میں سوچتا تو وہ غم میرے اختیار میں تھے
اردو کالم از روبینہ فیصل
میں سوچتا تو وہ غم میرے اختیار میں تھے
سائلنٹ سٹگمٹائزاڈ ان آئیڈینٹیفائیڈکلر(ایس ایس یو ۔۔کلر)اردو میں یوں کہہ لیں ایک خاموش، داغی اوربے شناخت قاتل۔۔
کون ہے؟ ڈپریشن۔۔ جی ڈپریشن ہی ایک ایسا پراسرار قاتل ہے کہ جسم اور روح کے اندر تک گھس کر اسے چیر پھاڑ رہا ہو تا ہے اور اس کی خاموشی کی وجہ سے اس کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے اور اگر پہچان بھی لیا جائے تو رسوائی کے خوف سے اندر ہی اندر دبا لیا جاتا ہے۔ یہ ایک دیو،ایک بھوت ایک شیطان ہے۔ اس کے شکار لوگ اپنے دماغ کے قیدی ہو جاتے ہیں۔
کرونک ڈپریشن اورسیچویشنیل ڈپریشن میں فرق ہے۔ اداسی، سستی اور سیچویشنیل ڈپریشن میں بھی فرق ہے۔ کرونک کا علاج تو کسی بھی اور جسمانی بیماری کی طرح ڈاکٹرز کے ہاتھوں میں ہے مگر سیچیوشنل ڈپریشن کو ہم اپنی قوت ِ ارادی سے شکست دے سکتے ہیں۔ اور اداسی یا سستی کو ڈپریشن سے الگ ہی رکھیں۔
سیچیوشنل ڈپریشن کی طرف لے جانے میں صرف آپ کے اپنے جسم اور دماغ کا ہی کام نہیں ہو تا بلکہ؛ آپ کے رشتے ناطے، دوست احباب،آپ کی جاب کی نوعیت،مالی حالات،تخلیقی اظہار کے مواقع، جنسی نا آسودگی اور اردگرد کا ماحول، ان سب کا ایک کردار ہو تا ہے۔ یعنی آپ کو کوئی مالی تنگی ہو، کوئی پیارا مر جائے، کوئی چاہنے والا چھوڑ جائے، کوئی غیر متوقع طور پر اچانک بدل جائے یا آپ کا اپنا زندگی میں کو ئی کردار بدل جائے (بچے بڑے ہو گئے، ماؤں کو اپنا آپ بے کا ر لگنے لگ جا تا ہے، خاوند،یا محبوب، یا محبوبہ اہمیت دنیا چھوڑ دیں تو اپنا آپ زمین پر رینگنے والے کیڑے جیسا لگنے لگتا ہے) اور یا کوئی جسمانی بیماری یا معذوری ہو جائے۔۔۔ یہ سب وجوہات ہیں جب انسان ڈپریشن کی طرف جا سکتا ہے اور یاد رکھئیے ڈپریسیڈ لوگوں کا دماغ سکڑنے لگتا ہے۔ جو بالاخر آپ کی روز مرہ کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے۔ اور پھر اس کی آخری منزل یا تو ویجیٹیبل کی طرح بستر پر پڑ ے رہنا اور یا پھر خود کشی کر کے دنیا کے تمام مصائب و آلام سے چھٹکارا پا لینا،ہو تی ہے۔ کچھ لوگ نشہ آوار چیزوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور ایسا کر نے میں انہیں دیوداس جیسی فلموں سے بڑا سہارا ملتا ہے جو کہ ایک انتہائی غلط سوچ ہے۔۔ غم سے نجات پانے کے لئے نشہ آوار چیزوں کا استعمال آپ کو مزید ڈپریشن میں دھکیل دیتا ہے۔
حادثات، ہر انسان کے نصیب میں ہو تے ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی دکھوں کی فصل کاٹتا ہے مگر امتحان یہ ہے کہ اس فصل کو کاٹنا کیسے ہیں۔ اور یہیں پر اس تربیت کی ضرورت ہے جو انسان کو اپنی خود کر نی ہے۔اسی لئے اس کالم کا عنوان ہی یہی رکھا ہے کہ” میں سوچتا تو وہ غم میرے اختیار میں تھے “جس کا پہلا مصرع یہ ہے کہ” وہ ایک چہرے پر بکھرے تھکے تھکے سے خیال “۔
