ظلمت شب کی چشم پریشان میں
کسمساتے ہوئے
دو دِیے
ایک سہمے ہوئے طاق پر
ٹمٹماتے ہوئے
ملگجی ، ماند پڑتی ہوئی روشنی
زرد رُو ، بے اماں
ایستادہ ستوں سے
الجھتا ، لپٹتا
لرزتا دھواں
دو نگاہیں مگر
آنچ دیتی ہوئی
بے زباں سسکیاں
روح میں دفعتاً
تھرتھراتی ہوئی
سانس کی ڈوریاں
تیرتی ہیں کسی ڈبڈبائی ہوئی
آنکھ میں
دو لَویں … مستقل
اور کہیں تیز جھونکوں کی آہٹ پہ بھی
کانپ اٹھتا ہے دل
گلناز کوثر