مغرب میں جدیدیت کی روایت
شمس الرحمن فاروقی کی اردو تحریر
کپلنگ کا بدنام زمانہ قول ’’مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب، اور دونوں کا نقطۂ اتصال کوئی نہیں۔‘‘ ہندوستان اور یورپ دونوں کے دانش وروں کا ہدف ملامت رہا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس جذبہ کے تحت یہ بات کہی گئی وہ یقیناً قابلِ اعتراض تھا، لیکن کپلنگ سے کوئی خاص ہم دردی نہ رکھتے ہوئے بھی میں یہ کہوں گا کہ مشرق و مغرب کے قومی مزاج میں کچھ ایسے بنیادی اختلافات ہیں، جن کو کسی بھی صورت سے سلجھایا نہیں جاسکتا۔
مغرب میں توکل کامادہ بالکل نہیں، مشرق کے فلسفہ کی بنیاد توکل پر ہے۔ مغرب تجربہ اور تبدیلی کو خوش آمدید کہتا ہے، مشرق تجربہ اور تبدیلی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اگر مغرب کا مزاج اضطراری، بے چینی اور سیماب وشی سے ہم آہنگ ہے اور اس لئے تجربہ اور بغاوت اسے خوش آتے ہیں تو مشرق سکون و جمود کا اس حدتک متلاشی ہے کہ وہ ہر تجربہ کو بغاوت سے تعبیر کرتا ہے۔ مشرق اگر روایت پرست ہے تو مغرب بغاوت پرست۔ ان بنیادی رجحانات کا اظہار مشرق و مغرب کے فنون لطیفہ میں بہت زیادہ کھل کر ہوا ہے۔ مشرق کی موسیقی دھیمی، عام طور پر ہیجان سے گریزاں اور خواب ناک تاثر کی حامل ہے۔ مغرب اس کے برعکس ہے۔ یہی حال ادب کا بھی ہے، مغربی ادب میں ہرعہد نے ادبی اقدار کو نئے سرے سے سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں توڑ پھوڑ سے بھی گریز نہ کیا، لیکن عہد قدیم میں بنائے گئے اصول اور نظریات کی حکم رانی مشرق میں ایک عرصہ تک رہی اور ایک حد تک آج بھی ہے۔
یہاں مجھے اس بات سے کوئی بحث نہیں کہ مشرق کی روایت پرستی زیادہ صحیح اور احسن ہے یا مغرب کی بغاوت پرستی؟ ان دونوں اقدار کے محاسن کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بجائے میں صرف ایک بنیادی حقیقت کااظہار کررہا ہوں اور وہ اس وجہ سے کہ میرے خیال میں مغرب کی جدیدیت در اصل ایک ادبی روایت ہے، چاہے اسے جدیدیت کا نام نہ دیا گیا ہو، لیکن ہر دور میں ادبی اقدار و نظریات کو دوبارہ بیان کرنے ور ان میں کمی بیشی کرنے کی ایک رسم رہی ہے اور ہر بار اس رسم کے ادا ہونے کے بعد ادب بہ ظاہر اپنے ماقبل سے کچھ مختلف لیکن بنیادی حیثیت سے ماقبل سے مماثل رہا ہے۔ آج جس جدیدیت کے سمندر ذکر ہم کررہے ہیں اور جس کی سطح پہ ہمیں بہت سے ناقابل یقین اور ناقابل اعتبار تصورات کے بجرے من مانی سمت میں تیرتے نظر آتے ہیں، وہ در اصل مغرب کی قدیم روایت کے دھارے سے الگ نہیں ہے۔
مغربی ذہن چوں کہ ادبی نظریات اور اعمال کی الٹ پھیر اور ردو قبول سے مانوس رہا ہے۔ لہٰذا مغربی ادیب اور نقاد کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن سے ہم آج دوچار ہیں۔ وہاں نہ کسی جدیدیت نام کی کوئی تحریک اٹھی اور نہ تمام نئے لکھنے والوں کا تضحیک یا طعن تشنیع سے استقبال ہوا۔ مغرب میں جدیدیت کے تصور پر کسی بحث کی ضرورت ہی نہ تھی، کیوں کہ یہ سب کو معلوم تھا کہ ہر عہد اپنے نظریات کی تشکیل خود ہی کرے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہاں نئے اور پرانے ادیبوں پر اعتراضات نہیں ہوئے۔
پرانے عہد میں ادب کا قاری گنتی میں کم تھا اس لئے ایسے اعتراضات بھی کم ہوئے، لیکن اسپنسر اور ملٹن کی زبان پر کڑی تنقیدیں ہوئیں، شیکسپیئر پر اس کے عہد کے فوراً بعد اور پھر کافی دیر تک نکتہ چینیاں ہوتی رہیں۔ سوئن برن کی نظموں کو خوب برا بھلا کہا گیا۔ فرانس میں بودلیر پر اعتراضات ہوئے، بعد میں روسو اور اس کے ہم خیالوں پر ہر طرح کے اعتراض کئے گئے۔ ہارڈی کے ناولوں کو تختۂ مشق بنایا گیا، آسکر وائلڈ کی کتابوں کو مخرب الاخلاق کہا گیا، الیٹ کو مشکل پرست اور بے معنی بتایا گا، وغیرہ لیکن تنقید اور تنقیص کی یہ سب مثالیں ذاتی نوعیت رکھتی ہیں۔
سوائے روسوکی رومانیت کے، جس پر بحیثیت تحریک کے، فرانسیسی اور کچھ جرمنی نقادوں نے بہت لے دے کی اور خود رومانی شعرا اور نقادوں کی ان نکتہ چینوں کے علاوہ جو انہوں نے کلاسکیت پر کیں، کسی ادبی تحریک پر بحیثیت تحریک، تنقید کا رجحان مغرب میں نہیں ملتا اور نہ کسی تحریک کو ’جدید‘ کے نام سے یاد کیا گیا۔
ادب کے ساتھ ’نئے‘ کا لفظ سنجیدگی سے استعمال کرنے والوں میں آسکر وائلڈ کا نام شاید پہلا ہے، جس نے اپنے ناول ’’ڈورین گر ے کی تصویر‘‘ کے مقدمہ (۱۸۹۱) میں لکھا کہ اگر کسی فن پارے کی قدر و قیمت اور خوبی پر نقادوں کی رائے مختلف ہو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ فن پارہ نیا ہے۔ آسکر وائلڈ کے اٹھارہ سو برس پہلے جب لون جائنس (LONGINUS) نے یونانی نظریات ادب کو اپنے طور پر دوبارہ بیان کیا تو اس نے یہ نہیں کہا کہ وہ کوئی نئی بات کہہ رہا ہے۔ اس کے پہلے ہوریس اور کوئن ٹلین (QUIUTILIAN) نے بھی نئے ہونے کا دعویٰ نہیں کیاتھا۔
بوالو نے جب فرانسیسی میں اپنے عقائد (جو کہ کلاسیکی عقائد کہلائے۔ اگرچہ ان کا کوئی گہرا تعلق یونانی نظریات سے نہیں ہے اور جو در اصل یونانی اور لاطینی نظریات کی اساس پر وضع کئے گئے لیکن دونوں سے مختلف ہیں) کی توضیح ۱۶۷۴ءمیں کی تو اس نے جدید ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ فلپ سڈنی نے جب ۱۵۸۳ءمیں شعر کی مدافعت میں کتاب لکھی تو اس نے اگرچہ ارسطو کے نظریات کو کچھ بدل کر پیش کیا لیکن اس نے بھی نئے پن کا کوئی تصور نہیں چھوڑا۔ پوپ نے جب ۱۷۱۱ءمیں تنقید پر اپنی منظوم کتاب لکھی تو اس نے بھی کلاسکیت کا ایک حد تک ذاتی نظریہ پیش کرنے کے باوجود یہ نہیں کہا کہ آج کے لئے یہی نظریہ درست ہے اور یہ نیا ہے۔
اس طرح مغرب کی نظریاتی تنقید کا ایک دل چسپ پہلو یہ رہا ہے کہ جدید نے قدیم کو کبھی منسوخ یا صحیح معنوں میں مؤرخ (DATED) نہیں کہا۔ پوپ یا ڈرائڈن یا بوالو (BOILEAU) میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ ہوریس، کوئن ٹلین یا ارسطو کو منسوخ کرتے اور عہد قدیم کے ادبا یا شعرا کو چاہے وہ ایک دوسرے سے اس قدر مختلف کیوں نہ ہوں جتنا ایس کلس (AESCHYLUS) اور سو فیکلز (SOPHOCLES) ورجل اور لکری شیس (LUCRETIUS) سے تھی، پرانے یا ناقابل اتباع اور اقتدا قرار دیتے۔ حالاں کہ فرانس اور انگلستان کے نام نہاد کلاسکیت پرست شعرا اور ڈرامانویس، کارنیل (CORNEILLE) سے لے کر ڈرائڈن اور ملٹن سے راسین (RACINE) تک کسی بھی صورت سے رومائ ادیبوں کی طرح کلاسیکی نہیں تھے اور رومائی ادیب خود قدیم یونانی ادیبوں کی طرح کلاسیکی نہیں تھے، لیکن ایک نے دوسرے کو منسوخ کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب روایت اتنی بغاوت آمیز یا بغاوت اس قدر روایت انگیز ہو تو جدید ادب کا تعین کیوں کر کیا جائے؟ اور یہ کس طرح کہا جائے کہ جس ادب کو ہم جدید مانتے اور جانتے ہیں، اس کی ابتدا کب ہوئی؟ کیوں کہ اگر جدیدیت بغاوت یا انحراف کا دوسرا نام ہے تو انحراف تو ہر عہد میں ہوا۔ لہٰذا ہم یہ کہیں گے کہ جدیدیت نہ صرف انحراف بلکہ قدیم کی تنسیخ کا نام ہے۔ قدیم کی یہ تنسیخ جب ہوئی تو ہم عصر ذہن کو حیرت نہیں ہوئی، کیوں کہ ہر عہد میں ادیب مقدور بھر نئی باتیں کہتے آئے تھے، لیکن ادب کے آئندہ مؤرخ کی نظر میں یہ تنسیخ یک حیرت انگیز اور عظیم الشان حادثہ قرار پائی۔ کیوں کہ اس سے پہلے انحراف اور تنسیخ قدم بہ قدم نہ تھے۔ یاد رکھنے کے قابل بات صرف یہ ہے کہ یہ انحراف اور تنسیخ تاریخ ادب میں کوئی عدیم المثال حادثہ نہیں، عدیم لمثال حادثہ یہ ہے کہ اس تنسیخ کا کھل کر اظہار ہوا اور جدیدیت وجود میں آئی۔
یہ تنسیخ کب ہوئی؟ اس سلسلے میں الیٹ نے اپنا، ’’ہوش مندی کے انقطاع‘‘ (DISSOCIATION OF SENSIBILITY) والا مشہور نظریہ پیش کیا ہے۔ اس کے خیال میں سترہویں صدی کے آغاز میں ادیب ا پنے معاشرہ کا زندہ اور جیتا جاگتا حصہ نہ رہ کر بدلے ہوئے حالات اور نئے معاشی اور سیاسی ماحول کا شکار ہوکر اپنے عہد سے الگ ہوگیا۔ وہ کہتا ہے، ’’سترہویں صدی کے شعرا کے پاس ہوش مندی اور احساس کے ایسے ذرائع موجود تھے جن کے ذریعہ وہ کسی بھی قسم کے تجربہ کو گھونٹ سکتے اور ہضم کرسکتے تھے۔ وہ مصنوعی، سادہ، مشکل یا حیرت خیز تھے، بالکل اس طرح جس طرح ان کے پیش رو (بہ یک وقت اظہار کے ان تمام طریقوں پر قادر) تھے۔ سترہویں صدی میں ہوش مندی کے انقطاع کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جس کی ہم کبھی بھی اصلاح نہ کرپائے۔‘‘
یہ الفاظ ۱۹۲۱ء کے ہیں۔ بعد میں اس نے ہوش مندی کے اس انقطاع کی ذمہ داری پہلے کی طرح ڈرائڈن اور ملٹن پر نہیں رکھی۔ لیکن یہ کہا کہ ’’اگر ایسا انقطاع واقعی وقوع پذیر ہوا تو اس کے وجوہ اس قدر پیچیدہ اور گہرے ہیں کہ ان کی تفصیل ادبی تنقید کی ا صطلاح میں بیان نہیں کی جاسکتی۔‘‘ ایک عرصے تک الیٹ کے زیر اثر یہ نظریہ مستحکم رہا کہ ہوش مندی کا انقطاع سترہویں صدی میں ہی ہوا۔
الیٹ سے اختلاف کرنا آسان نہیں، لیکن اس نتیجے سے اختلاف کئے بغیر میں نئے ادب کے سلسلے میں اپنے نظریات کو مستحکم نہیں کرسکتا۔ الیٹ کا یہ کہنا میرے خیال میں اس وجہ سے درست نہیں کہ سترہویں صدی کے بعد بھی یورپ کا ادب اپنے ماقبل سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھا اور جہاں جہاں مختلف تھا بھی، وہاں بھی وہ اس اختلاف و انحراف سے پوری طرح آگاہ نہیں تھا، بلکہ ہر ادیب پوپ یا ڈرائڈن خود کو اصلی کلاسکیت کا مبلغ سمجھتا تھا۔ پوپ کے عہد میں بھی (اس کی موت ۱۷۴۴ء میں ہوئی) ادیب اپنے معاشرہ کا ایک زندہ حصہ تھا، اچھا یا برا، وہ غریب شہر نہیں تھا۔ بزرگوں سے ورثہ میں ملی ہوئی ادبی روایتوں پر اس کا اعتقاد مستحکم تھا اور اس کا ماحول بھی اسے ہر طرح قبول کرنے اور اپنانے پر تیار تھا۔