شاعر نے تو محبوب یا دوست کی بات کی ہو گی مگر آپ اسے اپنا چہرہ سمجھیں۔ آئینے میں جو تھکاوٹ چہرے پر نظر آتی ہے اس کی کہانی ایک دن کی نہیں ہو تی۔۔ آپ اپنے چہرے کی کہانی پڑھیں۔۔ اسے تازہ دم کریں تاکہ آپ دوسروں کو بھی تازگی دے سکیں۔
جب انسان کے اندر خالی پن پھیلنے لگتا ہے تواس کے نتیجے میں اسے دنیا سے، انسانوں سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ رسم ِ دنیا نبھاتے نبھاتے انسان اوب سا جاتا ہے اور یہ سب ایک دم سے ہی نہیں ہو جاتااور اس کے آنے کے ذمہ دار صرف آپ نہیں ہو تے، جیسا کہ میں نے اوپر لکھا کہ کئی اور عناصر ہیں جو ایک انسان کو ڈپریشن کی طرف لے کر جاتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار شخص یوں شرمندہ ہو تا ہے جیسے کسی کا ریپ ہو جائے اوروہی مجرم بن کر چھپتا پھرے اور ریپ کر نے والے دندناتے پھرتے رہیں۔ معاشرے میں بے حس، ظالم اور خود غرض لوگ دندناتے پھرتے ہیں، علاج کی ضرورت ایسوں کو ہو تی ہے مگر نفسیاتی ڈاکٹروں کے پاس حساس، دوسروں کا احساس کر نے والے، خود کو بھی اس لئے چھپنا،بچانا یا مارنا چاہتے ہیں کہ کسی اور کو ان کی وجہ سے غم نہ ملے۔
یہاں سائیکو تھراپسٹ کہتے ہیں؛
آپ اپنی رائے، اپنی بات ضرور کہیں۔۔ ایک گورے ٹین ایجربچے نے تھراپسٹ سے پوچھالیکن جب میں اپنی بات کہنے کی کوشش کر تا ہوں میری ماما مجھ پر چلا نے لگتی ہے تھراپسٹ نے جواب دیا مگر تم پھر بھی نر می سے اپنی بات مکمل کرو،بچے نے کہا میں پہلے ڈر کے چپ کر جا یا کرتا تھا اور اب میں بھی بہت غصے میں آجاتا ہوں، مجھے وہ سب یاد آنے لگتا ہے کہ میری ماں بچپن سے ہی مجھ پر چلا تی رہتی تھی اور مجھے ہر کام اپنی مر ضی سے کروانے کے لئے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا کرتی تھی اب میں ہر کام اپنی مر ضی سے کرنا چاہتا ہوں لیکن جب وہ مجھے ایسا نہیں کر نے دیتیں تو میرا دل کرتا ہے یا تو میں خود کو مار لوں اور یا پھر کمرہ بند کر کے اس میں غائب ہو جاؤں۔
تھراپسٹ نے کہا اب بھی دیر نہیں ہو ئی، ماں ہو، یا گرل فرینڈ یا بیوی، یا بہن بھائی، یا دوست۔۔ ان سب کی اس حد تک سنو اور مانوجس حد تک برداشت کر سکتے ہو۔۔ ایک گھڑا ہو تا ہے اس کی ایک سائیڈ سے پانی ڈالتے رہتے ہیں تو وہ بھرا رہے گا اگر صرف اس میں سے پانی نکلتا رہے اور کوئی بھرنے والا نہ ہو تو گھڑا خالی ہو جائے گا۔ جب تم کسی کی سنتے اور مانتے جاتے ہو تو کیا وہ بھی کبھی آپ کی سنتا یا مانتا ہے؟ اگر نہیں تو آپ ایموشنیلی ابیوز ہو تے جا رہے ہیں۔ ”
