اردو تحاریراردو کالمزڈاکٹر وحید احمد

چڑ چڑانے کی بات کرتے ہو۔۔۔۔!!!

الیاس بابر اعوان کے نام

شب برات کی روشنیاں، رونقیں اور ہنگامے ہم لوگوں کےبچپن کی حسیں یادیں ہیں۔
چڑ چڑ بہت بڑی سائنس تھی۔ ایک کاغذ پر چپکی ننھی ننھی بارودی ٹکیاں خشک رکھی جاتی تھیں۔ سیلن زدہ چڑچڑ نہیں چل پاتی تھی۔ کنکریٹ کی کھردی دیوار یا اکھڑے فرش پر رگڑنے سے یہ trigger ہوتیں تو chain reaction عمل انگیزی کرتا اور دیر تک جلتا کاغذ چڑچڑاتا رہتا۔ چڑچڑ کے ساتھ ساتھ ہوائیاں، مہتابیاں، پھلجھڑیاں تو قریب قریب ہر گھر کی ضروریات میں شمار ہوتی تھیں۔ گھر کی چھتیں شام ڈھلتے ہی بارونق ہو جاتی تھی۔ اڑتی مہتابیاں باقی گھروں کی آتشی پروازیں مہمیز کرتی تھیں۔ پھلجھڑیاں دہکا کر خوبصورت چہروں کے گرد گھما کر ان کی آرتی اتاری جاتی تھی۔ جلتی بجھتی روشنیاں خوبصورت چہروں کو سحر انگیز حد تک دلکش کر دیتی تھیں۔
کچھ منچلے رنگین پٹاخے اپنی مٹھی میں رکھ کر گرم پھونک کیphuljadi آنچ دیتے تو وہ چارج ہو جاتے اور پھر انہیں زور سے دیوار پر دے مارتے تو پٹاخہ بجتا تھا۔ کئی شرارتی بارودی چوہے کو آگ دکھاتے تو وہ اپنی چال میں بےقابو ہو کر عمر رسیدہ لوگوں کے تہ بند اور شلواروں میں گھس کر گردش کرنے لگتے۔ کئی لوگوں کے اعضائے رئیسہ قدرے جھلس جاتے اور لوس لوس کرتے رہتے۔ کچھ بےچین روحیں شربت کی خالی بوتلوں میں ہوائیاں عمودا” ڈال کر فتیلے کو آگ دکھاتیں تو وہ میزائل کی طرح لانچر سے نکل کر دور آسمان پر جا کر پھٹتیں تو دور ستارے آتشیں رنگوں کی ہولی کھیلنے لگتے۔
پھر شرپسندوں کے گروہ، چھید کئے ٹین کے ڈبے میں گندھک کی ڈلیاں بھر کر زور زور سے ہلاتے۔ گندھک کو افزودہ کرنے کے لئے وہ ڈبے میں ڈلیوں کے اوپر بار بار تھوکتے اور ٹکٹکاتے ڈبے کو پوری قوت سے ہلاتے۔ پھر اس کا چھید جلتی آگ پر دھرتے تو ڈبہ ایک دھماکے سے اوپر اڑ جاتا۔ ڈبے کو ڈھونڈ کر پھر سے دھماکہ کیا جاتا۔
کچھ دہشت گرد بھی پائے جاتے تھے۔ وہ موٹی ڈوری میں لپٹا بم (سیبے والا بمب) بڑی رعونت سے اس کے چار پایوں پر جما کر فرش پر رکھتے تو تمام بچے خوف سے کان بند کر لیتے۔phuljadi فیتے کو آگ دکھائی جاتی۔ رفتہ رفتہ سلگتا فیتہ بم کے اندر جا کر ایک ثانیے کو خاموشی اختیار کرتا اور پھر جو دھماکہ ہوتا تو دیوار و در لرز جاتے۔ ایک دو بم چلنے کے بعد گھر کے بزرگ چھت پر آتے اور طمانچوں سے بمبار کے چہرے کا حلیہ بگاڑ دیتے۔
کئی متمول گھروں کی چھتوں سے بھرپور آتش بازی کا مظاہرہ ہوتا۔ بارود تمام شوخ رنگ اوڑھے آسمان پر رونمائی کرتا۔ رنگ ہی رنگ بکھر جاتے جو کئی میل تک دکھائی دیتے۔ نیچے رسوئی میں انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبو اٹھتی، گندھک اور پوٹاش کی بو میں جذب ہو جاتی۔ چھتوں کی منڈیروں پر شمعیں قطار اندر قطار جلتیں۔ گھر گھر چراغاں ہوتا۔ بارش اور آندھی سے بچاؤ کی پرخلوص دعائیں مانگی جاتیں۔ کیا روشن روشن رات ہوتی۔ جگمگ جگمگ۔ ہر طرف میٹھی میٹھی باتیں، ہر جانب پیار بھری بولی۔ گھر گھر میں چراغاں، چھت چھت پہ ہولی۔
وہ بہت ہی معصوم اور پیار بھرے دن تھے۔ ہم لوگ بہت بےضرر دہشت گرد، بڑے پیارے شرپسند اور بہت دلکش بمبار تھے۔
کچھ کھیل بچوں کے لئے ہوتے ہیں۔ بہتر ہے کہ بچوں ہی کو ان سے کھیلنے دیا جائے۔ مگر نہیں۔ بچوں کے کھلونے چھین کر بڑے ان سے کھیلنے لگ گئے۔ اب یہ کھیل بہت بڑے پیمانے پر کھیلا جاتا ہے۔ اسی لئے دنیا آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھی ہوئی ہے۔ مکافات عمل ہے۔

وحید احمد
25 جون 2025

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button