سبز کپڑے پہنے ہوئے ہوں اور بالکل ساکت ہوں تو آپ کی طرف دیکھنے کے باوجود بھی ہاتھی آپ کو نہیں دیکھ سکے گا۔
انہی وجوہات کی بنا پر میں ہاتھیوں پر گولی چلانے کے خلاف ہوں۔ ویسے بھی بہت سارے پاگل ہاتھی حقیقت میں پاگل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، چور شکاری اور زمیندار اکثر ہاتھیوں پر گولی چلا کر انہیں زخمی کر دیتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہاتھی انسان سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ بھی ہے کہ بہت سارے واقعات جو پاگل ہاتھیوں سے منسوب کیے جاتے ہیں، حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے اور لوگ ان کے شکار کے لیے ایسے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ شکار کی اجازت مل جائے۔ عموماً کلکٹر ان واقعات کی پوری طرح چھان بین کرتے ہیں اور پھر احکامات جاری کرتے ہیں مگر بعض اوقات غلط ہاتھی بھی مارے جاتے ہیں۔
سو میں نے سرکاری اطلاع پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ مگر تین ہفتے بعد رنگا کا خط ملا جو میرا شکاری ہے اور پناگرام میں رہتا ہے۔ اس نے لکھا کہ چار روز قبل اس ہاتھی نے ایک پجاری عورت کو انائی بدھامدھوو نامی جگہ پر ہلاک کیا ہے۔یہ جگہ گرہٹی سے سات میل دور ہے۔ اس جگہ کے نام کا ترجمہ ‘وہ تالاب جہاں ہاتھی گرا‘ بنتا ہے۔ یہ قدرتی تالاب ہے جس کے کنارے پتھریلے ہیں اور اس میں انائی بدھالا نامی دریا کا پانی گرتا ہے۔ یہ دریا چنار کی ایک شاخ ہے جو بذاتِ خود کاویری کی شاخ ہے۔ کاویری جنوبی ہندوستان کا سب سے بڑا دریا ہے۔ مزید یہ کہ یہ تالاب بہت گہرا ہے اور کبھی خشک نہیں ہوا۔ بتایا گیا کہ بہت برس گزرے، ایک ہاتھی اس تالاب سے پانی پینے آیا اور پیر پھسلنے کے سبب تالاب میں جا گرا۔ چونکہ تالاب کے کنارے پتھریلے اور پھسلواں تھے، اس لیے ہاتھی باہر نہ نکل سکا۔ ہاتھی بہت اچھے تیراک ہوتے ہیں اور ان کی ہمت اور طاقت کا بھی جوڑ نہیں، مگر ان کی جسامت بہت بھاری ہوتی ہے اور یہ ہاتھی بیچارہ تین دن مسلسل تیرنے کے بعد آہستہ آہستہ ڈوب گیا۔ اس دوران گیارہ میل دور سے پناگرام سے بہت سارے لوگ جمع ہو کر یہ ‘تماشا‘ دیکھ رہے تھے۔
رنگا کا خط ملنے کے بعد، اور چونکہ رنگا سے ملے بہت عرصہ ہو گیا تھا، سو میں نے چار روز کی چھٹی لی اور پناگرام کو چل پڑا۔ راستے میں رنگا کو اٹھایا اور گرہٹی کے فارسٹ بنگلے کو جانے والے راستے کے اٹھارہ میل سڑک انتہائی خراب تھی۔ راستے میں ہم اس تالاب سے بھی گزرے۔
گرہٹی کے فارسٹ گارڈ نے ہاتھی کی موجودگی کے بارے بتایا اور یہ بھی کہ اس علاقے میں دس ہاتھیوں کاغول بھی موجود ہے۔ یہ سب ہاتھی بنگلے کے سامنے والےتالاب سے پانی پیتے تھے۔ اس غول میں کئی ہاتھی پاگل ہاتھی کی جسامت کے تھے، سو ان میں فرق کرنادشوار تھا۔ اس لیے ہمیں پگوں کا پیچھا کرنے میں کافی مشکل پیش آتی۔
