اس نے ہم کو آج بلایا ہم بھی خواب سے جاگ پڑے
سندر تھی آواز کہ جیسے کان میں کوئی راگ پڑے
عشق نہ پوچھو جان کے پیچھے کوئی جیسے ناگ پڑے
کیسے کیسے پاپڑ بیلے کیا کیا ہم کو لاگ پڑے
میں تو کب کا بھانپ چکا تھا تیری آمد خیر نہیں
صبح سویرے لڑنے جب اِک دوجے کو کچھ کاگ پڑے
کیسے ہجر نبھاۓ جس میں دم ہی کم ہو وحشت کا
کاہل کے سر پر کیسے عزت والی پاگ پڑے
تو نے مجھ کو جاھل کہہ کر اپنا آپ بگاڑا ہے
جسم ڈبوۓ دریا تیرا ، منہ میں تیرے آگ پڑے
ہر دوجے بندے میں وہ جو عیب تلاشا کرتا تھا
دیکھ لو اس کی صورت بگڑی منہ پر کتنے داگ پڑے
سارے شور شرابوں سے حاضر یوں چھپ کر بیٹھ گیا
اب کوئی بھی پاس نہ آئے چاہے جتنی تیاگ پڑے
حاضر تجھ کو کیا بتاؤں دل کی اس بیماری کا
سارے تن میں شعلہ بھڑکے تن میں جیسے آگ پڑے
احمد رضا حاضر