ہجر سے مرحلۂ زیست عدم ہے ہم کو
فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ کم ہے ہم کو
سائے سے اُٹھ کے ابھی دھوپ میں جا بیٹھیں گے
گھر سے صحرا تو فقط ایک قدم ہے ہم کو
پا بہ جولاں ترے کوچے میں بھی کھیِنچے لائے
شحنۂ شہر سے اُمیّدِ کرم ہے ہم کو
قحطِ معمورۂ صورت سے ہیں پتھر آنکھیں
اب خدا بھی نظر آئے تو صنم ہے ہم کو
دیکھ کیا آئینہ بے جنبشِ لب کہتا ہے
جو خموشی سے ہو وہ بات اَہم ہے ہم کو
بے یقینی کو یقیں ہے کہ ہُوا کچھ بھی نہیں
اور اِک حادثہ آنکھوں کا بھرم ہے ہم کو
ہم کہاں اور کہاں کوچۂ غالب عاصم
’ جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو ‘‘
لیاقت علی عاصم