مزید برآں ہاتھی کی بتائی گئی تفصیل بھی کافی مبہم تھی اور یہ بتایا گیا کہ اس کے اگلے پیر کی گولائی چار فٹ دس انچ ہے جس سے پتہ چلتا تھا کہ ہاتھی لگ بھگ نو فٹ آٹھ انچ اونچا ہوگا کیونکہ اگلے پیر کی گولائی کو دو سے ضرب دیں تو اونچائی بنتی ہے۔ ہاتھی کا رنگ سیاہ بتایا گیا تھا مگر نہانے کے بعد ہر ہاتھی سیاہ نکل آتا ہے۔ مگر ہاتھی مٹی میں لوٹ لگاتے ہیں تو ان کا رنگ بھی مٹی کی مناسبت سے بدلتا رہتا ہے۔ یہ بھی کوئی اہم نشانی نہیں تھی۔ البتہ ایک چیز اہم تھی کہ بتایا گیا تھا کہ اس ہاتھی کے بیرونی دانت تین فٹ سے زیادہ طویل اور سرے پر ایک دوسرے کو قطع کرتے تھے۔
آپ نے درست اندازہ لگایا کہ محض آخری نشانی ایسی تھی کہ میں ہاتھی کی تلاش میں استعمال کر سکتا تھا۔ تاہم اس لیے مجھے ہاتھی کو عین سامنے سے دیکھنا پڑتا کہ اطراف سے مغالطہ ہو سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ غلط ہاتھی کا شکار کرتا تو نہ صرف مجھے افسوس ہوتا بلکہ سرکاری طور پر مجھے کافی مشکلات پیش آتیں۔
ایک طریقہ تو یہ تھا کہ میں تالاب پر جا کر ہر ہاتھی کے قدموں کے نشانات ماپتا اور مطلوبہ حجم والے نشانات کا تعاقب کر کے ہاتھی کے دانت دیکھتا اور اگر اس کے دانت سروں پر ایک دوسرے کو قطع کر رہے ہوتے تو وہی میر امطلوبہ ہاتھی ہوتا۔ اگر دانت فاصلے پر ہوتے تو اس ہاتھی کو چھوڑ کر واپس تالاب پر آتا اور اسی طرح دوسرے ہاتھی کا تعاقب کرتا۔ یاد رہے کہ میرے پاس کل چار روز تھے اور ان میں سے ایک دن رنگا کو اٹھانے، گرہٹی آنے اور تحقیق کرنے پر صرف ہو گیا تھا۔
رات کو دس بجے مجھے ہاتھیوں کے غول کی آواز تالاب کی سمت سے آئی۔ ظاہر ہے کہ یہ میرے مطلوبہ ہاتھی نہیں تھے۔ سو میں دوبارہ سو گیا۔
صبح پو پھٹتے ہی میں اٹھا اور رنگا اور فارسٹ گارڈ کو اپنے منصوبے کے بارے بتایا۔ تالاب کے کنارے پر مٹی بھربھری ہو چکی تھی اور ہر عمر کے ہاتھی کے پیروں کے نشانات موجود تھے۔
تالاب کے گرد چکر لگایا تو مجھے مطلوبہ جسامت کے تین ہاتھیوں کے نشان ملے۔ ان میں سے دو تالاب کے اسی جانب تھے جہاں سے غول نے پانی پیا تھا۔ تیسرا ہاتھی دوسری جانب سے آیا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہی ہاتھی ہمارا مطلوبہ ہوگا۔ سو ہم نے ان کے تعاقب کا فیصلہ کر لیا۔ رنگا آگے چل رہا تھا۔ میرے پاس اعشاریہ 400/450 بور کی دو نالی جیفریز رائفل تھی جبکہ میرے پیچھے فارسٹ گارڈ عقب کی نگرانی کرتا آ رہا تھا کہ کہیں ہاتھی چکر کاٹ کر اب ہمارے پیچھے نہ اپنا پیٹ بھر رہا ہو۔
تالاب سے کچھ دور تک لمبی تیز دھار گھاس موجود تھی جہاں ہاتھیوں کے گزرنے کی وجہ سے راستے سے بنے ہوئے تھے۔ پھر خاردار جھاڑیاں اور بیلیں شروع ہوئیں۔ یہاں بھی ہاتھی کی گزرگاہ صاف دکھائی دے رہی تھی مگر چلتے ہوئے کانٹے بار بار ہمارے کپڑوں میں اٹک جاتے۔
