دنیا میں عجیب و غریب سیاسی صورت حال ہے۔یوکرین اور روس معاملات کے بعد تو سیاسی دنیا میں مزید ایک گفتگو کی فزا بن رہی ہے اور چائنہ میں کورونا پھر سے نمودار ہو رہا ہےاور صیہونی سربراہ نے طیب اردوگان سے ملاقات کی ہے۔ دوسری طرف ہمارا پڑوسی بھارت غلطی سے میزائیلیں بھیج رہا ہے دنیا میں تقریباً ہر دوسرے سیاست دان اور حکمران کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔
اب آتے ہیں وطن عزیز پاکستان کی سیاست میں۔تحریک انصاف اقتدار والی جماعت ہے،پیپلزپارٹی موجودہ وقت میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی اور جمیعت علماء اسلام سب سے زیادہ سرگرم ہے۔منہگائی اور غربت نے لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے جب بھی مہنگائی ہوتی ہے اس کا ذمہ دار حکمراں جماعت کو ٹھرایا جاتا ہے سو اسی طرح تحریک انصاف مہنگائی کی ذمہ دار ہے اس کے علاوہ تحریک انصاف میں گروپس کی موجودگی نے جماعت کو کھوکھلا کر دیا۔یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ تحریک انصاف کو اپنے آپ سے خطرہ ہے۔
اب ایک نظر اپوزیشن پر تحریک لبیک صوبہ پنجاب کی بڑی دینی جماعت کے طور پر ابھر رہی ہے جس کی اتحادی بننے کے لیے تحریک انصاف اور ق لیگ بے تاب ہیں پر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ق لیگ کو ترجیح دیں گے جب یہ بن جائے گی تو وہ یقیناً ن لیگ،پیپلزپارٹی کے خلاف ہی بنے گی کیوں کہ تحریک انصاف پہلے ہی گھر جانے کے موڈ میں ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا فضل الرحمان ایک جمے ہوئے سیاستدان ہیں۔وہ اس وقت ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔جمیعت وفاق میں پیپلزپارٹی کی اتحادی ہے تو صوبے میں ان کی مخالف۔ کافی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ سابق وزیراعلی سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم،پیر سائیں پاگارا،فہمیدہ مرزا اور جی ڈی اے کے دوسرے اتحادی دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کا صفایا کریں گی مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ دیہی سندھ میں وفاقی اتحادی پیپلزپارٹی اور جمیعت آمنے سامنے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ہر بیان پر ردعمل کوئی دے رہا ہے تو وہ جمیعت والے ہیں۔پیپلزپارٹی کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اسے جمیعت سے خطرہ ہے اس لیے مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری نے اسیمبلیوں میں استعفے دینے سے گریز بھی کیا۔پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت قائم رکھنا چاہتی ہے وفاقی اقتدار کے لیے اسے ایک صوبے کی مزید ضرورت ہے شاید اس کی نظریں بلوچستان پر ہیں کیوں کہ پنجاب میں پہلے ہی ق لیگ،ن لیگ اور لبیک کے نام ہو چکی ہے۔ایم کیو ایم کا سندھ کی وزارت اعلی کی کرسی حاصل کرنے کا خواب شاید 2023 میں پورا ہوتا ہوا دور دور تک نہیں دکھائی دے رہا۔
خیبر پختونخواہ اوربلوچستان میں بھی سیاسی سرگرمیان تیز ہیں۔بلوچستان کے دارالحکومت میں پشتون سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا پے جمال کمال خان کی وزارت کو چھیننے میں بھی پشتون سیاست کا حصہ تھا،بلوچ قوم پرست پارٹیوں کی منزل بھی غیر واضح ہے۔خیبر پختونخواہ میں جمیعت کی بلدیاتی الیکشن میں کامیابی کے بعد جمیعت کو ایک مزید صوبے کی تلاش ہے شاید ان کی نظریں سندھ پر ہیں۔پر زیادہ خوش ہونے کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ ابھی یہاں بھٹو زندہ اور پائندہ ہے۔
سیاست کی جنگ میں کوئی کسی کے ساتھ مخلص نہیں سب کی کانپیں اپنی اپنی جگہ ٹانگ رہی ہیں۔
ابو مدثر