رکھا گنہ وفا کا تقصیر کیا نکالی
مارا خراب کر کر تعزیر کیا نکالی
رہتی ہے چت چڑھی ہی دن رات تیری صورت
صفحے پہ دل کے میں نے تصویر کیا نکالی
چپ بھی مری جتائی اس سے مخالفوں نے
بات اور جب بنائی تقریر کیا نکالی
بس تھی ہمیں تو تیری ابرو کی ایک جنبش
خوں ریزی کو ہماری شمشیر کیا نکالی
کی اس طبیب جاں نے تجویز مرگ عاشق
آزار کے مناسب تدبیر کیا نکالی
دل بند ہے ہمارا موج ہواے گل سے
اب کے جنوں میں ہم نے زنجیر کیا نکالی
نامے پہ لوہو رو رو خط کھینچ ڈالے سارے
یہ میر بیٹھے بیٹھے تحریر کیا نکالی
میر تقی میر