تاہم نشانات واضح تھے اور ہم نے کچھ ہی وقت میں ایک میل کا سفر کر لیا اور ایک چھوٹی پہاڑی کے نیچے جا پہنچے۔ اس پہاڑی کی ڈھلوانیں بانس کے گھنے جنگل سے بھری ہوئی تھیں اور ہاتھی ان سے گزر کر اوپر کو گیا تھا۔ یہاں کئی جگہ رک کر اس نے بانس کی نرم کونپلوں سے پیٹ بھرا تھا اور جگہ جگہ گرے ہوئے بانس اس کا ثبوت تھے۔ یہاں ہاتھی کا بہت سارا گوبر بھی پڑا تھا اور چوٹی سے ہو کر ہم نیچے اترے تو ظاہر تھا کہ ہاتھی یہاں صبح سویرے کئی گھنٹے تک اپنا پیٹ بھرتا رہا تھا کہ یہاں موجود ہاتھی کا گوبر ابھی نیم گرم تھا۔
یہاں سے آگے بڑھنا کافی دشوار ہو گیا۔ ہر سمت بانس کا گھنا جنگل تھا اور ذرا سی بھی بے احتیاطی سے شور ہوتا اور ہاتھی بھاگ جاتا۔
میں ںے رنگا کے بازو کو چھو کر اسے ساکت ہونے کا اشارہ کیا اور خود بھی تھ گیا۔ دس منٹ تک ہم نے ہاتھی کے پیٹ بھرنے کی آواز سننے کی کوشش کی جو خوراک ہضم کرتے ہوئے ہاتھی نکالتا ہے۔ مگر جنگل نسبتاً خاموش تھا اور جنگلی مرغوں کی آوازیں ہر سمت سے آ رہی تھیں اور سامنے والی پہاڑی پر لنگور شور کر رہے تھے۔
بظاہر ہاتھی کہیں آرام کر رہا ہوگا یا پھر نیچے وادی میں چلا گیا ہوگا۔ اس لیے ہم نے احتیاط سے پیش قدمی جاری رکھی۔ ہمیں مسلسل نیچے بھی دیکھنا پڑتا تھا کہ ہم چلتے ہوئے کوئی شور نہ کریں۔ نصف میل کے مزید سفر کے بعد ہم وادی میں پہنچ گئے جہاں جھاڑیاں بہت زیادہ تھیں۔ ان میں جنگلی آلو بخارے، کھڑبیل اور املی کے درخت بھی بکثرت تھے اور پندرہ یا بیس گز سے زیادہ دور کچھ نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اگلے دو سو گز کے بعد ہم گولاموٹھی دریا کو جانے والی ایک ندی کی پتھریلی گزرگاہ پر پہنچ گئے۔
یہاں ہاتھی مڑا اور پچاس گز دور ریتلے قطعے سے ہو کر گزرا۔ دوسرے کنارے پر جہاں ہاتھی چڑھا، کافی ڈھلوان تھا۔ اس پر چڑھتے ہوئے خطرہ تھا کہ سامنے کہیں پاگل ہاتھی نہ آ جائے۔
ہر ممکن طریقے سے ہم بہت آہستگی اور خاموشی سے آگے بڑھنے لگے۔ ہاتھی اب پھر چل پڑا تھا۔ جلد ہی ہم نے جان لیا کہ وہ پہاڑی کی دوسری جانب والی وادی کی طرف جا رہا ہے۔ یہ سوچ کر ہم نے اپنی رفتار بڑھا دی مگر چوتھائی میل دور گئے ہوں گے کہ ہمیں ہاتھی کے نظامِ انہضام سے نکلنے والی آوازیں آنے لگیں۔
میں نے رنگا اور فارسٹ گارڈ کو املی کے مضبوط اور تناور درخت پر چڑھا دیا اور خود اکیلا اس جانب بڑھا۔ ہاتھی ایک نشیب میں تھا جہاں بانس کا گھنا جنگل تھا۔ بظاہر وہ آرام کر رہا تھا یا شاید لیٹا ہوا ہو کیونکہ اس کی چرنے کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ تاہم اب ہاضمے کے دوران نکلنے والی آوازیں بھی بند ہو گئی تھیں۔
بہت احتیاط سے میں قدم بقدم نشیب میں داخل ہوا۔ پھر جھک کر میں نے مٹی اٹھائی اور گرا کر ہوا کا رخ جانچا۔ مٹی تقریباً سیدھی گری یعنی ہوا نہیں چل رہی تھی۔ یہ مسئلہ ہو سکتا تھا کہ تھمی ہوئی ہوا میں ہاتھی میری بو سونگھ لیتا۔