لیکن جب ہم رومانی تحریک یا رومانی احیاء تک پہنچتے ہیں تو ہوش مندی کے انقطاع کی پوری صورت سامنے آجاتی ہے۔ اب تک ادیب و شاعر خود کو معاشرہ کا ایک فرد سمجھتے تھے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح انسان تھے، فرق یہ تھا کہ وہ مصروع موزوں کرسکتے تھے یا اپنے خیالات کو عام سے زیادہ نفیس اور سجتی ہوئی زبان میں کاغذ پر اتار سکتے تھے۔ وہ سب کچھ تھے لیکن مختلف نہ تھے۔ گولڈ اسمتھ بھی برادری سے باہر نہ تھا۔ ڈاکٹر جانسن اور ڈیوڈ گیرک (DAVID GARRICK) اگرچہ ہم جماعت ہونے کے باوجود ہر طرح مختلف المزاج تھے، لیکن وہ بھی لندن کے عظیم اژدہام میں کھوجانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ گیرک جب اپنی سنہری زبان سے شیکسپیئر کے جادو نگار قلم کی سحر کاریوں کو اسٹیج پر بولتاتھا تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی ابھی ہم میں سے اٹھ کر گیا ہے اور فوراً ہی واپس آجائے گا۔ رومانی احیاء کے ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ یہ کیفیت نہیں۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں ہر جگہ ادیب اچانک جلاوطن اور (OUT OF PLACE) سے معلوم ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس بحث کا یہاں موقع نہیں، لیکن مادیت کی فتح نے علم کو جس طرح دولت کا غلام بنا دیا تھا، اس کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں یورپ کا زراعتی سماج آخری بار ہچکی لے کر خاموش ہوگیا۔ اس کی جگہ تیزی سے ایک مشینی سماج نے لینی شروع کردی جس کے اقدار کی بنیاداحساس حسن و خوبی اور علم و فن پر نہیں بلکہ کارآمدگی، مادی آسائشوں میں اضافہ اور توسیع پرتھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شاعر اور ادیب جو اب تک حسن و خوبی اور علم و فن کی بنا پر معاشرے کے معزز اور اہم افراد تھے اچانک بے گھر ہوگئے۔ اب ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں۔ میری نظر میں جدید ادب کی ابتدا یہاں سے ہوتی ہے اور ہوش مندی کا آخری انقطاع یہیں سے ہوتا ہے۔
روسو کے یہ الفاظ قابل غور ہیں۔ خود نوشت سوانح عمری میں وہ کہتا ہے، ’’میرے مزاج اور کردار کی تعمیر ان لوگوں میں سے کسی کے نمونہ پر نہیں ہوئی تھی جنہیں میں جانتا تھا (یعنی جو میرے گرد و پیش تھی) لیکن اگر میں ان سے بہتر نہیں تھا تو کم سے کم ان سے مختلف ضرور تھا۔‘‘ مختلف ہونے کا یہ احساس صرف روسو تک محدود نہیں۔ اسی عہد میں بلیک نے انحراف و تنسیخ کی عمارت کا سنگ بنیاد یہ کہہ کر رکھا کہ ’’ریاضی کی بنیادوں پر تعمیر کی ہوئی یہ ہیئت منطقی حافظہ میں زندہ رہتی ہے لیکن حقیقی زندہ ہیئت کا وجود آزاد ہوتا ہے، حافظہ کا محتاج نہیں۔ گوتھک (GOTHIC) ہیئت زندہ ہیئت ہے۔‘‘ یہ جملہ اور اس کے طرح کے اور بھی بہت سے جملے پیغمبرانہ اقوال جو بلیک کی تحریروں میں بکھرے پڑے ہیں صرف اٹھارہویں صدی کی جامد اور بے روح شعری ہیئت کے خلاف رد عمل نہیں کہے جاسکتے۔ یہ رد عمل تو کوپر (COWPER) اور کولنز (COLLINS) وغیرہ کے یہاں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
دراصل قدیم ہیئت کی یہ تنسیخ اس احساس کی آئینہ دار ہے کہ اس کے پرستار وہی ہوسکتے ہیں جو اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہوں۔ بلیک اپنے عہدسے ہم آہنگ نہیں تھا، کیوں کہ یہ عہد پچھلے عہد سے مختلف تھا، اس حد تک مختلف کہ پچھلا عہد اب بالکل مردہ ہوچکا تھا، لہٰذا اس کی شعری صداقتیں اور اعتقادات بھی مردہ ہوئے۔
یہاں ایک لمحہ کے لئے ٹھہر کر اس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ خود رومانی احیاء جس نے قدیم نظریات کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا، کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ اس لئے اس تحریک کو احیاء یعنی REVIVALکا نام دیا جاتا ہے۔ رومانیت کی تحریک کی جڑیں قدیم یونانی ادب تک پھیلی ہوئی ہیں۔ رومانی اور کلاسکی کا فرق در اصل انداز نظر کا فرق ہے۔ کلاسکیت بیروں بیں (OUTWARD LOOKING) ہے اور رومانیت دروں بیں (INWARD LOOKING) ہر ادیب بہ یک وقت بیروں بیں اور دروں بیں ہوتا ہے۔ لیکن ان دونوں رجحانات کا مکمل توازن کسی میں نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ شیکسپیئر میں بھی نہیں تھا۔ ا گر ادیب پر بیروں بینی غالب ہے تو اس کا ادب کلاسکی مزاج کا ہوگا اور اگر صورت حال اس کے برعکس ہے تو ادب کا مزاج رومانی ہوگا۔
قدیم یونانی ڈرامہ اور تغزل آمیز شاعری میں دروں بینی اور شخصیت و کائنات کے اندرونی اسرار کو سمجھنے اور سمجھانے کی جو کیفیت ملتی ہے، اور اس کی فضا پر جو انوکھی پراسرار دردمندی اور تفکر محیط ہے وہ رومانی ادب کا خاصہ ہے۔ اس طرح نشاۃ ثانہ کا رومانی ادب قدیم یونانی ادب کی معنوی اولاد تھا اور رومانی احیاء کا ادب نشانہ ثانیہ کے ادب سے بہت دور نہیں تھا، اگرچہ انسانی روح کی فتح مندی اور اسرار وعقائد کو حل کرنے کی کامیاب کوشش اور پرمسرت تقلید کے جو عنصر نشاۃ ثانیہ کی سماجی اور ذہنی فضا کے پروردہ تھے اور اس کے ادب میں ہی جلوہ گر تھے، وہ انیسویں صدی کی رومانیت سے تقریباً مفقود نظر آتے ہیں، لیکن اس دور میں ادب سطحی مسائل سے الجھنے اور طنز و مزاح اور سیاسی RELEVANCEکا نام نہ رہ کرایک شدید انسان دوستی، عام انسانی سطح کی طرف بہاؤ اور فطرت پرستی کا مظہر ہوگیا۔
اس کے ساتھ اندرونی تفکر، تنہائی کا احساس اور کائناتی المیہ اور تخلیق میں پنہاں ہزار اسرار کو چھونے کی کوشش بھی نمایاں ہونے لگی۔ بہر حال قابل غوربات یہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ میں جو بغاوت ہوئی وہ اپنی باغیانہ حیثیت سے باخبر نہیں تھی، رومانی احیاء کی بغاوت اپنی باغیانہ حیثیت سے باخبر تھی لیکن در حقیقت وہ کوئی اصلی اور سچی بغاوت نہیں تھی، کیوں کہ اصل میں وہ روایت کی نئے پردوں میں جلوہ گر تھی۔ جس ہیئت کو بلیک گوتھک (GOTHIC) کہتا اور اس کی پرستش کرتا تھا وہ یونان کے یوری پڈیز (EURIPIDES) کو بھی ناقابل قبول ہوتی ور جس ہیئت کو وہ ریاضی نما کہتا تھا اس پر ایس کلس (AESCHYLUS) بھی چیں بہ جبیں ہوتا۔
شاعر کے مختلف ہونے کے احساس نے تنہائی کے احساس کو جنم دیا اور یہ تنہائی طرح طرح سے نقاب اوڑھ کر سامنے آئی۔ ورڈز ورتھ جیسے محتاط شاعر نے بھی شاعر کی تعریف کی تو یہ کہا کہ وہ عام لوگوں کی طرح کا انسان ہے لیکن قوت احساس اور قوت مشاہدہ ان سے زیادہ شدید رکھتا ہے۔ یہ الفاظ روسو کے اس تاریخی جملے کی یاد دلاتے ہیں جو میں نے اوپر نقل کیا ہے۔ روسوکے بازگشت بہ فطرت (BACK TO NATURE) والے نعرے نے جرمنی اور انگلستان میں دو مختلف نتائج پیدا کئے۔ ورڈز ورتھ نے فطرت پرستی کا جو مذہب اختراع کیا، اس کا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ خدا جو انتہائی حقیقت (ULTIMATE REALITY) ہے، فطرت میں جلوہ گر ہے۔ ہم بچپن میں فطرت سے نزدیک، اس طرح خدا کے نزدیک رہتے ہیں اور جوں جوں عمر گزرتی جاتی ہے ہم فطرت سے دور اور اس طرح خدا سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
فطرت پرستی کے اس معصوم تصور کو ورڈز ورتھ کی زندگی ہی میں ڈارون (DARWIN) اور ہکسلے (HUXLEY) اور رسل والس (RUSSEL WALLACE) کے ہاتھوں مسمار و منہدم ہونا تھا اور ایک دوسری طرح کی تنہائی کے تصور کی پیدائش ہونی تھی۔ لیکن ورڈزورتھ اس لئے تنہا تھا کہ انسان نے دولت کو اپنا خدا بنا لیا تھا اور وہ اس فطرت سے دور ہوگیا تھا جو اس کی سچی مونس و غم خوار تھی۔
رومانی احیاء کی تحریک صحیح معنوں میں فرانس اور جرمنی میں شروع ہوئی۔ لیکن انگلستان کے ادب پر اس کا اثر شروع شروع میں زیادہ گہرا پڑا۔ شاید اس وجہ سے کہ صنعتی انقلاب کے دور میں پرانی زندگی کا جتنا انہدام انگلستان میں ہوا، اس حد تک فرانس اور جرمنی میں نہیں ہوا۔ جرمنی میں بازگشت کا نعرہ جو شلیگل برادران (SCHLEGEL) اور شلنگ نے بلند کیا وہ زیادہ روایتی تھا، لیکن ان کے تصورات کی بنیاد ہی فرد کے بے جوڑپن اور عہد حاضر کی گندگی اور بے رنگ مادیت سے بغاوت پر تھی۔ شلیگل برادران نے شیکسپیئر کا مطالعہ اور ترجمہ جس ذوق و شوق اور محنت سے کیا اور جس جوش سے شیکسیپئر کے ڈرامے جرمنی کے اسٹیج پر پیش کئے (ایک زمانہ وہ آگیا کہ شیکسپیئر جرمنی کا تقریباً قومی ڈراما نگار ہوگیا) وہ اسی رومانی تنہائی اور بے چارگی کی دلیل ہیں جس نے کچھ دنوں بعد یوگو (HUGO) سے شیکسپیئر کے ڈراموں کے ترجمے کرائے۔
ادب میں عہد گزشتہ کے رومانی حسن اور اسراریت (MYSTERIOUSNESS) کا عنصر جو ازمنۂ وسطیٰ کے بعد مفقود ہوگیا تھا، جرمنی میں ٹیک، رختر، شلنگ، برطانیہ میں اسکاٹ، کولرج اور فرانس میں یوگو وغیرہ کے ذریعہ پھر زور و شور سے پھٹ پڑا۔ کلاسکی ادب جس احتیاط سے تشدد، قتل و خون، رشک و ہوس اور اس کے پیدا کردہ انتشار و ہراس سے پرہیز کرتا تھا اور خود کو نفاست آمیز ڈرائنگ روم کی گفتگو تک محدود رکھتا تھا، رومانی ادب نے اسی آزادی سے سنجیدہ اور غیر سنجیدہ اور ماتم، قتل و خون اور فلسفہ، بے قابو جوش و بے انتہا انتشار کا عمل دخل ادب میں کردیا۔
اس کی انتہائی مثال یوگو کے ڈرامے ارنانی (HERNANI) میں ملتی ہے۔ مادام دا استائل (HME DA STAEL) نے ۱۸۱۳ء میں جرمنی پر اپنی کتاب ALLEMAGUEلکھ کر جرمن مابعد الطبعیات، گوتھک فن تعمیر اور رومانی شوریدہ سری کو فرانس میں فروغ دیا اور اس طرح رومانی سائیکل جو ۱۷۶۱ء میں روسوکی ناول LE NONVALLEHELOISEسے شروع ہوئی تھی اور شلنگ اور کولرج کے ہاتھوں جرمنی اور انگلستان پر اثر انداز ہوئی تھی، واپس فرانس میں آگئی۔
