اردو غزلیاتشعر و شاعریعباس تابش

بادباں کب کھولتا ہوں پار کب جاتا ہوں میں

عباس تابش کی ایک اردو غزل

بادباں کب کھولتا ہوں پار کب جاتا ہوں میں
روز رستے کی طرح دریا سے لوٹ آتا ہوں میں

صبح دم میں کھولتا ہوں رسّی اپنے پاؤں کی
دن ڈھلے خود کو کہیں سے ہانک کر لاتا ہوں میں

اپنی جانب سے بھی دیتا ہوں کچوکے جسم کو
اس کی جانب سے بھی اپنے زخم سہلاتا ہوں میں

ایک بچّے کی طرح خود کو بٹھا کر سامنے
خوب خود کو کوستا ہوں خوب سمجھاتا ہوں میں

خشک پتّوں کی طرح ہے قوّتِ گویائی بھی
بات کوئی بھی نہیں اور بولتا جاتا ہوں میں

یہ وہی تنہائی ہے جس سے بہل جاتا تھا دِل
یہ وہی تنہائی ہے اب جس سے گھبراتا ہوں میں

عشق میں مانع ہے غالب کی طرفداری مجھے
رعب جب چلتا نہیں تو پاؤں پڑ جاتا ہوں میں

میرے ہاتھ آتے ہیں تابش دوسرے موسم کے پھول
ایک موسم میں تو ٹہنی تک پہنچ پاتا ہوں میں

عباس تابش

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button