اس طرح مزید محتاط ہو کر میں آگے بڑھا۔ بانس میرے اوپر چھائے ہوئے تھے اور ہر جھنڈ کے پاس پہنچنے سے قبل اس کا بغور جائزہ لیتا۔ چند گز آگے جا کر مجھے اپنے سامنے سلیٹی رنگ کا ایک تودہ دکھائی دیا۔ یہ ہاتھی تھا جو زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے اس کا رخ میری مخالف جانب تھا۔
اب دو ہی راستے تھے: یا تو میں چکر کاٹ کر دوسری جانب جاتا اور ہاتھی کے دانت دیکھتا یا پھر اسے نیند سے بیدار کرتا۔ ظاہر ہے کہ بیدار ہوتے ہی ہاتھی میری جانب رخ کرتا۔ سو اسے ہلاک کرنے سے قبل میں تسلی کر لیتا۔
دوسرے طریقے کو آسان سمجھتے ہوئے میں بانس کے ایک جھنڈ کے پیچھے جزوی طور پر چھپا اور سیٹی بجائی۔ ہاتھی نے حرکت نہ کی۔ شاید وہ گہری نیند سو رہا تھا یا پھر اس نے سوچا کہ کوئی پرندہ بولا ہوگا۔ پھر میں نے ٹک ٹک کی آواز نکالی۔ ہاتھی فوراً بیدار ہوا اور میری جانب مڑا۔
بہت بڑا ہاتھی تھا۔ کم از کم دس فٹ اونچا ہوگا اور اس کے خوبصورت دانت صبح سویرے دھوپ میں چمک رہے تھے۔ تاہم ان کا درمیانی فاصلہ زیادہ تھا۔ غلط ہاتھی کا پیچھا کیا تھا۔
نصف منٹ تک ہاتھی مجھے حیرت سے دیکھتا رہا اور اس کی ننھی آنکھیں نیند کے خمار سے بوجھل تھیں۔ میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہوگا۔ حیرت کے بعد اس کا دوسرا تاثر ناراضگی تھا جس کے اظہار کے لیے وہ چنگھاڑا اور میری جانب ایک دو قدم بڑھا۔ میں نے ایک بار سیٹی بجائی اور ہاتھی مڑ کر جنگل میں غائب ہو گیا۔
جب میں واپس رنگا اور فارسٹ گارڈ کے پاس پہنچا تو وہ صورتحال کا اندازہ کر کے املی کے درخت سے اتر آئے تھے۔ پھر ہم تینوں مایوسی کے مارے واپس تالاب کو لوٹے۔ غصہ الگ تھا۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، دو اور ہاتھیوں کے پیروں کے نشان بھی اس جیسے تھے۔ مگر یہ نشان کیچڑ پر تھے، سو ان کی درست پیمائش کارِ دارد تھی کہ کیچڑ میں نشان اصل سے بڑا بنتا ہے۔ رنگا نے ایک کا پیچھا کیا جبکہ میں اور فارسٹ گارڈ دوسرے ہاتھی کے پیچھے گئے اور طے کیا کہ پندرہ منٹ کے بعد واپس یہیں لوٹ کر بات کریں گے۔
کچھ دور جانے پر پتہ چل گیا کہ یہ ہاتھی غول کے ساتھ گیا تھا اور عام ہاتھی تھا کہ جنگل میں ہتھنیوں اور بچوں کے پیٹ بھرنے کے نشانات ملے تھے۔ یہ ہاتھی پاگل نہیں ہو سکتا، سو پندرہ منٹ بعد میں واپس لوٹا۔ رنگا کے پاس چونکہ گھڑی نہیں تھی، سو وہ ابھی واپس نہیں آیا تھا۔ سو زمین پر بیٹھ کر میں نے پائپ اور چائے پی، فارسٹ گارڈ تھرماس اٹھائے ہوئے تھا۔ مزید دس منٹ بعد رنگا واپس آیا اور بولا کہ وہ چوتھائی میل گیا تھا اور یہ ہاتھی چکر کاٹ کر بنگلے کے پیچھے اور دیگر ہاتھیوں کے عین مخالف سمت گیا تھا۔
یہ خبر امید افزا تھی سو ہم فوراً روانہ ہو گئے۔ جلد ہی ہم اس مقام پر پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر یقین ہو گیا کہ یہ ہاتھی مسافر ہے کیونکہ وہ پیٹ بھرنے کے لیے کہیں نہیں رکا تھا، بس کہیں کہیں سونڈ سے کونپلیں نوچتا گیا تھا۔یہ ہاتھی سیدھا آگے بڑھتا ہوا فارسٹ بنگلے کے پیچھے والے جنگل میں دو پہاڑیوں سے گزرا اور اس کا رخ براہ راست تلوادی کی ندی کی طرف تھا۔