پھر وہ بولی؛ہم سب کو اپنی زندگیوں میں کوئی بھرنے والا بھی چاہیئے ہو تا ہے۔ ٹوٹ کر وہیں لوگ بکھرتے ہیں جو بہت دیر تک خود کو بڑی بہادری اور ہمت سے غیر مناسب ماحول میں بھی پروان چڑھاتے رہتے ہیں اور اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔۔ اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ تھک ٹوٹ کر کر چی کر چی ہو جاتے۔تب خالی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں کہ زمین پر تو انہیں کوئی نہیں ملتا۔۔۔ کچھ چیزیں جو ہمیں کر نی چاہیں؛ اپنی ذات کی سرحد بنانا ہو گی۔ ایک لکیر کھینچنا ضروری ہے اس لکیر کے پار کوئی آئے تو اس کے پاسپورٹ پر آپ کی رضامندی کی مہر ہو۔ زور زبردستی کر کے لکیر پار کر نے والوں کو اسی طرح گولیاں مار دی جانے چاہیئے جیسے ملکوں کی سرحدوں کی حفاظت کر نے والے سپاہی کیا کرتے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ آپ بھی دوسروں کی پرائیویسی کا احترام کریں، ان کی لکیریں پار نہ کریں۔ ”
ہم نے تو اپنے ارد گرد ایک رویہ دیکھا ہے۔۔ “چل کوئی نہیں وہ تو اپنا یار ہے”،”کیوں نہیں کرے گا یہ کام” یا” اس کی ایسی کی تیسی کیوں نہیں اس وقت ملے گا “، یا “لو جی اتنی جرات میرے بیٹے کی یا بیٹی کی کہ میرے آگے سے بول سکیں ” یا “میری بات نہ مانیں۔”,”چھوٹی بہن ہے میری وہی مجھ سے معافی مانگے گی اتنی جرات کہ میری بات کا جواب نہیں دیا۔” “,میرے بچے ہو کر میری رائے سے اختلاف کر یں گے، ایسی مجال؟ ” اور کچھ معیار۔۔۔ بھی دیکھیں!!
“اگر کام نہیں آنا تو ایسی دوستی کس کام کی لعنت ہو ایسی دوستی پر؟” ایک دوست کی دوستی کا معیار۔
“وہ میرا سب سے اچھا بچہ ہے آگے سے جواب تک نہیں دیتا، جو میں کہتا/ کہتی ہوں وہی کرتا ہے “۔ والدین کا معیار۔
یہ ایسے مان اور معیارات ہیں جن میں دوسرا چوبیس گھنٹے قربانی دیتا رہے تب بھی پو ری نہ پڑے۔۔یاد رکھئے!! آپ دوسروں کے جن میں ماں باپ بھی شامل ہو سکتے ہیں، ان کی باتیں آنکھیں بند کر کے مانتے جا ئیں گے ایک دفعہ آپ کسی وجہ سے پھٹ پڑے یا کام نہ کر سکے تو آپ کو پاتال میں گرا دیا جائے کیونکہ آپ لوگوں کے قدموں تلے اتنا بچھے ہو تے ہیں کہ وہ یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ آپ کے قدم کبھی اپنے راستے کی طرف بھی چل سکتے ہیں۔ اگر آ پ ایسا گھڑا بن گئے ہیں جس میں سے ہر کوئی پانی تو پی رہا ہے لیکن اسے کوئی بھرتا نہیں تو ایک وقت آئے گا آپ بالکل خالی ہو جائیں گے اس وقت یہ زندگی پھیکی ہو جاتی ہے، اندر کا خالی پن ایک بد روح کی طرح آپ کو چمٹ جا تا ہے اور انسان ایک سبزی کی طرح بستر پر پڑ سکتا ہے یا اس کے اندر مرنے کی خواہش پیدا ہو نے لگتی ہے۔
