- Advertisement -

کرتا نہیں قصور ہمارے ہلاک میں

میر تقی میر کی ایک غزل

کرتا نہیں قصور ہمارے ہلاک میں
یارب یہ آسمان بھی مل جائے خاک میں

گرمی نہیں ہے ہم سے وہ اے رشک آفتاب
اب آگیا ہے فرق بہت اس تپاک میں

اس ڈھنگ سے ہلا کہ بجا دل نہیں رہے
اس گوش کے گہر سے دم آئے ہیں ناک میں

اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں

کہیے لطافت اس تن نازک کی میر کیا
شاید یہ لطف ہو گا کسو جان پاک میں

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل