اردو غزلیاتشعر و شاعریعدیم ہاشمی

اور ہے اپنی کہانی اور ہے

عدیم ہاشمی کی اردو غزل

اور ہے اپنی کہانی اور ہے
داستاں اس کو سنانی اور ہے

میں تو سویا تھا ستارے اوڑھ کر
یہ ردائے آسمانی اور ہے

ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اس سمندر کا تو پانی اور ہے

پھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اس کی اک عادت پرانی اور ہے

اجنبی! اک پیڑ بھی ہے سامنے
اس کے گھر کی اک نشانی اور ہے

یوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اک عہدِ جوانی اور ہے

پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے

عدیم ہاشمی 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button