گزر چلی ہے شبِ دل فگار آخری بار
بچھڑنے والے ہیں یاروں سے یار آخری بار
دمک رہا ہے سحر کی جبیں پہ بوسۂ شب
تھپک رہی ہے صبا روئے یا ر آخری بار
ذرا سی دیر کو ہے پتّیوں پہ شیشۂ نم
گزر رہی ہے کرن آر پار آخری بار
یہ بات خیموں کے جلتے دیئے بھی جانتے ہیں
کہ ہم کو بُجھنا ہے ترتیب وار آخری بار
کسی الاؤ کا شعلہ بھڑک کے بولتا ہے
سفر کٹھن ہے مگر ایک بار، آخری بار
سُموں سے اُڑتی ہوئی ریگِ دشت ڈھونڈتی ہے
غبار ہوتے ہوئے شہسوار آخری بار
کسی قریب کے ٹیلے پہ راہ دیکھتی ہے
مدینہ جاتی ہوئی رہ گزار آخری بار
سعود عثمانی