اس ندی تک پہنچنے میں ہم چار میل کا سفر کرنا پڑا اور یہاں ہاتھی جنوب مغرب کو مڑ گیا تھا اور دریائے تلوادی میں ہی سفر کر رہا تھا۔ مجھے علم تھا کہ دریائے کاویری اس جگہ سے پندرہ میل دور ہے، سو مجھے لگا کہ ہاتھی نے اچانک کاویری کا رخ کر لیا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو دریا کو تیر کر عبور کرتا اور دوسرے کنارے پر پہنچ کر گم ہو جاتا کہ وہاں نہ صرف جنگل بہت گھنا ہے بلکہ وہاں کا علاقہ پہاڑی بھی ہے اور نیلگری اور بلیگیری رنگن تک سو میل تک مسلسل جنگل ہی جنگل ہے۔
ہم لوگ ہر ممکن تیزی سے بڑھے اور ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے ہاتھی کا پیچھا کئی گھنٹوں تک جاری رکھا۔ ہاتھی کے قدموں کی طوالت سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کسی خاص مقام کا سوچ کر جا رہا ہے۔
دریا کی نرم ریت اب دوپہر کے سورج میں انگاروں کی طرح دہک رہی تھی۔ مجھے چلنے میں دقت ہو رہی تھی۔ وقفے وقفے سے دریا کی تہہ پتھریلی ہو جاتی اور گول موٹو پتھر دکھائی دیتے۔ ایسی جگہوں پر ہاتھی کناروں کی جانب ہو کر چلتا رہا تاکہ پتھروں سے بچ سکے۔ ہم نے اس کی پیروی کی اور تیزی سے اپنا راستہ بناتے چلے گئے۔ پسینے سے ہمارا حال برا تھا۔
پندرہ میل کے سفر کے بعد ہم تلوادی اور کاویری کے سنگم پر آن پہنچے۔ دریا سے چند سو گز قبل تلوادی کی ندی اتائی ملائی نامی دیہات والے راستے سے گزری۔ یہاں ہاتھی نے اپنا رخ بدل کر اتائی ملائی کو دو میل تک گیا تھا اور پھر دوبارہ جنوب کو مڑ کر دریا کے کنارے دلدل کی سمت چل پڑا۔ اس دلدل کو کرتی پالم کہا جاتا تھا یعنی بھینسے والی دلدل، جسے میں خوب پہچانتا تھا۔ بہت سال قبل یہ جگہ بھینسوں کا پسندیدہ مقام تھی۔ تاہم اس موسم میں یہ خشک ہو چکی تھی اور کہیں کہیں زمین نرم تھی۔ تاہم گھنی گھاس ہر جگہ اگی ہوئی تھی اور درختوں کے جھنڈ بھی کئی جگہوں پر موجود تھے۔
تاہم یہاں ہاتھی کے پیٹ بھرنے کی علامات دکھائی دیں اور ہمیں ہاتھی کا گوبر دکھائی دیا جو زیادہ پرانا نہیں تھا۔
یہاں سے کیچڑ شروع ہو گیا تھا، سو میں نے رنگا اور فارسٹ گارڈ کو واپس بھیج دیا تاکہ کم سے کم آواز پیدا ہو۔ پیش قدمی بہت سست تھی کیونکہ مجھے نہ صرف ہاتھی کا بھی خیال رکھنا تھا بلکہ زمین پر بھی دیکھ بھال کر قدم رکھنا تھا کہ کہیں دلدل نہ شروع ہو جائے۔ کئی بار میں گھٹنوں تک دلدل میں دھنس گیا مگر پھر خود کو نکال لیتا تھا اور کوشش ہوتی تھی کہ آواز نہ نکلے۔
کئی مرتبہ رک کر میں نے آواز سننے کی کوشش کی مگر کچھ سنائی نہ دیا۔ پھر اچانک بڑی گھاس میں سرسراہٹ سنائی دی اور ہاتھی بیس گز دور کھڑا تھا۔ ابھی ابھی وہ کیچڑ سے اٹھا تھا اور سارے بدن سے کیچڑ ٹپک رہا تھا۔ یہ بڑا نر ہاتھی تھا اور اس کے بیرونی دانت چمک رہے تھے اور ان کا خم خوبصورت تھا۔ تاہم یہ ہاتھی بھی مطلوبہ نہ تھا۔ مجھے اتنی مایوسی ہوئی کہ میں نے آواز کر کے ہاتھی کو بھگا دیا اور پھر واپس اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا۔ انہیں بھی پتہ چل چکا تھا کہ میرا مزاج برہم ہے۔
