سپیرا
وہ پرانے بھٹّے کے ایک کونے میں اینٹوں کا ڈھیر لگا رہا تھا۔ اُس کا حقیقی نام کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔ بلکہ وہ آپ بھی مدّتوں سے اُسے بھول چکا تھا۔ اُس کے یار دوست اُسے "شیخ "کہہ کر پکارتے تھے۔ بنگال میں ہر ایک مسلمان کو اِس نام سے پکارا جا سکتا ہے۔ چاہے وہ اِس نام کے مطابق ہلکی سی بھی جسمانی یا ذہنی موزونیت نہ رکھتا ہو۔
دوسرے لوگ اُسے لنگڑا کہہ کر یاد کرتے تھے۔ کیونکہ پچپن میں اُس کا بایاں پیر ٹوٹ گیا تھا اور اُس نقص کی یادگار میں بیچارے کو تمام عمر کے لیے یہ خطاب حاصل ہو چکا تھا۔ یہی نہیں بلکہ چونکہ اُس کی جوانی بے احتیاطی، اور بے پروائی میں کٹی تھی۔ اِس لیے اُسے ایک گھناؤنی بیماری سے پالا پڑا۔ جس نے اُس کی ناک کو بالکل غارت کر دیا۔ اور اُس کی جگہ ایک ڈراؤنا گڑھا یاد گار چھوڑ گئی اُس کے بعد چیچک نکلی اور چیچک کے گہرے داغوں نے اُس کی بدصورتی کو بالکل مکمل کر دیا۔
واحد بھٹّے کی طرف اپنا چھکڑا لیے جا رہا تھا۔ اُس نے اپنے بیلوں کو تیز چلانے کے لیے اُن کی دُم مروڑی اور ساتھ ہی ایک فحش سے گیت کی تان لگائی مگر یہ تان جس تیزی سے پیدا ہوئی تھی، اُسی تیزی سے غائب ہو گئی۔ بیل چلتے چلتے اچانک رک گئے اور آنکھیں چڑھا کر اور نتھنے پھُلا کر زور زور سے سانس لینے لگے۔ بیلوں کے ایک دم رُ کنے سے واحد اپنی جگہ سے آگے کی طرف لڑھکا اور بیلوں کو گالیاں دینے لگا۔ بیل کسی طرح آگے نہ بڑھے اور واحد نے اپنی پَینی سنبھالی۔ وہ مارے غصّے کے پاگل ہو گیا تھا۔ پَینی اُوپر اُٹھی، مگر اِس سے پہلے کہ بیل کی کمر تک پہنچتی۔ وہ اپنی پوری طاقت سے چلاّیا۔ "سانپ رے سانپ شیخ او شیخ! ! ”
چھکڑے سے آگے چند گز کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا سانپ پھن اُٹھائے جھوم رہا تھا۔ واحد نے اپنے چھکڑے سے چھلانگ لگائی اور دوڑ کرا یک اینٹ اُٹھا لی۔
شیخ نے واحد کی آواز سنی تو تیزی سے لنگڑاتا ہوا اور ساتھ ساتھ چلّاتا ہوا دوڑا "ارے مارنا مت۔ مارنا مت! میں آتا ہوں! ”
واحد نے اُٹھایا ہوا ا بازو نیچے کر لیا اور اینٹ مارنے سے رُک گیا۔
"اللہ کی قسم کیسا خوب صورت سانپ ہے۔ "واحد بولا۔ "اور دیکھنا شیخ منہ کتنا گہرے سُرخ رنگ کا ہے۔ اور پھن کیسا خوب صورت ہے۔ مگر یار جلدی کرو۔ بھاگ رہا ہے یہ تو۔ ”
سانپ نے خطرہ بھانپ لیا اور واحد سے دور بھاگنے لگا۔ اُسے معلوم نہ تھا کہ ایک اور دشمن اُس کی تاک میں ہے اور پاس آ پہنچا ہے۔
