ریت پر نقش بنائیں گے چلے جائیں گے
لوگ اس دشت میں آئیں گے چلے جائیں گے
اپنے پاس ایک محبت کے سوا کیا ہے بھلا ؟
سر پہ یہ گٹھڑی اٹھائیں گے چلے جائیں گے
مستقل رہنے نہیں آئے تیرے شہر میں ہم
بس تیرا ہجر منائیں گے چلے جائیں گے
یہ بھی معلوم ہے کوئی نہیں آنے والا
پھر بھی آواز لگائیں گے چلے جائیں گے
ہمسفر ساتھ جہاں تک تجھے چلنا ہے سو چل
ہم تیرا ساتھ نبھائیں گے چلے جائیں گے
وہ غزل جس کو کسی لفظ کی حاجت ہی نہ ہو
وہ بنائیں گے سنائیں گے چلے جائیں گے
کیا کہا تو نے کہ تو چھوڑ کے جائے گا ہمیں ؟
تجھ سے ہم جان چھڑائیں گے چلے جائیں گے
سید زوار حسین زائر