چار بج چکے تھے اور ابھی ہمیں پندرہ میل تلوادی کے ساتھ اور پھر چار میل مزید گرہٹی کے بنگلے کا سفر رہتا تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ہم بیلی گنڈلو میں رات گزار کر واپس جاتے مگر اس طرح اگلا روز آدھا تو واپسی پر ضائع ہو جاتا جبکہ میرے پاس کل دو روز بچے تھے۔ سو میں نے واپسی کا حکم دیا۔ میرے ساتھیوں نے اس پر احتجاج کیا کہ عنقریب سورج غروب ہو جائے گا اور چاند بھی نہیں اور نہ ہی ٹارچ، تو باقی کا سفر گہرے اندھیرے میں کرنا پرخطر ہوگا۔ کیا پتہ ہاتھی کا سامنا ہو جائے۔ میں نے کہا چاہے ایک ہاتھی ہو یا ہزار، میں ان سب کو جہنم رسید کرنے کو تیار ہوں۔
واپسی کا سفر بہت تھکا دینے والا اور دشوار تھا۔ جگہ جگہ ہم پتھروں اور نکلی ہوئی جڑوں سے ٹھوکریں کھاتے اور بیلوں سے الجھتے ہوئے گئے مگر ہاتھی کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ لگ بھگ نصف شب کے قریب ہم گرہٹی کے بنگلے پہنچے اور تھکن سے نڈھال تھے۔ ہم لوگ پو پھٹتے نکلتے تھے اور مسلسل چلتے ہوئے دریاؤں، دلدلوں، نہروں، کانٹوں اور جنگلوں میں سفر کرتے رہے تھے اور چالیس میل طے کیے۔ بھوک اور پیاس سے برا حال تھا۔
اگلی صبح جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا اور پیر سوجے ہوئے تھے۔ فارسٹ گارڈ کا ٹخنہ سوجا ہوا تھا جو تلوادی کے دریا میں کہیں مُڑ گیا تھا۔ اس نے تو معذرت کر لی۔ رنگا البتہ ٹھیک تھا اور تیار ھی۔ دلیہ، بیکن اور انڈوں کے ساتھ تیز کافی سے میں تازہ دم ہو گیا جبکہ راگی کو ابال کر ایک گیند کی شکل میں بنا کر کافی کے ساتھ کھا کر رنگا بھی سارے دن کے لیے تیار تھا۔
پچھلی رات ہم اتنے تھکے ہوئے تھے کہ ہمیں کوئی آواز نہ سنائی دی تھی مگر اب تالاب پر جا کر دیکھا کہ ہاتھیوں کا غول رات کو پانی پینے آیا تھا۔ اس کے علاوہ دو بڑے نر ہاتھیوں کے پیروں کے نشان بھی واضح تھے۔ ان میں سے ایک تو شاید وہی تھا جس کا میں پیچھا کرتا رہا تھا مگر دوسرے کا پیچھا نہیں کیا تھا۔ تیسرے نر کے بارے علم تھا کہ وہ یہاں سے دور نکل گیا ہے۔
پھر بھی ہمارے پاس زیادہ کچھ کرنے کو نہیں تھا۔ سو ہم نے ایک ہاتھی کا پیچھا کیا اور اس تک جا پہنچے۔ ساڑھے نو بجے ہمیں وہ دکھائی دیا۔ یہ پچھلے دو نروں کی نسبت چھوٹا تھا۔ تاہم یہ ہاتھی بھی پاگل نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ کل والے تین نروں میں یہت تیسرا تھا۔ تالاب کو واپس لوٹے اور دوسرے نشان کا پیچھا شروع کیا۔ ہم اڑھائی بجے اس ہاتھی تک پہنچے جو املی کے ایک بڑے درخت کے سائے میں آرام سے کھڑا تھا۔ یہ بھی مطلوبہ ہاتھی نہیں تھا۔ یہ وہی ہاتھی تھا جس کا ہم نے پہلے پہل پیچھا کیا تھا۔
اب یہ ظاہر ہو چکا تھا کہ پاگل ہاتھی اس علاقے میں نہیں ہے۔ تین دن گزر چکے تھے مگر میں ابھی تک ناکام رہا تھا۔