DEL’ALLEMAGUEکی اشاعت کے وقت رومانی تحریک یورپ میں اپنے پورے شباب پر تھی۔ ذاتی جذبہ و احساس کے اظہار پر جو قدغن کلاسکی ادب نے لگا رکھی تھی اس کے ہٹنے کا اتنا شدید رد عمل تھا کہ ہر طرح کی جذباتیت اور ہر طرح کے سطحی جذبات کا اظہار عام رواج بن گیا۔ یوگو کی شاعری اس کی اچھی مثال ہے۔ ایک طرف تو وہ فطرت میں گم ہوجانے اور صبح کے حسن میں خود کو ضم کرلینے کا انتہائی آدرش پرست تصور پیش کرتا ہے اور دوسری طرف اس کی شاعری سستی، سلفی اور سطحی جذبہ طرازی کی ادنیٰ مثال ہے۔ عام رومانی ادیب کو دیکھ کر یہ احساس پختہ ہوجاتا ہے کہ فرد کے پارہ پارہ ہونے کا عمل اس قدر شدید اور دور رس تھا کہ ہر رومانی ادیب نے ضبط کا دامن چھوڑ دیا تھا۔ بہترین لمحات میں بھی ان کی انفرادیت کا احساس مریضانہ حد تک شدید ہے۔
اگر کیٹس یہ کہتا بھی ہے کہ شاعر ایک انتہائی غیر شاعرانہ شخصیت ہوتا ہے تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ شاعر اپنے تاثرات و مشاہدات کو غیر ضروری ذاتی رنگ آمیزی کے بغیر الفاظ کا لباس عطا کرتا ہے، کیٹس کا مطلب یہ نہیں کہ شاعر ایک نارمل اور عام انسان ہوتا ہے۔ پوپ اس جملے کا یہی مطلب لیتا ہے۔ لیکن کیٹس کا یہ کہنا بھی اک استثنا کی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ عام رومانی ادیب کا مسلک اس سے مختلف تھا۔ اپنی ذات میں گم رہنے اور اپنے زخم کریدنے اور اپنی منتشر شخصیت کو کسی نہ کسی طرح یک جا کرنے اور پھر اس کے پارہ پارہ ہوجانے کا شور ماتم اس کی شاعری سے اس شدت سے ابھرتا ہے کہ گوئٹے نے حقارت سے کہا، ’’رومانی ادیب اس طرح لکھتے تھے جیسے وہ سب بیمار ہوں اورساری دنیا ایک ہسپتال ہو۔‘‘
نئے زمانے کے ادب میں گوئٹے کی ایک واحد شخصیت ہے جو مجروح و مصلوب ہونے سے بچ گئی اور جس کے یہاں دروں بینی اور بیروں بینی کا تقریباً توازن نظر آتا ہے۔ لہٰذا اس کا یہ تحقیری بیان باعث حیرت نہیں، باعث افسوس ہو تو ہو۔ باعث افسوس اس وجہ سے کہ اس عہد کا ادیب دار پر چڑھے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا اور اس کے نتیجہ میں وہ ایک گدلی، دھندلی، نیم روشن دنیا کا باسی بن گیا تھا، جہاں زندہ رہنے کے لئے انفرادی اعتقاد اور راہ فرار اختیار کئے بغیر چارہ نہ تھا۔
اس طرح ہمارے ہم عصر ادب کے الجھے الجھے منتشر اور مریضانہ لہجہ کی اصل رومانی احیاء میں ملتی ہے۔ آج کا ادب رومانی ادب سے بہت مختلف ہے، لیکن اصلاً رومانی ہے، کیوں کہ جن حالات نے کیٹس، شیلی، یوگو اور شلر کو جنم دیا تھا وہ اب پہلے سے زیادہ شدید ہیں۔ جدید ادب کا دوسرا بڑا مسئلہ بھی پہلے پہلے رومانی ادیبوں نے ہی چھیڑا۔ اب تک چوں کہ ہوش مندی کا انقطاع نہ ہوا تھا، اس لئے ادیب کو اپنا مافی الضمیربیان کرنے میں دشواری نہ ہوتی تھی۔
جو زبان وہ بولتا تھا وہی اس کے قاری یا سامع کی زبان تھی۔ اب تک سماج ہیز (HAES) کے الفاظ میں مجموعی حیثیت سے زراعتی تھا، لیکن مشینی سماج میں شاعری کی زبان وہ نہ ہوسکتی تھی جو زراعتی سماج میں تھی۔ ایک زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اب تک شاعر کے ذہنی جوابات (MENTAL RESPONSES) اور جذباتی تخیلی رد عمل کی نوعیت اور تھی۔ مشینی سماج میں رد عمل کی نوعیت وہ نہ رہ سکتی تھی۔ شاعر کسی اور طرح سے سوچنے اور محسوس کرنے لگا تھا۔
لہٰذا اب یہ ضروری نہ تھا کہ جو کچھ وہ کہے وہ سب کی سمجھ میں آسانی سے آجائے۔ شاعری کی زبان کے نارم (NORM) اب تک یہ تھے کہ چوہے کو چوہا نہ کہو بلکہ WHISKERED VERMINکہو، جوتے کو جوتا نہ کہو بلکہ THE CASING OF THE LOWER LIMSکہو، پھاوڑے کو پھاوڑا نہ کہو بلکہ AN AGRICULTURAL IMPLEMENT کہو۔ لیکن جس زبان کے نارم یہ تھے وہ شدید وروں بینی کی متحمل نہ ہوسکتی تھی۔ نشاۃ ثانیہ میں رابلے RABELAIS) شیکسیپئر اور مارلو (MARLOWE) اور سروانٹی (CERVANTES) نے ہزاروں ایسے الفاظ استعمال کئے تھے جنہیں بعد میں INDECENTاور فحش اور غیر مہذب کہہ کر برادری باہر کردیا گیاتھا۔ یہاں پر ایک جملہ معترضہ یہ ہے کہ کلاسکی ادب کے ماڈل شعرا مثلاً جوونل (JUVENAL) اور لکری شیئس (LUCRETIUS) کی زبان اس قدر کھلی ہوئی ہے کہ ہمارے عہد کو بھی مات کرسکتی ہے۔ بہر حال رومانی ادیب کو زبان اور ابلاغ کا مسئلہ بھی حل کرنا تھا۔
اس مہم کو سب سے پہلے شیلی جیسا انقلاب پرست ملا۔ اس نے اپنے مضمون A DEFENCE OF POETRYمیں پہلی بار اس خیال کا اظہار کیا کہ شعر وہ سب کچھ نہیں کہہ پاتا جو شاعر کہنا چاہتا ہے۔ شعر کی تخیلی حیثیت کو واضح کرنے کے لئے اس نے کہا کہ ’’شعر نا مانوس چیزوں کو مانوس اور نا مانوس چیزوں کو مانوس بنا دیتا ہے۔‘‘ لیکن یہ تخیلی عمل الفاظ کے ذریعہ ہوتا ہے اور الفاظ یا زبان ’’تخیل کے ذریعہ بے باکانہ اور بے روک ٹوک پیدا ہوتی ہے اور اس کا تعلق صرف فکر سے ہے۔‘‘
اس کے بعد، ’’یہ کسی بھی طرح ضروری نہیں ہے کہ شاعر اپنی زبان کو روایتی ہیئت تک محدود رکھے۔ بہت بڑے شاعر کو بالضرور اپنے خاص انداز کی شاعری کے ڈھانچے کے لئے اپنے پیش رووں کے نمونوں سے انحراف کرناچاہیے۔‘‘ پھر وہ کہتا ہے کہ ’’جب شعر موزوں ہونا شروع ہوتا ہے تو شاعر کا الہام زوال پذیر ہوچکا ہوتا ہے۔ شعرا کی طرف سے جو بہترین شاعری ہم تک پہنچی ہے وہ غالباً ان کے اصل تصور کا ایک کم زور سا عکس تھی۔‘‘
پھر آگے چل کر یہ عبارت ملتی ہے، ’’ہم کو (شعر کی تخلیق کے دوران میں یا اس کے پہلے) فکر و احساس کے جلدی سے اوجھل ہوجانے والے اور دھندلے خیالی پیکروں کی آمد کا احساس ہوتا ہے۔ یہ پیکر کبھی کسی جگہ، کبھی کسی شخص اور کبھی صرف ہمارے ذہن سے متعلق ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم سے کسی بہت زیادہ بلند اور الوہی ہستی کا ہماری ہستی سے اتصال وامتزاج ہوگیا ہے، لیکن اس ہستی کے نقش قدم سمندر پر ہوا کے نقش قدم سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ آنے والا سکوت ان نقوش کو مٹا دیتا ہے اور ان کے صرف نشان باقی رہ جاتے ہیں، جس طرح سمندر کے کنارے پڑی ہوئی ریت پر لہروں کے مدھم نقش باقی رہ جاتے ہیں۔‘‘
ظاہر ہے کہ ابلاغ اور زبان کے مسئلہ پر یہ خیالات ایک حد تک آغازی اور یک طرفہ ہیں۔ شیلی کا زیادہ تعلق اس بات سے ہے کہ شاعر وہ سب کچھ نہیں کہہ پاتا جو کہنا چاہتا ہے۔ ابلاغ کے مسئلہ کا یہ صرف ایک ہی رخ ہے۔ لیکن یہ بھی اس دوسرے رخ کی طرح اہم ہے جس پر ہمارے عہد نے زیادہ توجہ مرکوز کی۔ علاوہ بریں اس کے پہلے مغربی ادب میں ابلاغ کی بات کبھی اٹھائی ہی نہ گئی تھی اور تقریباً دو ہزار برس سے کسی نے یہ بات کھل کر کہی تھی کہ شاعروں کو حق ہے کہ وہ اپنے الہام اور موضوع کی ضرورت کے اعتبار سے زبان اور ہیئت میں ترمیم کرے۔
شیلی کے نظریات کا اثر اس کے بعد میں آنے والوں پر بہت گہرا نہیں پڑا۔ اس کے برخلاف بلیک کے تصورات زیادہ دور رس اور دیرپا تھے، اگرچہ اس نے اس مسئلہ پر شیلی سے زیادہ وضاحت سے لیکن ایک دوسرے نقطہ نظر سے رچا اور لکھا تھا۔ درحقیقت اگر رومانی احیاء کی تحریک عصری ادب کا چشمہ آغاز ہے تو بلیک کے تصورات نے عصری ادب کو اس کا بیش تر فکر و فلسفہ دیا۔ بلیک زبان اور ابلاغ کے مسئلہ سے اتنا نہیں الجھا جتنا پورے ادب پارے کی زندہ حیثیت سے۔ سب سے پہلے تو اس نے تعمیمی ادب کے خلاف آواز اٹھائی اور سترہویں اور اٹھارہویں صدی کی اس شاعری کو مطعون کیا جو عام مسائل کو عام زبان میں اور گول مول ڈھنگ سے ادا کردیتی تھی۔
پوپ کی مشہور نظم (جس کا حوالہ میں نے اوپر دیا ہے، ’’ایک تنقیدی مضمون‘‘ اس طرح کی گول مول تعمیم کا اچھا نمونہ ہے۔ شیلی نے اپنا مضمون ۱۸۲۱ء میں لکھا تھا۔ بلیک شیلی سے کم پڑھا لکھا تھا لیکن اپنے اپنے زمانے کے شعری تقاضوں اور خاص کر ان تقاضوں کا جو اس کی منفرد طبیعت کے پیدا کردہ تھے، بہت اچھا ادارک تھا۔ وہ ۱۸۲۰ء میں کہتا ہے کہ ’’تعمیم احمقوں اور کم عقلوں کا شیوہ ہے۔ حسن و خوبی کی بڑی پہچان تخصیص ہے۔‘‘
اسی مضمون میں وہ کہتا ہے، ’’شعر کی ایک مرکزی ہیئت جو دوسری تمام ہیئتوں پر محیط ہو، (یعنی کلاسکی ہیئت) میں تسلیم کرتا ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی سب ہیئتیں بے شکل ہیں۔ ہر ہیئت شاعر کے ذہن میں مکمل واکمل ہوتی ہے، لیکن ہیئتیں فطرت سے بنائی یا مستنبط نہیں کی جاتیں (یعنی شعری ہیئت فطرت کی نقل نہیں ہے) بلکہ وہ تخیل سے پیدا ہوتی ہیں۔‘‘ میں اوپر بلیک کا قول نقل کرچکا ہوں کہ ریاضی پرست ہیئت جامد ہوتی ہے۔ ان تمام خیالات میں جدید ادب اور تمثیلیت پرستوں کا بنیادی نظریہ موجود ہے کہ نظم ایک زندہ اور آزاد حقیقت ہے اور ہیئت اور موضوع دونوں ایک ہی شے کے دو نام ہیں کیوں کہ ایک کا تصور دوسری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
بلیک کا پورا تصور اسی خیال کے گرد گھومتا ہے کہ نظم ایک درخت کی طرح زندہ اور مکمل شخصیت رکھتی ہے، نظم بنائی نہیں جاتی، بلکہ بنتی ہے اور ایک جگہ وہ کہتا ہے، ’’فن شجر حیات ہے، یسوع خدا ہے اور سائنس شجر موت۔‘‘ یہاں فن اور سائنس میں وہی رشتہ ہے جو ریاضی پرست ہیئت اور گوتھک ہیئت میں ہے۔
امریکہ میں امرسن اور یورپ میں کولرج، رومانیت کے دو کاہن اعلیٰ جرمن ما بعدالطبیعات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے۔ اور جرمن تنقید اور فلسفہ پر ہرڈر (HERDER) کا بہت گہرا اثر پڑا تھا۔ ہرڈر نے جرمنی میں بازگشت کی تحریک کا ایک طرح سے آغاز کیا تھا اور رومانی ادیبوں کو شیکسپیئر سے روشناس کرایا تھا۔ شیکسپیئر کے ڈرامے کنگ لیر (KING LEAR) کے بارے میں اس کا یہ قول کہ یہ ڈراما کائنات کے اسرار کو حل کرنے کی نہیں بلکہ ’’کائنات کو دوبارہ خلق کرنے کی کوشش ہے۔‘‘ رومانی نقادوں کے لئے مشعل راہ بن گیا۔
