کئی برسوں جگر کا ہی لہو اپنا پیا ہے
تب دل کے تئیں خوگر اندوہ کیا ہے
ڈر کیوں نہ محلے میں رہے رونے سے میرے
سیلاب نے اس کوچے میں گھر مول لیا ہے
افسوس ہے نشمردہ قدم تم جو رکھو یاں
اس راہ میں سر یاروں نے ہر گام دیا ہے
کاہش ہے عبث تم کو مرے جینے کی خاطر
بیمار بھلا ایسا کوئی آگے جیا ہے
پلکوں سے رفو ان نے کیا چاک دل میر
کس زخم کو کس نازکی کے ساتھ سیا ہے
میر تقی میر