کرتا نہیں قصور ہمارے ہلاک میں
یارب یہ آسمان بھی مل جائے خاک میں
گرمی نہیں ہے ہم سے وہ اے رشک آفتاب
اب آگیا ہے فرق بہت اس تپاک میں
اس ڈھنگ سے ہلا کہ بجا دل نہیں رہے
اس گوش کے گہر سے دم آئے ہیں ناک میں
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
کہیے لطافت اس تن نازک کی میر کیا
شاید یہ لطف ہو گا کسو جان پاک میں
میر تقی میر