اردو غزلیاتشعر و شاعریگلزار

کہیں تو گرد اُڑے

گلزار کی ایک اردو غزل

کہیں تو گرد اُڑے یا کہیں غبار دِکھے

کہیں سے آتا ہوا کوئی شہسوار دِکھے

رَواں ہیں پھر بھی رُکے ہیں وہیں پہ صدیوں سے

بڑے اُداس لگے جب بھی آبشار دِکھے

کبھی تو چونک کے دیکھے کو ئی ہماری طرف

کسی کی آنکھ میں ہم کو بھی انتظار دِکھے

خفا تھی شاخ سے شاید ، کہ جب ، ہَوا گزری

زمیں پہ گرتے ہوئے پھول بے شمار دِکھے

کو ئی طلسمی صفت تھی جو اُس ہجوم میں وہ

ہوئے جو آنکھ سے اوجھل تو بار بار دِکھے

 

گلزار 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button