وہ علم میں جس کے اول سے ہر رازِ نہانِ ہستی ہے
ایک اردو غزل از احسان دانش
وہ علم میں جس کے اول سے ہر رازِ نہانِ ہستی ہے
وہ جس کے اشاروں پر رقصاں عالم کی بلندی پستی ہے
وہ جس کی نظر کے تاروں سے وحشی کا گریباں سلتا ہے
وہ جس کے تجلی خانے سے خورشید کو جلوہ ملتا ہے
وہ جس کا وظیفہ کرتے ہیں کُہسار کے بیخود نظارے
وہ جس کی لگن میں تر رہتے ہیں اہلِ صفا کے رخسارے
وہ جس کی نگاہیں رہتی ہیں ہریالی کی رکھوالی پر
وہ جس کی ثنائیں ہوتی ہیں گلزار میں ڈالی ڈالی پر
وہ جس کی رحمت کے نغمے گاتی ہے ہوا برساتوں میں
وہ جس کی یاد ستاتی ہے سردی کی سُہانی راتوں میں
وہ دل میں جس کی الفت سے اک نور سا لہرا جاتا ہے
جب باغ کی لرزاں شاخوں میں مہتاب جبیں چمکاتا ہے
وہ نام سے جس کے، چشموں میں تمہیدِ ترنم ہوتی ہے
وہ جس کے شگوفہ زاروں میں تقلیدِ تبسم ہوتی ہے
وہ جس نے ہمیشہ روندا ہے اُمید کی رخشاں بستی کو
جو راہِ فنا پر لاتا ہے پابند قیودِ ہستی کو
وہ جس کی خموشی راتوں کو چھاتی ہے کشادہ گلیوں میں
وہ جس کے تبسم بستے ہیں گلزار کی کمسن کلیوں میں
وہ جس کو سارے عالم میں محبوب شبیہِ انساں ہے
لاریب اُسی کا بندہ ہوں احسان مرا یہ ایماں ہے
احسان دانش