بلیک سے ذرا ہٹ کر لیکن انہیں خطوط پر سوچتے ہوئے کولرج اور امرسن دونوں تقریباً اس نتیجے پر پہنچے کہ شعر میں زندگی کی سی حرکت اور بھرپور پن ہونا ضروری ہے۔‘‘ ادب کو ایک ’’ایک دوسرے میں باہم مختلط اور زندہ کرنے والی روح سے مملو ہونا چاہیے۔ فرینک کرموڈ کے الفاظ میں، ’’فن پارہ کی ایک آزاد زندگی اور ہستی ہونا چاہیے اور اس کا حسن اور اس کی ہستی دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہونا چاہیے۔ اس کو ایک درخت کی طرح ہونا چاہیے۔‘‘
یہاں ہمیں بلیک کا قول یاد آتا ہے کہ ’’فن شجر حیات ہے۔‘‘ کولرج اور امرسن دونوں بلیک سے ہم آہنگ تھے کہ ہیئت اور موضوع ایک ساتھ خلق ہوتے ہیں اور ایک ہی رخ کے دو پہلو ہیں۔ امرسن اس حد تک تو نہیں گیا، لیکن پھر بھی اس نے کہا کہ گو شاعر کے ذہن میں وجود میں آتے وقت موضوع پہلے اور ہیئت بعد میں خلق ہوتی ہے، لیکن وقت تخلیق کے اعتبار سے دونوں ایک ساتھ جنم لیتے ہیں۔ امرسن کا خیال تھا کہ شعر کی فکر (THOUGHT) اس قدر زندہ اور جوشیلے تحرک سے بھرپور ہوتی ہے کہ کسی ذی روح یا کسی پودے کی روح کی طرح اس کی بھی اپنی تعمیر یات ہوتی ہے اور وہ فطرت کو ایک نئے وجود سے زینت بخشتی ہے۔‘‘ یہاں بھی درخت کا تصور موجود ہے۔ یہ الفاظ ۱۸۴۴ء کے ہیں اور یہ کہنا مشکل ہے کہ ہمارے عہد کا نظریۂ فن ان تصورات سے بے گانہ ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ ہمارے عہد کے نظریہ فن کی اساس انہیں تصورات پر ہے۔
رومانی احیاء کی تحریک نے فن کو ایک مختلف ڈھنگ سے پرکھا اور بیان کیا۔ لیکن سارا رومانی ادب اس اعلیٰ سطح پر خلق نہیں کیا گیا تھا۔ ادب میں بے ضابطگی اور بے راہ روی کا جو رواج رومانی رد عمل کی دین تھا، اور جس نے بہت سی سطحیت کو فروغ دیا، میں اس کی طرف اوپر اشارہ کرچکا ہوں اور یوگو کی مثال دے چکا ہوں۔ بے ضابطگی اور سطحیت زدہ انحراف کی مثالیں فرانس کے ادب میں زیادہ ملتی ہیں، غالباً اس وجہ سے کہ فرانسیسی ادب پر روایتی کلاسکیت کا تسلط بھی زیادہ بھاری اور گہرا تھا۔ لہٰذا رومانیت کے خلاف جو آوازیں اٹھیں، ان میں فرانسیسی تنقید ہمیشہ پیش پیش رہی اور آج بھی ہے۔
’’رومانی بیماری‘‘ نام کی کتاب جو سیلئے (SCILLERE) نے لکھی، رومانی ادیب کی شدید اور جانب دارانہ تنقید ہے۔ سب سے زیادہ غصہ روسو پر نازل ہوا۔ روسو نے کہا تھا، ’’رومانیت انقلاب ہے اور روسو رومانیت۔‘‘ اس کے جواب میں ایک نقاد نے کہا کہ روسو کی تحریروں سے سڑی ہوئی لاشوں کی بدبو آتی ہے۔ کسی نے کہا کہ رومانیت نے انسانی ذہن کو سڑا ڈالا۔ ایک نقاد نے شاتو بریاں (CHATAU BRIAND) پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ زندگی بھر ایک لبرل رہا، یا انارکسٹ رہا۔ دونوں ایک ہی چیزیں ہیں۔‘‘
اس LA MAL ROMANTIQUE (رومانی بیماری) کے خلاف رد عمل ہونا لازم تھا۔ یہ رد عمل شاتو بریاں اور کولرج اور شلیگل کے خلاف اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا فریب شکستگی کا پروردہ تھا۔ سیلئے (SEILLIERE) نے اپنی کتاب میں رومانی تحریک کے پانچ واضح ادوار گنوائے ہیں۔ اس کے خیال میں پہلا دور ہوش مندی کا دور تھا، جس کا آغاز روسو نے ۱۷۶۱ء میں کیا۔ یہ عہد فطرت کو واپسی اور کلاسکیت کے خلاف رد عمل کا تھا۔ دوسرے دور کا آغاز ۱۷۹۵ء میں شلیگل کی کتاب AESTHETIC LETTERSکی اشاعت سے ہوتا ہے۔ اس عہد کو وہ زندگی سے تھکن اور بے زاری کا دور کہتا ہے۔ تیسرا عہد یوگو کے ’’ارنانی‘‘ کی اشاعت (۱۸۳۰) سے شروع ہوتا ہے۔ اسے وہ ’’صدی کا مرض‘‘ MALDUSIECLEکہتا ہے۔ صدی کے مرض سے اس کی مرا یہ ہے کہ وہ زمانہ مریضانہ ذہنیت کا تھا اور اس لئے اس کا ادب بھی غیر صحت مند رہا۔
چوتھا دور ۱۸۶۰ء کے آس پاس شروع ہوتا ہے جسے وہ قنوطیت اور ناامیدی کا دور کہتا ہے۔ اس دور کی اہم شخصیتیں فرانسیسی یاسیت پرست ناول نگارستاں دال (STENDHAL) اور جرمن قنوطی فلسفی نطشہ (NIETZSCHE) ہیں۔ اس فہرست میں ہارڈی کا نام بھی رکھا جاسکتا ہے۔ پانچواں دور ۱۸۹۰ء کے آس پاس شروع ہوتا ہے، اسے وہ ورلن (VERLAINE) اور آسکر وائلڈ کا دور کہتا ہے اور اسے ’’اعصابی اختلال‘‘ کے زمانے کا نام دیتا ہے۔
اس تقسیم کو غور سے دیکھئے تو پہلی بات یہ واضح ہوجاتی ہے کہ ادب ا ور وہ بھی یورپ جیسے براعظم کے ادب کو اتنی آسانی سے ادوار اور تاریخوں میں منقسم نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ رومانی تحریک کلاسکیت کے خلاف صرف رد عمل نہیں تھا، بلکہ بہت کچھ تھی جیسا کہ میں واضح کرچکا ہوں۔ تیسری مشکل یہ ہے کہ سیلئے کے مطابق ہوش مندی کا دور ۱۷۹۵ء میں ختم ہوجاتا ہے جب کیٹس پیدا ہوا تھا اور شیلی تین سال کا تھا اور کولرج اور درڈز ورتھ کی شہرۂ آفاق کتاب یعنی LYRICAL BALLADS) کو شائع ہونے میں تین سال باقی تھے۔ یہ کہنا کہ رومانی تحریک کے صحت مندر عناصر ۱۷۹۵ء تک ختم ہوچکے تھے، انتہائی زیادتی ہوگی۔
اسی طرح یوگو کی زیادتیوں کے باوجود ۱۸۳۰ء اور ۱۸۵۰ء کے درمیان اہم رومانی ادب منظر عام پر آیا۔ اگرچہ ۱۸۲۴ء میں بائرن کی موت کے تھوڑے دنوں بعد رومانی تحریک کے دم خم یورپ میں کم رہ گئے کیوں کہ بائرن اپنی تمام غیر رومانیت کے باوجود یورپ میں رومانیت کا فرشتۂ اعلیٰ مانا جاتاتھا، لیکن ابھی کولرج کو دس سال اور زندہ رہنا تھا اور امریکہ میں امرسن اور پوکی بہترین تخلیقات ۱۸۴۰ء کے بعد تک سامنے آئی تھیں۔
ان سب خامیوں کے باوجود سیلئے کی طبقہ بندی میں ایک بات بہت سچی ہے۔ ۱۸۵۰ء آتے آتے رومانی تحریک سے سرمستی اور از خود رفتگی جاتی رہی تھی۔ رومانی الم ناکی اب رومانی ا لمیہ میں تبدیل ہوچلی تھی اور انگلستان میں ٹینی سن براؤننگ جیسے شاعر اگرچہ اب بھی مسرت یا سرخوشی کے راگ الاپ رہے تھے لیکن یہ صاف معلوم ہورہا تھا کہ انہیں دیو قامت رومانیوں کے جھوٹے برتن ہی نصیب ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان شعرا نے دنیا کے ادب میں اپنی کوئی جگہ نہیں چھوڑی، نہ وہ پچھلی رومانیت کو اپناسکے اور نہ اگلی واقعیت پرستی کو۔ ۱۸۵۰ء سے لے کر ۱۸۹۰ء تک کا دور یقیناً یوروپی ادب میں قنوطیت، تاریکی اور سنگ دل واقعیت کا دور ہے۔ لیکن یہ واقعیت رومانیت کے خلاف رد عمل نہیں تھی، بلکہ اسی رومانی تحریک کا تسلسل تھی، ایک طرح سے اسے فریب شکستہ رومانیت بھی کہا جاسکتا ہے۔
واقعیت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے مغربی ادب کو بالآخر زمین کی پستیوں پر اتار دیا۔ اب یونانی اور رومائی ضمیات کے افسانوں پر مشتمل شاعری، افسانہ نگاری یا مصوری ممکن نہ تھی۔ اب خیالی دنیاؤں کی یا قدیم پراسرار داستانوں میں عشق و حسن اور نیک وبد کی کش مکش کا افسانہ سنانا ممکن نہ تھا۔ رومانی تحریک نے انسان دوستی اور عام انسانی مسائل اور موضوعات کو راہ دی تھی، لیکن اس کا لباس اب بھی ایک حد تک نوابانہ تھا، اگرچہ کردار عام انسانوں کا تھا۔
وسط انیسویں صدی کی واقعیت کے ہاتھوں ادب کی اشرافیت دھم سے زمین پر آرہی۔ ادب کے اس عوامی کردار کا سب سے اہم نشان ناول کا فروغ اور طویل نظم یا اپیک کا زوال ہے۔ امریکہ میں بھی جہاں رومانیت پو اور ہاتھورن اور مارک ٹوین کے سائے میں زندہ رہی اور بعد میں پھر یورپ پہنچی، ناول کا فروغ ہوا اور ادب کے پرتکلف خانہ باغ میں حسین وجمیل خواتین اور نوابین کے ساتھ ساتھ جاروب کش اور کان کن اور متوسط طبقے کے لوگ بھی نظر آنے لگے۔
اب تک ادب میں ان کی حیثیت زیادہ تر مزاحیہ کرداروں کی تھی، لیکن اب یہ قوت اور حرکت کا سرچشمہ بن گئے۔ فرانس میں بالزاک (BALZAC) نے ناول کو نئی وقعت بخشی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انیسویں صدی اور ناول اور بالزاک میں وہی رشتہ ہے جو سولہویں صدی اور ڈراما اور شیکسیپئر میں ہے۔ بالزاک کی واقعیت، رومانی جذباتیت اور رنگینی سے گریزاں اور زندگی کے تمام عناصر کا احاطہ کرنے پر مصر تھی۔ اس نے اپنے ناولوں میں روزمرہ سامنے آنے والے کرداروں کو روزمرہ کے واقعات کے پس منظر اور پیش منظر میں رکھ کر ان کو ان کے ماحول سے متعلق کیا۔ اس نے اپنے فوراً بعد آنے والے دولت زدہ سماج اور کردار پر اس کے اثر کی طرف سنجیدہ اور گہرے اشارے کئے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ڈکنس بالزاک سے کس حد تک واقف تھا، لیکن اپنے تمام اختلافات کے باوجود ڈکنس کی واقعیت بالزاک سے مماثل نظرآتی ہے۔
مشینی صنعت کے فروغ، شروع شروع کی ملوں اور فیکٹریوں کی بھیانک اور الم ناک حالت جن میں ۶ سال کی عمر کے بچے دن میں سولہ گھنٹے کام کرتے تھے، ایک ایسے وسیع طبقے کا وجود جس کی زمین اس سے چھن گئی تھی اور جو شہروں کی تاریک اور دود آلود فضا میں نان شبینہ کے لئے محتاج ہورہا تھا، پرانے اشرافیہ طبقے کے بجائے قیمتی لباسوں میں ملبوس لیکن اصلاً نیم مہذب اور نیم متمدن دولت پرست بزنس مین کا ظہور۔ یہ وہ حالات تھے جنہوں نے ڈکنس (DICKENS) زولا (ZOLA) اور گون کور (GONCOURT) بروران کی بے رحم مضمحل کن، بھاری اور گھٹن سے بھرپور واقعیت کو جنم دیا۔ دوسری طرف فلوبیر (FLAUBERT) اور موپاساں جیسے کلبیت زدہ ادیبوں کا شہرہ ہوا، جن کی تحریریں ادبی اسلوب کے لحاظ سے لاجواب اور بے مثال تھیں، لیکن جن کے ہزارہا صفحات میں کوئی بھلا آدمی نظر نہیں آتا۔