"واحد ذرا اپنی پَینی پھینکنا "شیخ چلّایا "اوہو بھٹّے میں چلا گیا۔۔۔۔۔ "شیخ نے غور سے بھٹّے کے اندر دیکھتے ہوئے کہا۔ جہاں سانپ غائب ہوا تھا۔ "اِسے اُودے ناگ کہتے ہیں، واحد جانتے ہو۔ اُودے ناگ؟ ؟ ”
پھر بولا کہ یہ کوبرے کی قسم کا ہوتا ہے۔ مگر بہت کم ملتا ہے۔ خدا کی قسم اگر یہ ہاتھ آ گیا تو کچھ روپے کما ہی لوں گا۔ ”
شیخ عام سپیروں سے بڑا سپیرا تھا۔ کیونکہ وہ سانپوں کا علاج معالجہ کرنا بھی جانتا تھا۔ وہ اکثر اوقات اپنے گاؤں اور آس پاس کے دیہات میں اپنے سانپوں کو نمائش کے طور پر دکھاتا تھا اور دیہاتی دلچسپی سے تماشا دیکھنے آتے تھے۔ وہ سانپوں کو مٹّی کے گھڑوں میں رکھتا تھا۔ جن میں سے اکثر اُس کی گھاس پھونس کی جھونپڑی سے لٹکے رہتے تھے۔
جیسا کہ عام سپیروں کا قاعدہ ہے شیخ بھی اپنے دہشت ناک قیدیوں میں سے بیماروں اور کمزوروں کو آزاد کر دیتا تھا۔ اُن میں سے بعض قید کے صدمے سے مر بھی ضرور جاتے تھے۔ شیخ کا یہ تجارتی سرمایہ اُس کی اچھی خاصی آمدنی کا ذریعہ تھا اور جب تک اُس کی یہ جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی پونجی پوری تعداد میں اُس کے قبضے میں ہوتی وہ بھٹّوں پریا کھیتوں میں مزدوری کرنے نہ جاتا تھا۔
ایسی حالت میں وہ ایک ٹوکری میں اپنے سانپ ڈالے ہوئے اور سپیروں کی تونبی میں منہ میں دابے پاس پڑوس کے دیہات میں نکل جاتا اور بہت کچھ کما لاتا مگر اُس کی یہ کمائی جلد ہی ختم ہو جاتی تھی۔ کیونکہ وہ بھنگ اور افیم کا عادی تھا اور اِس پر طرّہ یہ کہ شراب کی چسکیاں بھی لگا لیتا تھا۔ اِس کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتا کہ جوں ہی شیخ کی جیب خالی ہوتی۔ وہ ایک پھاؤڑا اور ٹوکرا لیے اپنے کھاتے پیتے پڑوسی کسانوں کے دروازوں پر نظر آتا اور پوچھتا "کوئی مزدوری ؟ کوئی کام؟ "ایسے لوگوں کے سامنے وہ بڑی لجاجت سے مسکراتا اور اُس کی مسکراہٹ سے اُس کے بد نما چہرے پر جو شکنیں پڑتیں وہ چہرے کو اور زیادہ بد نما اور ہیبت ناک بنا دیتیں۔ شیخ میں یہ بات ضرور تھی کہ وہ اپنے اِس قسم کے "گاہکوں "کو کبھی دھوکا نہ دیتا۔ اُسے کیسا ہی سخت کام ملتا۔ وہ بڑی محنت اور دیانت داری سے اُسے انجام دیتا۔ جس دن اُسے کام نہ ملتا وہ بھیک مانگنے نکل جاتا۔ بھیک مانگنا۔ مزدوری کرنا اور سانپوں کا تماشا دکھانا اُس کے لیے سب یکساں کام تھے۔ یہ تھوڑی بہت خیرات بھی جو اُسے ملتی حسبِ معمول اُس کے نشے پانی پر خرچ ہوتی تھی۔ کبھی کبھی وہ کچّی شراب پی آتا اور جھومتا جھامتا گھر لوٹتا۔ ایسی بدمستی کی حالت میں وہ اپنی گھر والی کے پاؤں پکڑ لیتا اور شرابیوں کی طرح آنسو بہاتا ہوا کہتا۔ "میں نے تمہیں بڑے دُکھ پہنچائے ہیں زبیدہ۔ میں نے تمہیں فاقوں مار دیا ہے ‘‘۔
