قہقہوں کے سائے میں گمشدہ پیاس کا سفر (حصہ دوئم)
پلوشہ کی ایران آمد
شیراز کی قدیم گلیوں میں داخل ہوتے ہوئے پلوشہ نے اپنی بائیک ایک قدیمی بازار کے قریب روکی۔ وہاں ایک نوجوان، عارف، اپنی بائیک دھو رہا تھا۔ لمبے بال، مضبوط جسم، اور چمکتی ہوئی مسکراہٹ۔
"یہ بائیک کہاں سے لائی ہو؟” عارف نے قریب آ کر پوچھا۔
"افغانستان سے۔ لیکن مجھے ایک شرط پر رات گزارنی ہے،” پلوشہ نے صاف کہا۔
"کیا شرط؟”
"مجھے فری میں روم چاہیے اور تمہیں فری میں روم میٹ۔ لیکن یاد رکھو، بس ایک رات کے لیے۔ دور رہنا بہتر ہوگا کیونکہ مجھے صبح نکلنا ہے۔”
عارف مسکراتے ہوئے بولا، "یہ سودا منظور ہے، لیکن شرط پر تمہیں شیراز گھمانا ہوگا۔”
عارف نے اسے شیراز کے مشہور مقامات کی سیر کروائی۔ وہ ناصر الملک مسجد کی رنگین روشنیوں میں کھو گئے، حافظ کے مزار پر شاعری کے گہرے جذبات کو محسوس کیا، اور آخر میں ارم گارڈن کے پرسکون ماحول میں دیر تک باتیں کیں۔
رات کو عارف نے پلوشہ کو اپنے کمرے میں مدعو کیا۔ "یہ شمع تمہارے لیے، پلوشہ۔ تمہارے سفر کی روشنی۔”
پلوشہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "دیکھتے ہیں یہ روشنی کب تک قائم رہتی ہے۔”
قربت کے لمحات جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔ عارف نے اسے بانہوں میں لیتے ہوئے کہا، "تمہاری آزاد روح کسی کے قابو میں نہیں آ سکتی۔”
"لیکن اس لمحے کو قابو میں لینا بہتر ہوگا،” پلوشہ نے سرگوشی کی۔
صبح روانگی کے وقت عارف نے اسے گلے لگایا اور بوسہ دیا۔
"تہران جانا؟ تو میرا ایک دوست مہدی ہے، وہ تمہارا اچھا میزبان ہوگا۔”
"تم جیسے ہوں گے؟” پلوشہ نے شرارتی انداز میں پوچھا۔
"شاید تمہیں بہتر لگے۔” عارف نے ہنستے ہوئے کہا۔
تہران کے ہجوم میں، پلوشہ کی ملاقات عارف کے دوست، مہدی، سے ہوئی۔ وہ ایک مصور تھا، اپنی بائیک پر ایران کے مناظر کو پینٹ کرتا تھا۔
"عارف نے بتایا تم خاص ہو۔”
"اور میں نے بتایا تھا کہ میں خاص شرائط پر سفر کرتی ہوں،” پلوشہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"شرط وہی ہے،” مہدی نے ہنستے ہوئے کہا۔
"بالکل، ایک رات، روم فری اور روم میٹ فری۔ لیکن پہلے تہران کی سیر کرواؤ۔”
مہدی نے اسے تہران کے خوبصورت مقامات کی سیر کروائی۔ وہ گلستان محل کے دروازوں پر کھڑے خوبصورتی کو دیکھتے رہے، برجِ میلاد کے قریب شہر کا نظارہ کیا، اور دربند کی پہاڑیوں پر بیٹھ کر کھانے کے ساتھ ایران کی ثقافت پر بات کی۔
رات کو، مہدی نے اسے اپنے اسٹوڈیو لے جا کر کہا، "یہ دیواریں میری کہانیاں بیان کرتی ہیں، لیکن آج کی رات تمہاری کہانی لکھنی ہے۔”
پلوشہ نے قریب جا کر کہا، "تو پھر آج کی رات رنگوں کی ہوگی۔”
ان کے درمیان قربت کا لمحہ جذبات سے بھرپور تھا۔ مہدی نے اسے بانہوں میں لیتے ہوئے کہا، "تمہاری آنکھوں میں آزادی کا خواب جھلکتا ہے۔”
"اور تمہارے لمس میں وہ خواب حقیقت کا احساس دیتا ہے،” پلوشہ نے سرگوشی کی۔
صبح روانگی کے وقت، مہدی نے اسے بوسہ دیا اور کہا، "تم تبریز جاؤ گی؟ تو رضا سے ضرور ملو۔ وہ تمہیں مفت میں گائیڈ کرے گا، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہوگی کہ تم اسے ایک رات دے دو۔”
پلوشہ نے ہنستے ہوئے کہا، "لگتا ہے ایران میں سب کی ایک ہی خواہش ہے۔”
تبریز کی سرد ہواؤں میں، پلوشہ کی بائیک نے ایک بار پھر رفتار پکڑی۔ رضا، جو ایک موسیقار تھا، مہدی کا دوست تھا اور بائیک پر اپنی موسیقی بجاتا تھا۔
"تو تم وہی ہو جس کے بارے میں مہدی نے بتایا تھا؟” رضا نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
"اور تم وہی ہو جس کے بارے میں مہدی نے کہا تھا کہ مفت میں گائیڈ بنو گے؟”
"شرط کے ساتھ،” رضا نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
"ایک رات، ایک کمرا، اور ایک یاد۔ دور رہنا بہتر ہوگا کیونکہ صبح یہ سب ختم ہو جائے گا،” پلوشہ نے شرط دہرا دی۔
رضا نے اسے تبریز کے مشہور مقامات کی سیر کروائی۔ وہ مقبرۂ شاعران میں گئے، ایل گلی پارک میں جھیل کے قریب وقت گزارا، اور بازارِ تبریز کے گلیوں میں کھو گئے۔
رات کے وقت، رضا نے اپنے کمرے میں گٹار کے ساتھ گانے گاتے ہوئے کہا، "یہ گانا تمہارے لیے ہے، پلوشہ۔”
پلوشہ نے شرارتی انداز میں کہا، "کتنی عورتوں کے لیے گانے لکھے ہیں؟”
"تم جیسی کے لیے پہلی بار،” رضا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
رات کے لمحے جذبات سے بھرپور اور شدید تھے۔
صبح روانگی کے وقت، رضا نے اسے گلے لگایا اور گال پر بوسہ دیا۔
"آذربائیجان جا رہی ہو؟”
"ہاں، آگے ایک نئی دنیا میرا انتظار کر رہی ہے،” پلوشہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پلوشہ نے ایران کو الوداع کہا۔ اس کی بائیک آذربائیجان کے راستے پر تھی۔ نئے لوگ، نئی کہانیاں، اور ایک نئی دنیا اس کے سفر کا حصہ بننے والی تھی۔
شاکرہ نندنی