ڈکنس اور فرانس میں زولا اور گون کور برادران کی تحریروں میں قوفلوبیرا ور موپاساں کی سڈول اور ہیرے کی سی تراشی ہوئی نثر کا حسن بھی نہ تھا۔ ڈکنس کی عظمت اس وجہ سے ہے کہ وہ زولا کی طرح مشین یا کلرک بن کر نہیں رہ گیا۔ اس کے کردارا ور اس کی تحریریں زندگی کی حرارت سے بھرپور ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ بھی زولا وغیرہ کی طرح تاریخ کے مزبلہ پر پھینک دیا گیا ہوتا، اس کے ہم وطن ٹرولپ (TROLLOPE) مسز گاسکل (MRS GASKEL)، جارج گسنگ (GEORGE GISSING) وغیرہ وقت گزرتے ہی بھلا دیے گئے۔ صرف ہارڈی ایک حد تک زندہ رہ گیا، کیوں کہ اس کی ناولوں میں ایک سنجیدہ ا ور حکیمانہ میلان بھی ملتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی شاعری نے اسے بالکل بھلائے جانے سے محفوظ رکھا۔
واقعیت کے اس دور میں انسانی امیدوں کو ایک دھکا اور لگا۔ رومانی تنہائی جس کا احساس بلیک سے لے کر شاتو بریاں سب کو تھا، اپنے ساتھ کچھ تلافیاں بھی رکھتی تھی۔ مثلاً ورڈز ورتھ کو فطرت ہی مل گئی تھی، لیکن انیسویں صدی کے وسط میں ایک طرف تو مارکس اور انگلز نے صنعتی انقلاب کی پیدا کردہ خوش حالی کا سخت تنقیدی تجزیہ کرکے یہ ثابت کیا کہ یہ خوش حالی جھوٹی اور محدود ہے، اس طرح دولت اور ترقی کے رہے سہے فریب بھی جاتے رہے اور دوسری طرف ڈارون ہکسلے اور رسل والس نے انسان کا آخری سہارا بھی پارہ پارہ کردیا۔ اب نہ فطرت رہ گئی نہ ارحم الراحمین کاتصور۔ اب تو یہ معلوم ہوا کہ بقا کاانحصار حسن و خوبی پر نہیں، دولت پر بھی نہیں، بلکہ قوت مدافعت پر ہے۔
ورڈز ورتھ تو اپنی لیوسی کو تین سال تک دھوپ اور بارش میں بغیر کسی تحفظ کے چھوڑ سکتا تھا، لیکن ٹینی سن جیسے مولوی ٹائپ شاعر کو بھی فطرت ایک قاتلہ دکھائی دی اور اس کے دانت اور پنجے اسے انسانی خون سے رنگین نظر آئے۔ الفرڈ نوائس نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں اس شدید محرومی اور بے چارگی اور تنہائی کا ذکر کیا ہے جو اسے انیسویں صدی کے اواخر میں ڈارون کی کتاب ORIGIN DF SPECIESپڑھ کر محسوس ہوئی۔ جب اسے اچانک یہ معلوم ہوا کہ خدا حافظ و ناصر نہیں ہے بلکہ انسان ایک بے رحم اور مشینی فطرت کے رحم و کرم پر ہے تو اسے ایسا لگا کہ زمین اپنے محور سے ہٹ گئی ہے۔
انیسویں صدی کی آخری دو دہائیاں اس نفسی نفسی اور ذہنی بے اعتمادی سے عبارت ہیں۔ واقعیت ان حالات کی پروردہ تھی۔ اس نے اگر ایک طرف بے چارگی اور شکست خوردگی کے احساس کو تقویت بخشی تو دوسری طرف حقائق کی طرف توجہ دلاکر تھوڑی بہت اصلاح کا سامان بھی کیا، لیکن ادب میں منفی رد عمل زیادہ دن نہیں چلتا۔ واقعیت نقاب پوش رومانیت تھی، ڈکنس کے اصلاً رومان پرست ہونے سے کون انکار کرسکتا ہے؟ لیکن جب واقعیت کا اصرار واقعہ پر زیادہ اور ادب پر کم ہونے لگا تو اچانک اس کی کشش بھی جاتی رہی۔
انگلستان میں اس کے خلاف ایک چھوٹا سا محاذ آسکر وائلڈ اور والٹر پیٹر نے بنایا۔ دونوں اپنے خیالات میں تمثیلیت پرستوں سے کہیں کہیں بہت قریب نظر آتے ہیں۔ لیکن مجموعی حیثیت سے وائلڈ یا اس کے ساتھ کے دوسرے ادب برائے ادب والے جنہوں نے بعد میں خود کو DECADENTSکا نام دیا، کسی باقاعدہ ادبی نظریہ کے فقدان کی وجہ سے ادب کے وسیع دھارے کا ایک حصہ نہ بن سکے۔ یہی حال روزیٹی (ROSETTI) اور مورس (MORRIS) وغیرہ کاہوا۔ مورس نے شاعری اور سیاست کا امتزاج پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن آج اسے سوشلسٹ کی حیثیت سے کوئی نہیں جانتا۔
واقعیت کو شکست فرانس میں ہوئی اور امریکہ کے زیر اثر۔ اڈگر ایلن پو (EDGAR ALLAN POE) کی موت ۱۸۴۴ء میں ہوچکی تھی، اس سال فرانس میں ورلن پیدا ہوا تھا۔ ملارمے (MALLARME) اس سے دو سال پہلے اور رین بو (RIMBAUD) دس سال بعد پیدا ہوا۔ ان سب کے ا وپر بودلیر (BAUDELAIRE) کا گہرا ثر پڑا، ا ور بودلیر پو سے براہ راست متاثر ہوا۔ بودلیر کی عمر پوکی موت کے وقت ۲۱ سال کی تھی لیکن وہ پوکی تحریروں سے بعد میں متعارف ہوا۔ میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ امریکہ میں رومانیت پو اور امرسن وغیرہ کے ہاتھوں میں محفوظ رہی۔ پوکی فکری حیثیت امرسن سے کچھ کم ہی ہوگی۔ اس نے اپنے تصورات کو فلسفیانہ جھالر کے بغیر پیش کیا۔ اس کے مضمون THE PHILOSPY OF COMPOSITION میں فلسفہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
ایک مغربی نقاد کہتا ہے، یہ سوال اکثر اٹھا ہے کہ ایک ایسے امریکی مصنف نے جو یورپ میں تقریباً گم نام تھا اور یورپ کی زرق برق تہذیب کے سامنے جس کی حیثیت صرف ایک EXQUISITE PROVINICALکی تھی، بودلیر کو کیوں کر اس قدر متاثر کیا؟ اس کا جواب غالباً یہ ہے کہ پوکی بے ضابطہ زندگی اور اس کے بے ضابطہ تصورات نے اسے ایک دل کشی بخش دی تھی جو یورپ کی سوسائٹی میں مفقود تھی۔ بودلیر نے اپنی حیرت اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے، جو اسے پوکی تحریر میں پہلی بار پڑھ کر محسوس ہوئی، لکھا ہے کہ ’’اس نے ایک عجیب اضطراب اور تلاطم کا احساس کیا۔‘‘
اسے ان تحریروں میں وہ باتیں نظر آئیں جو وہ خود ’’الجھے الجھے اور مبہم طریقے‘‘ سے سوچتا رہا تھا۔ بودلیر نے ۱۸۴۷ء میں پوکو پہلی بار پڑھا اور اس کا مشہور مجموعہ کلام ’’بدی کے پھول‘‘ (LESFLEURS DU MAL) ۱۸۵۷ء میں شائع ہوا۔ پوکا کلام پڑھنے کے پہلے بودلیر ’’خالص فن‘‘ اور فن کی اخلاقی قدر و قیمت کے دو متضاد تصورات میں الجھا ہوا تھا۔ پونے پہلی بار اس کی مشکل یہ کہہ کر آسان کردی کہ ’’میں حسن کو شعر کی اصل مملکت سمجھتا ہوں۔‘‘
حسن کی تعریف اس نے یوں کی ’’جب لوگ حسن کی بات کرتے ہیں تو ان کا مقصد کسی خصوصیت (QUALITY) کی بات کرنا نہیں ہوتا، بلکہ دراصل وہ اس خالص رومانی تمجید کی بات کرتے ہیں جو حسن کا مطالعہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘ اس طرح شعر اور حسن کے دو مسائل بہ یک جنبش قلم طے ہوگئے۔ شعر فلسفہ یا اخلاق نہیں ہے، حسن ہے اور حسن کا مطلب وہ نہیں جو ڈرائڈن یا شیلی بھی سمجھے تھے۔ بلکہ ایک رومانی کیفیت۔ اس رومانی کیفیت کی تخلیق کے لئے بدی یا نیکی کا تصور بے معنی ہے۔ شعر کی اخلاقیات کے بعد پونے شعر کی ہیئت کے بارے میں کہا، ’’میں جانتاہوں کہ شعر کی اصل موسیقی کا ایک لازمی جزو غیر قطعیت ہے۔ ایک اشاراتی اور رمز سے بھر پور (SUGEESTIVE) غیر قطعیت جو اپنے ابہام کی وجہ سے ایک رومانی تاثر رکھتی ہے۔‘‘
دوسرے الفاظ میں ابہام اور اس کے ساتھ ساتھ رموزی معنویت کی وہ کیفیت جو موسیقی سے پیدا ہوتی ہے، شعر کا جز و لازم قرار پائی۔ پونے آگے چل کر ایک اور اہم بات کہی۔ اس نے کہا کہ چوں کہ شعر شدید رومانی تمجید کی فضا خلق کرتا ہے، یہ بات ظاہر ہے کہ ایسی شدید رومانی تمجید کی فضا زیادہ دیر تک نہیں قائم رہ سکتی، لہٰذا طویل نظم ایک بے معنی اور خود تضادی (SELF CONTRADICTORY) اصطلاح ہے۔ اگر نظم، نظم ہے تو طویل نہیں، اور اگر طویل ہے تونظم نہیں۔ اس کے علاوہ پونے شعری محاورہ میں غیر قطعیت اور رموزیت پیدا کرنے کے لئے مابعد الشعوری محسوسات (SUPER RATIONAL SENSATIONS) کا سہارا لیا۔
اس طرح پوکے زیر اثر بودلیر نے شعر کے ان امکانات کا احساس کیا جن کی خبر رومانی ادیبوں کو کم کم ہہی تھی۔ ایک بلیک کو چھوڑ کر شیلی یا کولرج کسی نے بھی شعر کی ان کیفیات کا احاطہ نہیں کیا تھا۔ ایک عجیب سی بات یہ ہے کہ جدیدیت کی عمارت کا اہم ترین ستون یعنی موضوع اور ہیئت کی ہم آہنگی جو کولرج نے جرمن مابعد الطبیعات کے زیر اثر تراشا تھا، شروع شروع میں تمثیلیت پرستوں کی فوج کا مستحق نہ بن سکا، لیکن جدیدیت کے باقی تمام عناصر دروں بینی، غیر اخلاقیت (AND RALITY) شعر کو موسیقی کے برابر کرنے کی کوشش، ابہام اور معنی خیز غیر قطعیت اور مابعد الشعوری محسوسات کو کاغذ پر اتارنے کا عمل، یہ سب کسی نہ کسی روپ سے رومانی تحریک سے مستعار لئے گئے تھے۔
فرق صرف اتنا تھا کہ رومانی تحریک کے بڑے بڑے علم بردار بھی شعر کی زبان کے ساتھ وہ آزادیاں نہیں برت سکے تھے جو تمثیلیت پرستوں نے روا رکھی تھی۔ اس سلسلے میں جرمن موسیقار واگنر (WAGNER) کے اثر کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ پونے شعر کی زبان کو موسیقی سے قریب تر کرنے کی کوشش کی تھی، تمثیلیت نے کوشش کی کہ شعر موسیقی بن جائے اور صرف آواز کے ذریعہ محسوسات کو جنم دے، جس طرح موسیقی کرتی ہے۔
انفرادی محسوسات پر رومانیت سے بھی زیادہ زور دیا گیا۔ بودلیر کے مجموعہ کلام ’’بدی کے پھول‘‘ کا نام ہی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حسن بدی میں بھی ہے، بلکہ بدی کے باوجود ہے، یہ تمثیلیت پرستوں کا نعرہ بن گیا۔ اس شدید انفرادی احساس کو جب موسیقی نما شعر میں پیش کیا گیا تو شعر کی حیثیت بالکل بدل گئی۔ ورلن نے اس سلسلہ میں خاص کر کوشش کی۔ اس کے خیال میں شعر کا مقصد چیزوں کا علم اشاروں کے ذریعہ مہیا کرنا تھا، چیزوں کو بیان کرنا نہیں۔
لیکن انفرادی احساس اور تجربہ کی اس مہم نے بہت سی بیماریوں کو بھی جنم دیا اور تمثیلیت پرستوں کی یہ بیماریاں آج بھی ایک حد تک ہمارے ادب میں موجود ہیں۔ لیوکس کہتا ہے کہ سنسنی خیزی، شیطان پرستی اور اذیت پرستی، رومانیت کے آخری دور (یعنی تمثیلیت پرستوں) کو یہ بیماریاں لگ گئی تھیں۔ اس کا یہ جملہ آرنلڈ کے اس قول کی یاد دلاتا ہے جہاں وہ کہتا ہے کہ شاعر کے لئے منفعت بخش ہے کہ وہ دنیا اور اشیاء کے حسن کا احاطہ کر سکے۔ الیٹ نے اس کا جواب یہ دیا تھا کہ درست ہے، لیکن اس سے زیادہ منفعت بخش یہ ہے کہ شاعر دنیا اور اشیاء کے حسن کے پار بھیانک مکروہیت (HORROR)، شان رفیع الذات (GLORY) اور زندگی سے اکتاہٹ (BOREDOM) کا بھی احاطہ کر سکے۔