قوت ِ برداشت۔۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آج کے دور میں ختم ہو گئی ہے۔ میں اپنی نسل کی بات کر وں تو یہ وہ نسل ہے جو ذہنی طور پربہت تھک چکی ہے اسے تھکی ہو ئی نسل کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس نسل نے سائنس اور ٹکینالوجی میں سب سے بڑا جمپ تو مارا ہی مارا ہے، انہوں نے اقدار کے رولر کوسٹر پر بھی غوطے کھائے ہیں۔۔ آج یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنی بات کہہ گذرو اور اپنی حد بتا دو چاہے وہ ماں باپ ہی کیوں نہ ہو تو ہمارے بچے ہمارے ساتھ یہی کر رہے ہیں اور ہمیں جب اس بات کا اس عمر میں پتہ چلا ہے تو ہماری تو دونوں طرف اب موت ہے آزمائیں تو ماں باپ سے چھتر یا لاتعلقی اور قوت ِ برداشت ختم ہو نے کے طعنے اور نہ آزمائیں تو پھر وہی ڈپریشن کا اندھا کنواں۔
دوسروں کی مدد کرنے کا بھی سن لیں۔۔ ہمیں سکھایا جاتا تھا اپنی ہستی بھول کے دوسروں کی مدد کر نے میں سکون ہے۔ یقین جانئے اس سے بڑی غلط فہمی انسانیت کو ہو ہی نہیں سکتی۔ آج کی نسل منہ پھاڑ کر کہتی ہے یہ ریٹارڈڈ مطلب ابنارمل رویہ ہے جسے آپ لوگ اچھا سمجھتے ہیں۔ ہمارے” تجربے اور سمجھداری” کی تعریف یہ ہے کہ ہم کتنے بڑے منافق ہو گئے ہیں، آج کی نسل کہتی ہے کسی کے بارے میں پیچھے سے اچھا کچھ کہنے کو نہیں ہے تو خاموش رہو، ہماری کہانی یہ ہے کہ خوف یا چاپلوسی کے مارے جسے احترام کا نام دیا جاتا ہے کچھ منہ پر کہنے کی ہمت نہیں ہوتی اس لئے پیٹھ پیچھے بھڑاس نکالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔۔ اور جس کے ساتھ بھڑاس نکالی ہو تی ہے، وہ آپ کی بھڑاس عین اسی بندے کو جا کر ٹھیک ٹھیک بتائے گا اور پھر وہ بھڑاس نہ صرف آپ کے لئے وبال جان بن جاتی ہے بلکہ جس کے بارے میں ہو تی ہے وہ گھر بیٹھا مظلوم بن جا تا ہے۔ یعنی آپ بھی ڈپریس وہ بھی ڈپریس۔۔۔۔
یہ توہے ہمارے ارد گرد کا ماحول جس میں ہم سب پل کر بڑے ہو تے
جنسی ناآسودگی۔۔یہ ایک اور محر ک ہے ذہنی تناؤ کی طرف لے جانے کا۔۔ اس کا آغاز بھی بچپن کے کسی ایسے واقعہ سے ہو چکا ہو تا ہے جب کسی استاد نے، کسی بڑے بھائی کے دوست نے، کسی بڑے کزن نے، کسی انکل نے، کسی ہمسائیے نے، کسی مولوی نے کسی دکاندار نے بچے (لڑکا لڑکی دونوں) کو جنسی طور پر ہراساں یا اس سے بھی زیادہ کچھ کر دیا ہو۔۔ یہ کرب بھی زندگی کے اس موڑ تک لے جانے کا ایک راستہ ہو سکتا ہے جس موڑ پر انسان مکمل طور پر ڈھے جاتا ہے۔ اگر بچپن میں ایسا کچھ ہوا ہے تو اسے چھپانے کی بجائے کونسلر سے یا ماں باپ سے یا کسی بھی رازدان دوست سے کہہ دینا بہتر ہے اور کہا یہی جاتا ہے کہ بڑے ہو کر جو جنسی بے راہ روی کا شکار ہو تے ہیں، ان کے ساتھ بچپن میں ایسا کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہو تا ہے۔ اگر یہ بھی ڈپریسڈ لوگوں کا ایک طریقہ نجات ہے تو یہ ایک مرض ہے اس لئے بھی اس کا علاج ضروری ہے کہ آپ کی ذات سے کسی دوسرے کو نقصان نہ ہو جائے۔۔ اپنے آپ کو بچاتے بچاتے ڈپریسڈ لوگ نہ جانے کتنے اور لوگوں کو لے ڈوبتے ہیں اس کی ایک اور مثال محبت یا دوستی میں دھوکے دینا ہے۔ دھوکہ دینے والے اصل میں پتھالوجیکل لائیر ہو تے ہیں۔۔ یعنی عادی جھوٹے، یا جھوٹ کے مر ض میں مبتلا لوگ۔ وہ اپنی اس بیماری میں نہ جانے مد مقابل سے کیا کیاوعدے کر بیٹھتے ہیں اس کی شدید ترین قسم نارسسزم ہے، اس بیماری کا کوئی علاج نہیں اس میں مبتلا لوگوں سے بچنا ہی بہت سی ذہنی بیماریوں کا علاج ہے۔یہ قسم اب بہت زیادہ مقدار میں دستیاب ہے۔ اپنی ذات کے پجاری یہ لوگ اردگرد اور خاص کر کے جسے انہوں نے محبت یا دوستی کے جال میں پھنسایا ہو انہیں اس وقت تک اپنی میٹھی باتوں اور جھوٹے وعدوں میں الجھائے رکھتے ہیں جب تک وہ انسان ان کے کسی کام کا ہوتا ہے۔ اور کام صرف مادی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کو جذباتی سہارا، باتوں سے دل بہلانا اور ان کے ہیرے پھیرے لیتے رہنا، بھی ہو سکتا ہے۔ او ر جیسے ہی یہ طلب کہیں اور سے پو ری ہو تی نظر آتی ہے یہ پرانے مال کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر آگے بڑھ جاتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ جس شخص کو انہوں نے کوڑا کر دیا ہے وہ تمام عمر اسی کھونٹے سے بندھا زخمی جانور کی طرح ڈکراتا رہے گا۔۔
حسد اور مقابلہ بازی یہ بھی نفسیاتی بیماری کی علامتیں ہیں۔ایسی تمام بیماریاں بچپن میں ملے غیر صحت مند ماحول، (جس میں ماں باپ کی آپس کی لڑائیاں، بچوں کو اگنور کرنا، یا بچوں میں تفرقہ کرنا، مقابلے کرنا، طعنے مارتے رہنا، نا انصافی کرنا) اور ناخوشگوار واقعات اور حادثات کی مرہون منت ہو تی ہیں۔ اس لئے اگر آپ والدین ہیں تو ان باتوں کا دھیان رکھیں اور اگر آپ بچے ہیں اور یہ سب بھگت چکے یا بھگت رہے ہیں تو اس سے چھٹکارا پائیں۔ اپنی زندگی کا محور اپنی ذات کو بنائیں، اسے پہچانیں، آپ کو کیا چاہیئے اور دوسروں کی نعمتوں اور اپنی محرومیوں پر نظر رکھنا چھوڑ دیں بلکہ اس فارمولہ کو الٹا دیں دوسروں کی محرومیوں اور اپنی نعمتوں کو دیکھنا شروع کریں، شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو تے ہی زندگی بدل جائے گی۔ اور یہ دل سے مان لیں جسے انگریزتھراپسٹ” ایکیسیپٹینس اور سرنڈر “کہے گا ۔۔ ہم کہیں گے سمجھوتہ کر لو، اللہ کی رضا میں راضی ہو جاؤ اور اس کو اپنا وکیل کر لو، سب اس پر چھوڑ دو۔۔ ماضی آپ بدل نہیں سکتے، مستقبل کے بارے میں جان نہیں سکتے، آپ کے اختیار میں صرف آپ کا حال ہے اسے بد حال مت کیجئیے۔
جو آج ہے اس کے ایک ایک لمحے کو جئی لیں۔۔ گلی سے گزرتے رہے ہیں تو اس پھول کو دیکھیں جو ایک کونے سے آپ کو دیکھ کر چپکے چپکے مسکرا رہا ہے۔
