منزل کی چاہ کی تَو فقط راستہ مِلا
مَیں راستوں پہ چلتا گیا تَو خدا مِلا
کرتا رہا تلاش رہِ عشق کا فسوں
مجھ سے جنوں پسند کو دشتِ بَلا مِلا
مَیں خوش گمانیوں میں تھا آگے نکل گیا
اپنا سراغ مجھ کو سرِ آئنہ مِلا
مجھ کو سکوں مِلا نہ کبھی بحرِ عشق میں
ہر آن موجِ دل میں طلاطم بپا مِلا
دُنیا گنوا کے مَیں نے وفائیں خرید کیں
اب سوچتا ہُوں راہِ محبّت میں کَیا مِلا!
مجھ کو مِلا نہ اِذنِ رہائی ہی آج تک
ہمّت مِلی نہ بندِ سلاسل کھُلا مِلا
آیا نہ بندگی کا سلیقہ مُجھے سمیرؔ
جب مَیں نے ہاتھ اٹھائے تَو حرفِ دعا مِلا
سمیرؔ شمس