تمثیلیت پرستوں میں وہ سب امراض تھے جن کا ذکر لیوکس (LUCAS) نے کیا ہے۔ لیکن ان کی حیثیت صرف سطحی تھی، کیوں کہ در اصل ان کی کوشش ایک بکھرتی ہوئی دنیا میں اظہار ذات کی کوشش کی تھی۔ کیٹس نے کہا تھا، ’’کاش کہ مجھے محسوسات کی زندگی نصیب ہوتی، بجائے فلسفیانہ افکار کی زندگی۔‘‘ اور اس نے محسوسات کے لئے SENSATIONS کا لفظ استعمال کیا تھا۔ یہی SENSATIONS بودلیر اور ورلن کی زخم خوردہ دنیا میں SENSATIONALISM تک پہنچ گئے، لیکن ان کا علاج بھی جلد ہی ہوا۔
بودلیر، ورلن اور رین بو تمثیلیت پرست تحریک کو جس جگہ چھوڑ گئے تھے، وہ ایک بند گلی کی طرح تھی۔ ایک فرانسیسی ادیب کہتا ہے، ’’میرے چاروں طرف بہت سارے لوگ ہیں، لیکن دیکھوٍٍ! میں ہمیشہ اپنے ہی سے بات کرتا رہتا ہوں۔‘‘ اپنی ذات کے اندر اس گریز نے جو رومانیت کا پروردہ تھا اور جو اب بھی ہمارے ادب میں باقی ہے۔ اگر ادب کو سڑے گلے نیم مردہ روایتی واقعیت زدہ اور نیم جان زنانہ رومانیت زدہ رجحان سے بچایا تو اسے ذات کے مرض میں مبتلا کر دیا، لیکن ملارمے اور بعد میں ولیری (VALERY) نے تمثیلیت کی تحریک کو ایک نیا موڑ دیا جو ورلن کی دین تھا۔ ملارمے نے کہا کہ ’’کسی شے کا نام لے لینا نظم کے اس لطف سے تین چوتھائی ہاتھ دھونا لینا ہے جو آہستہ آہستہ بوجھنے میں حاصل ہوتا ہے۔ کسی شے کی طرف اشارہ کرنا، اسے حافظہ و احساس کے پردے میں مبہم طریقے سے ابھارنا، یہی چیز متخیلہ کو مسحور کرتی ہے۔‘‘
یہاں تک تو ملارمے بودلیر وغیرہ کے ساتھ تھا، لیکن شعر کو موسیقی اور علم ریاضی کی طرح مجرد بنانے کی کوشش میں وہ ان لوگوں سے بھی آگے نکل گیا۔ اس کا مسلک یہ تھا کہ شعر ناقابل ترسیل تصورات کی ترسیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے بودلیر اور رین بو نے خالص رموزیت (PURE SUGGESTIVENESS) اور روح کی غیرمعمولی کیفیات کا غیر معمولی زبان میں اظہار والے نظریہ کا سہارا لیا تھا، لیکن ملارمے، رین بو وغیرہ سے اختلاف کرتا ہوا، ورلن کی طرح لیکن اس سے بھی زیادہ آگے نکل جاتا ہے۔ اڈمنڈ گاس کو وہ ایک خط میں لکھتا ہے، ’’موسیقی میں ہم معنی سے باہر نکل جاتے ہیں، لیکن آواز معنی پیدا کرتی ہے۔‘‘ 1شعر کو چاہیے کہ وہ آپ اپنی دنیا پیدا کرے اور اس کے اظہار کے لئے اپنے راستے تلاش کرے۔ گاس کو اسی خط میں لکھتا ہے کہ صرف شاعر کو بولنے کا حق ہے، کیوں کہ شاعر ہی عارف ذات و صفات ہوتا ہے۔ میں موسیقی خلق کرتا ہوں اور شعر و موسیقی کا ایک نقطۂ ارتکاز پیدا کرتا ہوں۔
ظاہر ہے کہ اگر ملارمے کا یہ نظریہ پچھلے تمثیلیت پرستوں کی طرح ذاتی عرفان کی گھٹن کا شکار نہیں ہے تو ناقابل عمل بھی ہے۔ ملارمے خود کہتا ہے کہ وہ ایک شکست خوردہ شاعر ہے۔ 2والیری ملارمے کے بارے میں لکھتا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو فرانس کا سب سے زیادہ مقبول شاعر ہو سکتا تھا، لیکن اس نے اپنے لئے ایک دوسری راہ تلاش کی، کیوں کہ اس کی شاعرانہ طبیعت اپنے ایمان دارانہ اظہار کی متقاضی تھی۔ ملارمے کی نظر میں تمثیلیت ’’ادب کو رومانی سطح پر لانے کی کوشش تھی اور اسے لفاظی، منطق اور خارجیت کی قدیم زنجیروں سے آزاد کرانے کی کوشش تھی۔ روداد اور تفصیل کو اس لئے جلاوطن کر دیا گیا کہ اشیاء کو حافظہ اور احساس کے پردے پر جادوگری کی طرح مبہم طریقے سے ابھارا جا سکے۔‘‘
لیکن اس شدید ذاتی اور مجرد اظہار کا نتیجہ یہ ہوا کہ فن تقریباً صرف فن کار کی میراث بن کر رہ گیا۔ اس طرح کے طرز اظہار کا اپنی ہی روشنی طبع کا شکار ہو جانا لازمی تھا۔ چناں چہ خالص تمثیلیت ملارمے کے بعد والیری پر ختم ہو گئی، لیکن والیری نے خود ملارمے کے نظریات پر کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا۔ تمثیلیت اپنی ہی آگ میں جل مری لیکن وہ جدید ادب کو دو بردان دے گئی۔ یہ دو بردان خود اسے رومانیت سے ملے تھے، جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔
ایک تو یہ کہ شعر بلا واسطہ اور ذاتی طرز اظہار کا نام ہے اور دوسرا بہت زیادہ اہم، یہ کہ نظم اپنی جگہ پر ایک زندہ اور مکمل حیثیت رکھتی ہے، اپنی آپ زندگی رکھتی ہے، بلیک، امرسن اور یے ٹس کے درخت کی طرح۔ اس تصور کو آرتھر سائمنز نے انگریزی ادب میں معروف کیا، لیکن اس وقت یہی سمجھا گیا کہ یہ خیالات فرانس سے آئے ہیں۔ آرتھر سائمنز نے تمثیلیت پر جو کتاب لکھی وہ ملارمے کے تصورات کی توضیح اور CHAMPIONING تھی۔ اس کتاب نے اوائل بیسویں صدی کے ادب پر براہ راست اثر ڈالا اور یے ٹس کے تصورات شعری کی تخلیق و افزائش میں بڑا کام کیا۔ چناں چہ ہم سائمنز کو ملارمے کی نظموں کے بارے میں کہتے ہوئے دیکھتے ہیں، ’’ہر لفظ ایک ہیرا ہے۔ ہر پیکر ایک تمثیل ہے، اور ساری نظم دکھائی دینے والی موسیقی ہے۔‘‘
سائمنز نے آخری دور کی نظموں کے غیر ترسیلی عنصر کی طرف بھی اشارہ کیا، لیکن یہ اصرار کیا کہ شعر ایک زندہ اور جان دار حقیقت ہے، اس خیال کو یے ٹس نے یوں ادا کیا کہ ’’شعر میں ایک گہری معنویت اور ایک تناؤ ہونا چاہیے۔ جیسا کہ کسی حسین عورت یا پھول کے جسم میں ہوتا ہے۔ سائمنز نے تمثیلی شاعری کے جس خطرہ کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اپنی انتہا پر وہ شاعری نہ رہ کر ایک مجرد تصور رہ جائےگی، والیری کی شاعری اس کی اچھی مثال ہے۔ والیری کہتا تھا کہ ’’میں شاعری کی ذرہ برابر پروا نہیں کرتا۔‘‘
شاعری تو محض اتفاقیہ تھی، اصل چیز تھی خالص تخلیق کی ایک مشق۔ ملارمے بھی خالص فن کی بات کرتا تھا اور بودلیر بھی۔ لیکن والیری کے یہاں نظم حقیقت سے الگ ہوکر عدم کا علم بن گئی۔ یے ٹس بھی کہتا تھا کہ علم موت کی ملکیت ہے اور زندگی سے میل نہیں کھاتا۔ رموزیت کا نظریہ والیری کے یہاں ناقص رمز ہوکر رہ گیا، لیکن یہ خالص رمز بھی اپنی مرکزی قوت کی وجہ سے شاعری کی ایک اعلیٰ ترین اور انوکھی مثال ٹھہرا۔
تمثیلیت کی تحریک انگلستان میں آتے آتے اپنی عمر طبعی کو پہنچ رہی تھی۔ ملارمے کا انتقال ۱۸۹۸ء میں ہوا۔ اس وقت یے ٹس کی شاعرانہ قوتیں بیدار ہو رہی تھیں اور وہ سائمنز کے ذریعہ اور براہ راست بھی تمثیلیت سے متاثر ہو رہا تھا لیکن اب تمثیلیت بجائے ایک تحریک کے ایک ذریعہ (METNOD) اور اصول بن کر رہ گئی۔ والیری کے بعد آنے والے تمثیل پرست شعرا یا تو بالکل بے راہ ہو گئے تھے مثلاً کوربیر (CORBIRE) اور لافورگ (LAFORGUE) یا اپولینر (APPOLINAIR) کی طرح دل چسپ، انوکھے لیکن کم قیمت تجربے کرنے لگے۔ لیکن تمثیلیت اپنے آثار ہر طرف چھوڑ گئی۔ اب شعر و ادب کو تمثیلی بیان سمجھ کر پڑھا اور شیکسپیئر، ڈینٹی (DANTE) اور دوسرے قدیم ادیبوں میں زیادہ معنی خیز مطالب نظر آنے لگے۔ تمثیلیت نے تنقید کا رخ بدل دیا اور فرانس، جرمنی، روس، انگلستان کے ادیب کا اصطلاحی حوالہ (TERM OF REFRENCE) بن گئی۔
مغربی ادیبوں نے تمثیل کو ایک باقاعدہ اور منظور شدہ ذریعہ (MEDIUM) مان کر اپنے ادب میں تمثیلی عناصر داخل کئے۔ تمثیل ادب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے درآئی۔ ملارمے کے بعد کا مغربی ادب اپنی پچھلی فضا سے کٹ گیا۔ ناروے میں البسن، سوئڈن میں اسٹرنڈبرگ، فرانس میں میترلنک، روس میں الگزنڈر بلاک، جرمنی میں رلکے اور اسٹیفان جارج بعد میں ٹامس مان، ہر بڑے ادیب نے تمثیلی اظہار کو کسی نہ کسی حد تک اپنایا۔ مغربی ادب کا ڈھانچہ اب متعین ہو گیا تھا، اس میں تھوڑی بہت تبدیلیاں ممکن تھیں اور ہوئیں، تمثیلیت کی اوائلی شوریدہ سری اور گھٹن سے انکار وانحراف کیا گیا، لیکن تمثیلی طور (THE SYMBDLIC MANNER) اب مغرب کا فن ٹھہرا۔
اس دوران میں مغربی تنقید میں ایک اہم تغیر رونما ہوا۔ اس کا کوئی براہ راست تعلق تمثیلیت سے نہیں، لیکن چوں کہ اس تنقید کے رد عمل کے طور پر اور ایک طرح سے اس کے بطن سے ایک اور تنقیدی اصول چالیس برس بعد جنم لینے والا تھا، اس لئے اس کا بر سبیل تذکرہ لازمی ہے۔ تنقید اب تک فیصلہ دینے کا عمل اور حسن و خوبی کی وضاحت کا عمل سمجھی گئی تھی۔ انیسویں صدی کے اوآخر میں تن (TAINE) اور پھر سینت بو (ST. BEUVE) نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ادب کو سمجھنے کے لئے ادیب کو سمجھنا ضروری ہے اور ادیب کو سمجھنے کے لئے اس کے ماحول اور آبا و اجداد اور نسلی اثرات سے واقفیت ضروری ہے۔ سینت بو نے تن سے اختلاف نہیں کیا لیکن یہ کہا کہ کسی ادیب کو سمجھنے کے لئے اس کے پورے کلام کا بہ یک وقت مطالعہ اور اس پر بہ یک مادی نظر ڈالنا ضروری ہے۔ تن کے خیالات پر کار لائل کا اثر شاید کچھ پڑا ہو، لیکن خود کا رلائل کے تصورات کا تنقید پر گوئی گہرا اثر نظر نہیں آتا۔
کارلائل نے کہا تھا کہ ’’کسی قوم کے شعر کی تاریخ در اصل اس کی سیاسی، علمی اور مذہبی تاریخ ہے۔‘‘ تن نے ۱۸۶۴ء میں انگریزی ادب کی تاریخ لکھی اور اس میں ادیب کو سمجھنے کے لئے تین اصول وضع کئے، نسل (RACE) ماحول (MILIE) اور دور (MOMENT)۔ سنت بو کا کہنا تھا کہ ’’ادب، یا ادبی پیداوار (PRODUCT) میری نظر میں انسان کی پوری تنظیم سے الگ نہیں کی جا سکتی۔ میں فن پارے کا لطف اٹھا سکتا ہوں، لیکن فن کار سے معاملہ کئے بغیر فن پارہ پر فیصلہ دینا مجھے مشکل معلوم ہوتا ہے۔‘‘
ان دو نقادوں نے اس طرح جدید تنقید کے ایک بڑے دور کا آغاز کیا۔ او ل تو یہ کہ انہوں نے ادب کے تاریخی مطالعہ اور اس طرح مادیت پر زور دیا۔ دوئم یہ کہ انہوں نے ادب کو سماج کی پیداوار، سماج کا جزلاینفک اور سماج کا اظہار مانا۔ سوئم یہ کہ انہوں نے بیوہاریت (BEHAVIOURISM) کے اصول کی طرف اشارہ کیا۔ جس کی رو سے ہر شخص اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔ اور چہارم یہ کہ انہوں نے تنقید کا عمل صرف فیصلہ دینا نہیں بلکہ سمجھانا بھی متعین کیا اور یہ بھی کہا کہ کسی فنکار کو سمجھنے کے لئے اس کے پورے فن کا مطالعہ ضروری ہے۔
یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ جدید تنقید کے بہت سے اسکول (یہاں تک کہ مارکسی اسکول بھی) تن اور سنت بو کے مرہون منت ہیں اور ادیب کی سماجی ذمہ داری (SOCIAL RESPONSIBILITY) کے فلسفہ کی جڑیں بھی یہیں ملتی ہیں۔ ان دونوں کا ایک اہم کارنامہ یہ تھا کہ اب تک تنقید ادب کے مسائل سلجھانے میں مشغول رہتی تھی، لیکن خود تنقید کیا ہے، اس پر لوگوں کی نظر کم گئی تھی، تن اور سنت بو نے یہ کمی پوری کی۔
میں تن اور سنت بو کے نکالے ہوئے نتائج سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتا۔ شاید کوئی بھی نہیں کر سکتا لیکن جدید تنقید کا ایک بڑا حصہ ان کے بغیر وجود میں نہ آتا اور خود وہ تنقید وجود میں نہ آتی جس کی بنیاد آئی۔ اے۔ رچرڈس نے انگلستان میں رکھی اور جو بعد میں امریکہ میں نئی تنقید (THE NEW CRITICISM) کے نام سے جانی گئی۔
دوسری جنگ عظیم کے آتے آتے تمثیلیت کے جانشینوں کی ادبی حیثیت مسلم ہو چکی تھی اور ادب میں وہ تمام عناصر پختہ طور پر داخل ہو چکے تھے جن کا ذکر ہم اوپر کرتے رہے ہیں اور جن کو ہندوستان میں جدیدیت کے غلط نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلی جنگ عظیم نے بڑا اہم رول دا کیا۔ کیوں کہ جارجین عہد کے افیون خور قسم کے ادیب جو سوئن برن کے رد عمل میں لیکن در حقیقت سوئن برن ہی کی طرح سطحی رومانیت کے محاذ پر جدید عناصر کے خلاف ایک آخری لڑائی لڑ رہے تھے، پہلی جنگ عظیم کی بھیانک آگ میں اپنی موت آپ مر گئے۔ اس سلسلے میں الیٹ نے بھی بڑا کام کیا۔ اوپر جو کچھ ہم کہہ چکے ہیں اس کو زیر نظر رکھا جائے تو الیٹ کے تنقیدی اور شعری نظریات پر بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ الیٹ نے وہی باتیں کہیں جو تمثیلیت پرست کہہ چکے تھے، اس نے صرف انہیں ۱۹۲۰ء کی بدلی ہوئی زبان میں کہا اور انگریزی ادب کے حوالے سے کہا۔
اس نے انگریزی ادب والوں کو یاد دلایا کہ جو خصوصیات تمثیلیت پرستوں کو ممتاز کرتی ہیں وہ تو در اصل انگریزی شعرا سے مستعار ہیں۔ اس طرح اس نے سولہویں اور سترہویں صدی کے بہت سے بھلائے ہوئے شعرا کو پھر آباد (REHABILITATE) کیا۔ مغربی ادب کے پس منظر میں الیٹ کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ اس نے وضاحت سے اس بات کا اعلان کر دیا کہ شعر کی زبان نئے مطالب کی متحمل اسی وقت ہوگی جب اسے پوری طرح بدلا جائے اور ہمارے عہد میں شاعری صرف چند خوش قسمت لوگوں کے ہی حصہ میں آ سکتی ہے اور شعر اب عوامی فن نہیں رہ گیا۔
الیٹ نے یوروپی ادب پر کوئی گہرا ثر نہیں ڈالا۔ لیکن امریکہ کا نیا ادب بہت حد تک الیٹ ہی کا مرہون منت ہے۔ اس کا طور طریقہ (MANNER) امریکہ میں پوری طرح اپنایا گیا۔ یہاں تک کہ امریکہ کی نئی تنقید (کچھ لوگوں کا خیال ہے) صرف الیٹ کو سمجھانے اور اس کے شعر کو JUSTIFY کرنے کے لئے عمل میں آئی۔ الیٹ نے ایک اور اہم کام کیا۔ سترہویں صدی کی انگریزی شاعری کو پھر سے زندہ کرکے اس نے شعر میں غیر گمبھیریت (ANTISOLEMNITY) کا عنصر داخل کیا۔ یہ غیر گمبھیریت یا سنجیدہ اور غیرسنجیدہ کاادب میں بہ یک وقت اور بے روک ٹوک استعمال بھی جدید طور کا ایک حصہ بن گئی۔
اب نئے ادب کے عناصر متعین ہو چکے تھے۔ صرف دو عناصر کی کمی تھی۔ ایک تو مکمل اور دو آدھے آدھے جن کو ملاکر ایک کہا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے میں آدھے عناصر کو لوں گا۔ میں نے پہلی جنگ عظیم کا ذکر بالکل برسبیل تذکرہ کیا ہے کیوں کہ عالمی ادب پر اس جنگ کا وہ اثر نہیں پڑا جو عام حالات میں پڑتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صنعتی انقلاب کا عمل (PROCESS) انسانوں کو بہت پہلے سے عالمی جنگوں کی تباہ کاری اور انتشار کے لئے آمادہ کر چکا تھا۔ پہلی جنگ کے بعد بےچارگی اور بےمائگی کا احساس شدید ہو گیا۔ پیدا نہیں ہوا، کیوں کہ وہ تو پہلے سے ہی موجود تھا۔ دوسری جنگ نے مغربی ادب پر ایک اہم اثر ضرور ڈالا، لیکن اس کا ذکر میں آگے کروں گا۔ اس وقت میں پہلی جنگ کے بعد فرانس میں پیدا ہونے والی اس تحریک کا ذکر کروں گا جو مارکسی نظریات کے زیر اثر وجود میں آئی تھی۔
مارکسی نظریات کا مغربی ادب پر معمولی ساہی اثر پڑا۔ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک نے جس طرح مارکسیت کو کھلے بازوؤں سے قبول کیا، اس کی مثال مغرب میں نہیں ملتی۔ لیکن فرانس کے ادب پر یقناً ایک ہلکا پرتو مارکس کا پڑا اور اس کے نتیجہ میں ادیب کی سماجی ذمہ داری والے نظریہ نے جنم لیا۔ ادیب کو اصلاح معاشرہ کا فرض سونپ دیا گیا۔ یہ نہیں کہ اس سے پہلے ادیب اس فرض سے سبک دوش تھا لیکن اب اصلاح معاشرہ کے ساتھ IDEALOGY کے ساتھ مستقل وابستگی بھی ضروری تھی۔
اس تحریک نے LA LITTERATURE ENGAGE (وابستہ ادب) کا نعرہ بلند کیا، لیکن سوائے اس کے کہ چند بڑے ادیب مثلاً یورپ میں برنارڈشا، بریخت (BRECHT)، سارتر اور اراگاں (ARAGON) اور جنوبی امریکہ میں پیبلو نردا (PABLO NERUDA) اس سے منسلک رہے، اس کی کوئی اہمیت پورے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے نظر نہیں آتی۔ وابستہ ادب کا تصور دوسری جنگ عظیم اور اس کے بعد بیسویں کانگریس کے ساتھ ساتھ مغربی ادب سے پوری طرح ختم ہو گیا، لیکن مارکس کے فلسفہ کا وسیع تر اثر ادب کی عمومی صورت حال پر ضرور پڑا۔
یہ تو آدھا عنصر تھا۔ دوسرا آدھا عنصر جس نے جدیدیت کی تعمیر میں خاصا حصہ لیا ہے وجودیت کا فلسفہ ہے۔ وجودیت کے فلسفہ کی ایک انوکھی کیفیت یہ ہے کہ یہ بہ یک وقت مذہبیت اور لامذہبیت دونوں کو قبول کرتا ہے۔ اگر کیئر گار KIER CAARDE کے یہاں وجودیت اصلاً عیسائی فلسفہ ہے اور انسان کو ایک بنیادی شکل یعنی جنت اور جہنم (یہ یاوہ EITHER, OR) کی کش مکش میں ڈالتا ہے تو دوسروں کے یہاں اور خاص کر ادب میں، وجودیت ایک تلخ تجربہ کو راہ دیتی ہے جہاں کسی چیز کی کوئی حقیقت نہیں سوائے اس کے کہ وہ بے معنی ہے۔ وجودیت کا ایک نظریہ (جسے سارتر نے عام کیا) کہ مکمل آزادی اور رہ بری کرنے والے قوانین کی غیرموجودگی مکمل انفرادی ذمہ داری کو راہ دیتی ہے۔
آگے چل کر یہ بھی بتاتا ہے کہ مکمل انفرادی ذمہ داری کا نتیجہ یا تو راہ عمل اختیار کرنے کی ذمہ داری کا بوجھ بن کر انسان کی روح پر سوار ہو جاتی ہے یا کسی غلط انتخاب کو راہ دیتی ہے جو ذمہ داری اختیار کرنے سے انکار کا بھی دوسرا نام ہے۔ سارتر کے یہاں کیرگار کا EIHER OR فلسفہ ایک خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے، کیوں کہ کیر گار اگر جبر کا قائل نہیں تو کم سے کم جنت کو تسلیم کرتا ہے، اگرچہ جہنم بھی بس نکڑ ہی پر ہے، لیکن سارتر کی وجودیت دونوں صورتوں میں انسانی زندگی پر ذمہ داری یا غیر ذمہ داری کا بھاری جوا رکھ دیتی ہے۔ کیرگار کا اثر سڈنڈ برگ کے ڈراموں میں نظر آتا ہے، لیکن بیسویں صدی کے فرانسیسی ا دیبوں پر سارتر کا اثر گہرا اور واضح ہے۔
سارتر کی وجہ سے نہ صرف فرانسیسی ادب میں فلسفیانہ رجحان اور انسان کے مسائل پر انسانی نقطۂ نظر سے سوچنے کی تحریک مستحکم ہوئی بلکہ عام مغربی ادب میں بھی ایک فکری رنگ جھلکنے لگا جو پہلے نسبتاً کم تھا۔ اس سلسلے میں ’’بے معنویت کے ڈرامے‘‘ یعنی THEATRE OF THE ABSURD کا ذکر کرنا بے محل نہ ہوگا۔ بے معنویت کے ڈرامے کا آغاز فرانسیسی ادیب کا میو سے ہوتا ہے۔ کامیو کے نظریے کے مطابق زندگی کی بے معنویت ان چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے جن کی توجیہہ و تشریح انسانی عقل و دانش کی اصطلاح میں ممکن نہیں، وہ تجربات جو عقلی توجیہہ قبول نہیں کرتے اور جو ہماری منصف مزاجی کے احساس یا مسرت کی خواہش یا زندگی میں کوئی منصوبہ اور تنظیم ڈھونڈھنے کی خواہش کی نفی کرتے ہیں، کامیو کی زبان میں بے معنی (ABSURD) کہلائے۔
کامیو خود بے معنویت کے اس نظریہ سے آگے بڑھ گیا لیکن اس کی فکر پر سارتر کا اثر نمایاں ہے، کیوں کہ سارتر کے فلسفہ کے مطابق انسان یا تو فیصلہ کرنے کی ذمہ داری سے چور چور رہتا ہے، یا غلط فیصلہ کر جاتا ہے۔ یہ دونوں صورتیں زندگی میں تنظیم کی نفی کرتی ہیں۔ اس طرح وجودیت اور بے معنویت دو مختلف نظریات سارتر، سمونی دابووار (SIMONE DE BEAUVOIR) مارسل (MARCEL)، کامیو، آؤنسکو (IONESCO) اور دوسرے ادیبوں کو ایک رشتے میں پرو دیتے ہیں۔
اس بات کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ وابستہ ادب کے ماننے والوں، وجودیت پرستوں اور بے معنویت کے آئینہ داروں میں تمثیلیت پرستی کی قدر مشترک ہے، لیکن یہ بات اطالوی ادب پور پری طرح صادق نہیں آتی۔ اطالوی ادب جو نشاۃ ثانیہ کے دور اولیں میں جاگ کر پھر صدیوں کے لئے سو گیا تھا، بیسویں صدی کے اوائل میں پھر جاگ اٹھا۔ انیسویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے شروع میں کروچے نے اظہاریت کا جو فلسفہ پیش کیا تھا، وہ رومانی تمثیلی تحریک سے ایک حد تک متاثر تھا۔ لیکن اطالوی ادب پر کروچے کی جمالیات کا زیادہ اثر نہیں ملتا۔ عہد جدید میں اطالوی ادب کا احیاء وابستہ ادب کی تحریک کے ذریعہ ہوا۔ لیکن یہ وابستہ ادب بھی اگنازیو سائلون جیسے ادیبوں کے ہاتھ پروان چڑھا، جو آرتھر کوسلر وغیرہ کی طرح بعد میں مارکسیت سے تائب ہو گئے۔