زبیدہ ہنس دیتی اور اپنے پیر چھڑاتے ہوئے کہتی "چھیڑخانی کی باتیں نہ کرو۔ مجھے چھوڑ دو۔ تمہارے کھانے کے لیے کچھ ہو تو لاتی ہوں ‘‘۔
اِس پر شیخ دھاڑیں مار مار کر رو دیتا اور کہتا "ہائے میں نے تمہارے لیے کبھی نئے کپڑے بھی تو نہیں بنوائے۔ ”
***
دوسرے دن صبح پَو پھٹتے ہی شیخ بھٹّے پر پہنچا۔ ایک چھوٹی سی قمچی، اور سرکنڈوں کا بنا ہوا صندوق اُس کے ہات میں تھا۔ مشرق کی طرف آسمان پر ایک گہری سُرخ روشنی کا طوفان منڈلا رہا تھا۔ گنجان درختوں پر چڑیوں کے جھنڈ سہانے گیت گا رہے تھے۔ دور کسی مندر سے صبح کی ٹھنڈی اور دھیمی دھیمی ہَوا کے جھونکے گھنٹیوں اور سنکھوں کی آوازیں لیے آ رہے تھے۔
شیخ مٹّی کے ڈھیر پر بیٹھ گیا اور غور سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ شفق کی سرخی دم بدم پھیلتی جا رہی تھی۔ اُس کا بڑھتا ہوا رنگ اینٹوں کو بہت زیادہ سرخ بنا رہا تھا۔ یہاں تک کہ شیخ کے میلے کچیلے کپڑوں پربھی رنگت آ گئی تھی۔ بک بیک اُس نے کچھ دیکھا اور "یہ رہا وہ "کہہ کر جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
کچھ فاصلے پر کھلی جگہ میں کل والا سانپ آسمان کی سُرخی کی طرف اپنا پھن پھیلائے خوشی سے جھوم رہا تھا۔ سورج کی ابتدائی کرنوں کا اُس کے ننھّے سے لمبے بدن پر عکس پڑ رہا تھا اور اُس کے سُرخ رنگ کو شوخ اور خوش نما بنا دیا تھا۔ سُرخ رنگت کے ساتھ اُس کے پھن کی سیاہ دھاریاں رنگوں کے امتزاج کا بہت ہی سہانا سماں دِکھا رہی تھیں۔ وہ اِس وقت ایسا ہی خوب صورت معلوم ہوتا تھا جیسے وہ تتلی جس کے سُرخ بازوؤں پر پتلی پتلی سیاہ لکیریں ہوں۔
سپیرا بھی اُس کی خوشنمائی سے بہت متاثّر ہوا اور ہونٹوں ہی ہونٹوں میں "واہ "کہنے پر مجبور ہو گیا۔ اب وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ سانپ سورج کی کرنوں سے کچھ اِس دھُن میں کھیل رہا تھا کہ اُسے کسی دشمن کے آنے کی خبر تک نہ ہوئی۔ نہ اُس کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ وہ بدستور اپنی دھُن میں مگن تھا مگر جب شیخ بالکل ہی قریب جا پہنچا تو اُس نے بجلی کی سی تیزی سے اپنا پھن گھمایا اور پھنکار ماری مگر شیخ کے ماہر ہاتھوں نے سانپ سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ قمچی سے اُس کے پھن کو دبایا اور زمین سے ملا دیا۔ اب اُس سانپ کی دُم پکڑ لی اور اُسے ڈرانے کے لیے اور سدھانے کے لیے دو تین جھٹکے دیے۔ اُس کے بعد اُس نے اپنے قیدی کو اچھی طرح دیکھا بھالا اور بڑبڑایا "یہ تو ناگن ہے ‘‘۔
اختر شیرانی