پانچ بجے ہم بنگلے پہنچے اور چائے کی دیگچی تیار کی۔ ساڑھے پانچ بجے انچٹی سے تین بیل گاڑیاں آئیں جو یہاں سے آٹھ میل دور ہے۔ ان کا مقصد یہاں رات گزارنا تھا تاکہ ہاتھی کے خطرے سے بچ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ نصف راستے پر انہیں گولاموٹھی ندی مین ایک بڑے ہاتھی کے نشانات ملے جو بار بار اس راستے کو عبور کر رہا تھا۔
اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے میں اور رنگا رات کا کھانا کھا کر جلدی جلدی تیا رہو گئے اور فارسٹ گارڈ کو بھی کار میں ساتھ بٹھا کر مطلوبہ مقام کو روانہ ہو گئے۔
سات بجے ہم اس مقام پر پہنچے تو تاریکی چھا چکی تھی۔ کار کی روشنی میں ہمیں ہاتھی کے قدموں کے نشانات ملے۔ ٹارچ کی روشنی میں ہم نے ہاتھی کے بڑے بڑے پیروں کے نشان بیل گاڑیوں کے نشانات کے اوپر ثبت دیکھے۔ ہاتھی گرم موسم میں دن کے وقت مٹرگشت نہیں کرتے۔ یہ ہاتھی ہماری آمد سے قبل یہاں پھر رہا تھا اور شاید ہماری کار کی آواز سن کر یا اس کی بتیاں دیکھ کر کہیں چھپ گیا ہوگا۔
ہم نے سٹڈبیکر کی چھت اتاری اور میں نے رنگا کو سپاٹ لائٹ تھمائی تاکہ وہ پچھلی نشست پر بیٹھے اور گارڈ کو میں نے اگلی نشست پر بٹھایا۔ میں اتری ہوئی چھت پر بیٹھا اور میرے پیر ڈرائیونگ سیٹ پر تھے۔ ٹارچ اور رائفل تیار تھے۔ ہر طرف گہری تاریکی تھی اور ہمارے آس پاس مٹھی اور جامن کے درخت ندی کے کنارے اگے ہوئے تھے اور بانس کے جھنڈ بھی۔ جب بھی ہوا چلتی تو بانسوں سے آوازیں آتیں۔
امکانات کم لگ رہے تھے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ آیا یہ نشانات پاگل ہاتھی کے ہی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کوئی دوسرا ہاتھی ہو۔ البتہ یہ باتی یقینی تھی کہ گرہٹی میں دیکھے جانے والے دیگر ہاتھیوں کی نسبت یہ نشانات مختلف تھے۔ دوسرا یہ بھی ہاتھی کے واپس لوٹنے کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔ تیسرا یہ کہ دو گھنٹے میں ہاتھی بہ آسانی دس میل کا سفر کر سکتا ہے۔ چوتھا یہ کہ ہوا ہر سمت سے چل رہی تھی اور اگر یہ ہاتھی پاگل نہ ہوتا تو ہماری بو سونگھ کر دور سے ہی فرار ہو جاتا۔ مگر دوسری جانب یہ بھی امکان تھا کہ اگر یہ ہاتھی پاگل ہے تو ہماری بو سونگھ کر کھینچا چلا آئے گا۔
ہم نے ساڑھے آٹھ بجے تک تاریکی میں انتظار کیا اور پھر اچانک ندی کے اوپر کی جانب کہیں ایک کھوکھلے تنے کے گرنے کی آواز آئی۔ ہاتھی حرکت کر رہا تھا اور آواز سے اندازہ ہوا کہ چار یا پانچ سو گز دور سے تھی۔ پھر اگلے پندرہ منٹ تک خاموشی رہی اور پھر بہت قریب سے ایک شاخ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ ظاہر ہے کہ ہاتھی ہماری جانب آ رہا تھا اور پیٹ بھی بھر رہا تھا۔