یوگو بیتی کی ڈرامہ نگاری عوامی اور قومی سطح پر رہی اور لوئگی پراندیلو (LUIGI PIRANDELLO) فلسفیانہ انسان دوستی اور مذہبیت کی طرف مائل رہا۔ پراندیلو کا ادب اطالوی ادب کی تاریخ میں ایک معجزہ ہے، کیوں کہ اس کی اعلیٰ المیہ انسان دوستی اور حس مزاح کا امتزج اس ملک کے ادب میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔
اگر ہم اطالوی ادب کو انیسویں صدی کے ردسی ادب کی طرح یورپ کے ادبی منظر سے پوری طرح متصل اور منسلک نہیں پاتے تو اسپینی ادب کو اس کے برعکس تمثیلیت کی تحریک سے پوری طرح متاثر پاتے ہیں۔ لورکا کی ڈراما نگاری رومانی تحریک کی بہترین روایتوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ لورکا کا شعری احساس اوائلی تمثیلیت کی طرح شدت اور مبہم تاریکی سے گھرا ہوا ہے۔ اونا مانو کے یہاں یہ احساس فکر کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور یہ فکر جدید بے یقینی اور بےچارگی کی آئینہ دار ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ذہنی بےچارگی اور ناامیدی اور کسی ٹھوس ایقانی بنیاد کا فقدان شاید کسی اخلاقیات کا نقطۂ آغاز بن جائے۔‘‘
لورکا کے ڈرامے اور شاعری پر فروئڈ کا اثر بہت گہرا پڑا۔ اگرچہ اس نظریہ سے اختلاف کیا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ لورکا نے فروئڈ کے شعور اور لاشعور کے نظریات سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ لورکا کا تذکرہ مجھے فروئڈ تک لاتا ہے، جس کو میں جدید ادب کے نئے عناصر میں سالم عنصر کہتا ہوں، وابستہ ادب اور وجودیت کی حیثیت فروئڈ کے اثر کے سامنے وہی حیثیت رکھتی ہے جو نیوٹن کے سامنے رابرٹ بوائل کی تھی۔ دوسرے الفاظ میں جس طرح نیوٹن کی طبعیات نے آئندہ ڈھائی سو برس کی طبیعیات اور ریاضی کا چہرہ بدل ڈالا، اسی طرح فروئڈ کے نظریات نے جدید ادب کے موضوعات اور ہیئت کو ایک نئے سمت بخشی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ جب فروئڈ کے شعور اور لاشعور اور تخلیقی عمل کے نظریات کی روشنی میں مصوری میں نئے نئے تجربے ہونے لگے تو فروئڈ نے انہیں کراہیت کی نظر سے دیکھا اور کہا کہ یہ فن اس کے جمالیاتی احساس کو مجروح کرتا ہے، لیکن بھلے یا برے کے لئے فروئڈ کے تصورات نے ادب کو جنس کا موضوع، ناول کو شعوری بہاؤ کی تکنیک اور شعر کو لاشعور سے شعور کی طرف پرواز کرتے ہوئے تصورات کی آئینہ داری کا ڈھب عطا کیا۔
فروئڈ کے ان نظریات کا صحیح اور عہد آفریں استعمال جیمز جوائس کے کے ناولوں میں ملتا ہے، لیکن جس طرح ملارمے اور والیری نے تمثیلیت پرست شعر کی حدوں کو ڈھکیل کر ایک تقریباً ناممکن افق تک پہنچا دیا، ویسے ہی جوائس نے نفسیاتی ناول کو ایک ناقابل عمل و نقل کارنامۂ قوت (TOUR DE FORCE) بنا دیا۔ جوائس بہر حال ایک انتہائی مثال ہے لیکن عام طور پر ادب لاشعوری اظہار کی منزل تک آہی گیا۔ جوائس کے زیر اثر امریکہ میں اہم ناول نگاروں کا ایک گروہ پیدا ہوا جن میں ہمنگ دے، فاکز اور سٹائن بک کے نام خاص ہیں۔
لاشعوری اظہار سے میری مراد وہ شاعری ہے جو شعوری احساس و تجربہ سے زیادہ ان تاثرات کو اظہار کی گرفت میں لینے کی کوشش کرے جو فروئڈ کی زبان میں لاشعور سے تحت الشعور تک پھیلے رہتے ہیں اور شعور کی سطح پر پہنچنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں، لیکن سپرایغو (SUPEREGO) کی قوت انہیں دبائے رہتی ہے۔ کبھی کبھی وہ نکل کر باہر بھی آ جاتے ہیں، لیکن اس وقت ان کی شکل دوسری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی شاعری مسلسل یا مستقل نہیں کی جا سکتی۔ لیکن جدید ترین ادب کا خاصا حصہ جو بہ ظاہر بے معنی منتشر اور جنبش زدہ نظر آتا ہے، در اصل انہیں تصورات کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مغربی ادب کی متعدد چھوٹی موٹی تحریکیں مثلاً تاثریت (IMPRESSIONIM) (اپنے بعض اظہارات میں) سرریلزم (SURREALISM) دادا ازم (DADAISM) فروئڈ ی تعلیمات کے زیر اثر وجود میں آئیں۔ ان سب کی کچھ کچھ نشانیاں ادب میں باقی رہ گئیں لیکن ان کی اہمیت جدید ادب کے دھارے میں بہت زیادہ نہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران میں اور اس کے فوراً بعد مغربی ذہن ایک ایسے تلاطم اور خلفشار سے دوچار ہوا جس نے صنعتی انقلاب کے پیدا کردہ ہوش مندی کے انقطاع کو بھی گرد کر دیا۔ کامیو نے ایک جگہ لکھا ہے، ’’کیا تمہیں احساس ہے کہ ۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک یورپ کے سات کروڑ باشندے مرد، عورتیں اور بچے اپنی جڑوں سے اکھاڑے گئے، ملک بدر کئے گئے اور موت کے گھاٹ اتارے گئے؟‘‘ میرا خیال ہے کہ کامیو کا اندازہ اصل سے بہت کم ہے، لیکن صرف ان گنت افراد کی اموات اپنی جگہ پر کوئی بڑا حادثہ نہیں۔
بڑا حادثہ تو یہ تھا کہ اب انسان کی تخریبی قوتیں بےحد و بے حساب صورت اختیار کر چکی تھیں اور خدا بادشاہ کی جان کی قربانی بھی جسے الیٹ نے WASTE LAND میں خشک سال زمین کو پھر سے ہری بھری کرنے کے لئے استعمال کرنے کا اشارہ کیا تھا، اب بے حقیقت ہو گئی تھی، نے کہیں لکھاہے کہ والیٹر کسی قدیم یادگار کو ضرور حقارت سے دیکھتا لیکن ووٹ کو نہیں۔ آسکروائلڈ کے عہد تک آتے آتے قدیم یادگار اور ووٹ دونوں بالکل حقیر اور بے وقعت ہو گئے تھے۔ چڈئن دوسری جنگ عظیم کے ہولناک مناظر دیکھنے کے لئے زندہ نہ رہا تھا، ورنہ اسے آسکر وائلڈ کے عہد کی کلبیت ہمارے عہد کی فریب شکستگی اور ناامیدی کے سامنے بھیر ویں کی طرح میٹھی اور قابل قبول معلوم ہوتی۔
یاس اور رائیگانیت کے اس شدید احساس نے اگر ایک طرف کامیو جیسے چند ادیبوں کو بےمعنویت کی راہ سے انسان دوستی کا عمل سکھایا تو ساتھ ہی ساتھ اس عہد کے ادب میں وہ آخری اہم عنصر داخل کیا جسے میں الم پذیری کا نام دیتا ہوں۔ شعر کی ہیئت اور زبان میں تبدیلی کا عمل جو انیسویں صدی میں شروع ہوا تھا، اب اپنی آخری منزل پر آچکا تھا، جدید ادب کے حدود متعین ہو چکے تھے، یہ الم پذیری بھی کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ لیکن زمانے کی ناموافقت (TIME IS OUT OF JOINT) کا احساس اب پہلے سے زیادہ آفاقی ہو گیا تھا۔ انگلستان اور فرانس میں شعر کی زبان کو سادہ اور بلا واسطہ بنانے کی کچھ کوشش ہوئیں اور کچھ روایتی ہیئتیں بھی پھر سے اختیار کی گئیں۔
اس کی سب سے اچھی مثال فلپ لارکن کے کلام میں ملتی ہے۔ لیکن پھر بھی ادب کا مزاج اس حد تک بدل چکا ہے کہ فلپ لارکن کی شاعری کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں شیلی یا ورڈز ورتھ نے ختم کیا تھا۔ بیسویں کانگریس کے بعد کا روسی ادب بھی تمثیلیت کے ابہام پرست اصول کا بہت زیادہ پابند نہیں نظر آتا، لیکن اسی ادب کا ارتقا انیسویں صدی سے لے کر اب تک آزاد خطوط پر ہوا اور مغربی ادب کے ارتقاء کی تاریخ اس کے بغیر بھی مکمل کہی جا سکتی ہے۔
لارکن اور اس کے ہم مشرب روسی شعرا کے باوجود جدید لہجہ میں بے زاری، تلخی اور الم ناک تفکر کے ساتھ شعر کو بالواسطہ بیان کے قریب تر لانے کی کوشش سے آج کا بھی مغربی ادب عبارت ہے۔ اس مزاج کو مستحکم بنانے میں آئی۔ اے۔ رچرڈس اس کے شاگرد ولیم ایمپسن اور امریکہ کے ’’نئے نقادوں‘‘ کا بھی ہاتھ ہے۔ آئی۔ اے۔ رچرڈس نے تن اور سنت بو کے نظریہ کو رد کرتے ہوئے ادب کو بالذات سمجھنے اور سمجھانے کی تلقین کی۔ اس نے فن پارے کے اندر سے ابھرنے والے معنی پرزور دیا۔ ایمپسن نے الفاظ اور اس کے باہم عمل اور تناؤ کو شعر کی اصل مانتے ہوئے لفظی تجزیہ کے اصول وضع کئے جن کی رو سے شعر کی مشکل ترین معنی کی تلاش تنقید کا عمل قرار پائی۔
امریکہ میں یہ نظریہ ’’ہیئتی تنقید‘‘ (FORMALISTIC CRITICISM) کے نام سے پکارا گیا اور اس کے علم برداروں نے خود کو ’’نئے نقاد‘‘ (NEW CRITICS) کہا۔ یہ نئے نقاد جن کا سربراہ جان کر ورین سم تھا، اتنے نئے نہیں تھے جتنا ان کے نام سے ظاہر ہوتا ہے۔ خود رین سم میں ایک اعلیٰ درجے کے شاعر، معلم اور مفکر کی خصوصیات یک جا ہیں۔ یہ خصوصیت دوسرے نئے نقادوں مثلاً رابرٹ پن وارن اور آر۔ پی بلیک مر میں بھی پائی جاتی ہیں۔ نئے نقاد شعر کی تمثیلی حیثیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور کولرج، امرسن اور بلیک کی طرح فن پارے کی ہیئت کو موضوع سے الگ کرکے نہیں دیکھتے۔ وہ پورے فن پارے کو ایک مسلم حقیقت سمجھ کر اس کی لفظی تنظیم کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس طرح اس کے بنیادی ڈھانچے (STRUCTURE) یا فارم یعنی ہیئت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جس طرح جدید مغربی تنقید رومانی تحریک کی دین ہے، اسی طرح جدید مغربی ادب بھی رومانی الاصل ہے۔ ایک طرح سے آج کے ادب کو نورومانی کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ اس کی دروں بینی، انفرادی اور ذاتی اظہار پراصرار، فن پارے کی زبان میں بلاواسطگی اور نیم روشن ابلاغ کا اقرار، اظہار ذات میں الم ناک شدت، اور ہیئت و موضوع کی وحدت کا تصور، رومانی احیا کا ورثہ ہیں، بیسویں صدی نے اس کی بھیانک اور درد انگیز تصویر میں جنس، لاشعور اور یاسیت کے سرخ و سیاہ رنگ بھرے ہیں۔ کیا وہ دن بھی آئےگا جب یہ تصویر قدیم یونانی ڈرامے کی طرح سڈول، سجل، تھوڑی بہت یاس آمیز لیکن تمجیدانگیز شکل اختیار کر لےگی؟ اس سوال کے جواب میں ہر برٹ ریڈ کے الفاظ میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ ایسا شاید اسی وقت ممکن ہے جب دنیا اپنی اوائلی سادگی کی طرف لوٹ جائے اور ٹی۔ ایس۔ الیٹ کا بیان کردہ ہوش مندی کا انقطاع انسلاک میں بدل جائے۔
حاشیے
(۱) اس حوالے کے لئے میں اپنے استاد پروفیسر ایس۔ سی۔ دیب کا ممنون ہوں۔
(۲) اس حوالے کے لئے بھی میں پروفیسر دیب کا ممنون ہوں۔
شمس الرحمن فاروقی