غرض یہ کہ اپنی ذات کو رب کی ذات کے سو ا کسی کے در پر اتنا نہ جھکاؤ کہ لوگ گراتے چلے جائیں اور اس بات کا احترام کرنا ہی بھول جائیں کہ آپ بھی انسان ہیں اور آپ کی بھی کوئی مر ضی ہو سکتی ہے۔ برداشت کی اس انتہا کو صبر یا اچھائی نہیں بلکہ بے وقوفی کہا جا تا ہے جس کا اگر لوگ فائدہ اٹھا اٹھا کر آپ کو دھکہ مار کر گزرتے جائیں گے تو لوگوں کا نہیں آپ کا قصور ہو گا۔ اپنی ذات کی عزت کریں، جس نے آپ کی زندگی میں ٹھہرنا ہو گا بس پھر وہی ٹھہرے گا باقی سب گند چھننی کے اوپر ہی رہ جا ئے گا۔
آپ کی زندگی میں کون ٹھہرے گا، کتنا ٹھہرے گا، کس کا کیا مقام ہے، یہ آپ کو طے کر نا چاہیئے نہ کہ آپ لوگوں کی ضرورتوں کے مطابق دن گزارتے جائیں اور جس کو جب ضرورت نہ ہو آپ کو سائیڈ پر رکھ دے اور سلام دعا سے بھی جائے۔
حساسیت کو اپنا جرم نہ بنائیں اسے اپنے حق میں استعمال کر یں۔ حساس انسان کو انگزئیٹی بھی اسی لئے زیادہ ہو تی ہے کہ اسے اگلے کے دل میں چلنے والی باتوں کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور مستبقل کی بھی کچھ نہ کچھ خبر ہو جاتی ہے۔
مخلص اور اپنے جیسے دو چار لوگ آپ کی زندگی میں ہو نے ضروری ہیں۔۔ مادی خواہشوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہم سب کسی با اثر عہدے والے انسان کی چاپلوسیاں کر تے کرتے ایسے کئی دوست راستے میں چھوڑ آتے ہیں، اس لئے خود کو اور اپنے ان سچے،اچھے اور مخلص دوستوں اور رشتے داروں کو ممکنہ ڈپریشن سے بچانے کے لئے اپنے پاس سنبھال کے رکھیں چاہے وہ کسی بڑے عہدے پر ہیں یا نہیں وہ مالی طور پر مستحکم ہیں یا نہیں کیونکہ پھر کسی اسامہ جمشید کو یہ نہیں کہنا پڑے گا؛
مرے جنازے کو جا کے پیڑوں کے پاس رکھنا
وہ چل کے آئیں گے اتنا کہنا بلا رہا ہوں میں
گجرات کے اس نوجوان شاعر کی خود کشی نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہنستے مسکراتے چہرے والوں کی روح کتنی خالی ہو جاتی ہے اس کا اندازہ اس کرب سے گزرنے والے ہر حساس انسان کو بخوبی ہو سکتاہے۔یہ مضمون ایک چھوٹی سی کاوش ہے کہ ہم اس کرب اور دکھ بھرے واقعے سے کچھ ایسا سیکھنے کی کوشش کر یں کہ کل کو ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کوئی اور اسامہ یہ سب نہ کر گزرے۔ اس مضمون میں ٹاکسک لوگوں کی پہچان کی کئی باتیں ہیں۔۔ جیسے کہ حاسد، مقابلہ بازی کر نے والے، آ پ کی حدود کا خیال کئیے بغیر آپ کی زندگی میں مداخلت کر نے والے، ہر وقت طنز یا منفی باتیں کر نے والے، آپ کو اپنے خیال کا اظہار تک کرنے کی اجازت نہ دینے والے، آپ کو بس استعمال کی ایک چیز سمجھنے والے، خود غرض اور بے حس، ایسے لوگ اگر آپ کے نزدیک ہیں تو خود کو ان سے دور کر لیں ورنہ ایک دن آئے گا یا تو آپ خود ایسے ہی بن کر کئی دوسرے معصوم لوگوں کا خون چوس رہے ہو نگے اور یا پھر اسامہ کی طرح مایوسی کی اس انتہا تک پہنچ جائیں گے کہ زندگی سے انتقام لے کراس کی دشمن “موت” کو گلے لگا لیں گے۔
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں گے(ناصر کاظمی)
Leave a Reply