مجھے علم تھا کہ ہاتھی نے ابھی جو شاخ توڑی ہے، سو اسے کھانے میں نصف گھنٹہ تو لگ ہی جائے گا۔ دریا کے موڑ مڑتے ہی ہاتھی کو ہماری کار اور ہم دکھائی دے جائیں گے۔ اگر ہاتھی پاگل نہیں تھا تو ہمیں دیکھتے ہی فرار ہو جاتا۔ مگر میں یہ سوچتے ہوئے بھول گیا کہ تیز ہوا ہماری جانب سے ہاتھی کی طرف جا رہی تھی۔
چند منٹ کی خاموشی کے بعد کار کے قریب دریا کے کنارے جھاڑیوں سے سرسراہٹ کی آواز آئی۔ یہ آواز اتنی معمولی تھی کہ جیسے کوئی چھوٹا جانور ان میں سے گزرا ہو۔ پھر اچانک بانس کے کچلے جانے کی آواز آئی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ ہوا بھی رک گئی۔
پھر حملہ کرتے ہاتھی کی فلک شگاف آواز آئی اور دوڑتے ہوئے ہاتھی کے سامنے بانس گرنے اور کچلے جانے لگے۔
رنگا نے سکون کے ساتھ روشنی ڈالی جو تاریکی کو چیرتی ہوئی ہاتھی پر پڑی اور میری ٹارچ کی روشنی بھی ہاتھی پر پڑی۔ بہت بڑا اور کالا سیاہ ہاتھی تھا جس نے اپنی سونڈ موڑ کر اٹھائی ہوئی تھی او دو سفید دانت سروں پر مل رہے تھے۔
پچاس گز کے فاصلے پر میری دائیں نال سے نکلنے والی گولی ہاتھی کے گلے میں پیوست ہو گئی۔ گولی کے دھکے سے ہاتھی رکا اور تکلیف سے چیخ ماری۔ ہاتھی دھماکے، تکلیف اور روشنی سے بوکھلا گیا اور وہ جنگل کی سمت مڑا۔ میری دوسری گولی بعجلت میں اس کی کنپٹی پر چلائی گئی جو سر میں کہیں پیوست ہوئی۔ ہاتھی جنگل کو بھاگتے ہوئے ٹھوکر کھا کر گرا اور جتنی دیر میں رائفل دوبارہ بھرتا، ہاتھی پھر اٹھ گیا۔ میری تیسری گولی اس کے جسم میں کہیں پیوست ہوئی۔ پندرہ منٹ تک اس کے فرار کی آوازیں سنائی دیتی رہیں اور فرار کے دوران ہاتھی کئی بار گرا اور کئی بار اٹھا۔
کار کو سٹارٹ کر کے ہم واپس گرہٹی لوٹے۔ رنگا نے علی الصبح مجھے بیدار کر کے گرما گرم چائے پیش کی۔
ساڑھے چھ بجے ہم پھر ہاتھی کے پیچھے روانہ ہو گئے تھے۔ جگہ جگہ اس کے گلے سے نکلنے والے خون کے لوتھڑے دکھائی دیتے رہے۔ اس کے فرار کے راستے پر جھاڑیاں بھی خون سے رنگین تھیں۔ ہاتھی کے پیچھے جھاڑیوں میں چلتے ہوئے ہمارے کپڑے بھی خون میں لت پت ہوتے گئے۔
ہاتھی کئی جگہ گرا تھا اور ہر مرتبہ سبز گھاس لال ہو چکی تھی۔ مجھے اس قاتل ہاتھی کی حالت پر ترس آیا۔
دو میل بعد وہ دکھائی دیا۔ گھٹنوں کے بل جھکا ہوا اور درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ وہ اتنا کمزور تھا کہ حرکت کرتے ہوئے مشکل ہوتی تھی۔ جب اس نے مجھے آتے دیکھا تو بھی حرکت نہیں کی۔ اس کی ننھی ننھی سرخ آنکھوں میں ابھی جان باقی تھی۔ وہ مجھے آتے دیکھتا رہا۔ پندرہ گز کے فاصلے پر رک کر میں نے اسے تکلیف سے نجات دلانے کے لیے رائفل اٹھائی۔وہ سر سے پیر تک لرزا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوا۔ اس کی اونچائی دس فٹ سے زیادہ تھی۔ اس کی سونڈ آگے کو بڑھی اور کان ہلے اور اس نے میری جانب دو قدم اٹھائے۔ عین اسی وقت اعشاریہ 400/450 بور کی بھاری رائفل ہاتھی کے ماتھے میں گھسی اور ہاتھی وہیں گر گیا۔
قاتل ہونے کے باوجود ہاتھی حوصلہ مند تھا۔ رائفل کی نال سے دھواں نکل رہا تھا۔
کیینتھ