انساں ہوں گھر گیا ہوں زمیں کے خداؤں میں
اب بستیاں بساؤں گا جا کر خلاؤں میں
یادوں کے نقش کندہ ہیں ناموں کے روپ میں
ہم نے بھی دن گزارے درختوں کی چھاؤں میں
دوڑا رگوں میں خوں کی طرح شور شہر کا
خاموشیوں نے چھین لیا چین گاؤں میں
یوں تو رواں ہیں میرے تعاقب میں منزلیں
لیکن میں ٹھوکروں کو لپیٹے ہوں پاؤں میں
وہ آ کے چل دیے ہیں خیالوں میں گم رہا
قدموں کی چاپ دب گئی دل کی صداؤں میں
سر رکھ کے سو گیا ہوں غموں کی صلیب پر
شاید کہ خواب لے اڑیں ہنستی فضاؤں میں
ایک ایک کر کے لوگ نکل آئے دھوپ میں
جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں
صحرا کی پیاس لے کے چلا جن کے ساتھ ساتھ
پانی کی ایک بوند نہ تھی ان گھٹاؤں میں
جلتے گلاب میں نہ ذرا سی بھی آنچ تھی
ہم تو جلے ہیں ہجر کی ٹھنڈی خزاؤں میں
مأخذ :
کتاب : naquush (Pg. 263) اشاعت : 1979
اگلی غزل
پہلی محبتوں کے زمانے گزر گئے
خاطر غزنوی
پچھلی غزل
جب اس زلف کی بات چلی
خاطر غزنوی
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں
ہماری پسند
رہ گئی لٹ کر بہار_زندگی
زندگی ہے سوگوار_زندگی
گوپال کرشن شفق
ملی خاک میں محبت جلا دل کا آشیانہ
جو تھی آج تک حقیقت وہی بن گئی فسانہ
شکیل بدایونی
حواس لوٹ لیے شورش_تمنا نے
ہری رتوں کے لیے بن گئے ہیں دیوانے
فارغ بخاری
رات بھر فرقت کے سائے دل کو دہلاتے رہے
ذہن میں کیا کیا خیال آتے رہے جاتے رہے
ظہیر احمد ظہیر
نہ موج_بادہ نہ زلفوں نہ ان گھٹاؤں نے
مجھے ڈسا ہے مری شعلہ_زا نواؤں نے
خاطر غزنوی






