بکھرے ہوئے رنگ ہیں دھنک کے
منظر ہیں زمیں پر فلک کے
مہکار سے رنگ مل رہے ہیں
چہروں میں گلاب کھل رہے ہیں
ہر سانس مہک رہی ہو جیسے
پھولوں سے کشید کی ہو جیسے
دریائے حروف بہہ رہا ہے
ہر شخص بس اپنی کہہ رہا ہے
جذبوں کو پناہیں مل رہی ہیں
آپس میں نگاہیں مل رہی ہیں
لیک مری کیفیت عجب ہے
اک درد ہے اور بے سبب ہے
جی زیست سے بھر گیا ہو جیسے
شیشہ سا بکھر گیا ہو جیسے
ماحول میں کھو کر سوچتا ہوں
حیران سا ہو کے سوچتا ہوں
جب مجھ کو نصیب ہر خوشی ہے
پھر دل میں نہ جانے کیا کمی ہے
کیا جانئے دل اداس کیوں ہے
دریا پہ بھی آ کے پیاس کیوں ہے
آنکھوں کی نمی چھپا رہا ہوں
روتے ہوئے مسکرا رہا ہوں
سعود عثمانی