مجاہد مشتاق احمد خان کی رہائی
ایک اردو تحریر از یوسف صدیقی
غزہ کے لیے پاکستان کی آواز — مجاہد مشتاق احمد خان کی رہائی
الحمد للّہ! امتِ مسلمہ کے ایک بہادر سپاہی، جری دلیر اور باایمان رہنما جنابِ مشتاق احمد خان آخرکار ظالم اسرائیل کی قید سے آزاد ہو کر پاکستانی سفارت خانہ، عمان (اردن) میں بخیریت پہنچ چکے ہیں۔ یہ خبر محض ایک فرد کی رہائی نہیں بلکہ قوم کی روح کی بیداری ہے — عزم کی فتح، ایمان کی جیت اور اس پیغام کی بازگشت:
"فلسطین ہمارا ہے، اس کی آزادی ہمارا فرض ہے، اور ظلم کے سامنے خاموشی ہماری فطرت نہیں۔”
آج غزہ ایک ایسا زخم ہے جو برسوں سے لہو بہا رہا ہے۔ شہروں کی اینٹیں مٹی میں مل گئی ہیں، مساجد ملبے میں دفن ہو گئی ہیں اور اسپتال معصوم بچوں کی نعشوں سے بھر چکے ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں اکثر خاموش تماشائی بنی رہیں اور انسانی حقوق کے دعوے دار بھی سنسنی خیزی کے سائے میں نظر آئے۔ مگر انہی تاریکیوں میں چند چراغ ابھی بھی روشن ہیں — اور انہی چراغوں میں سے ایک مشتاق احمد خان ہیں جنہوں نے "گلوبل صمود فلوٹیلا” میں شرکت کر کے ثابت کیا کہ پاکستان مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہے، خواہ اس کی قیمت جان ہی کیوں نہ ہو۔
یہ محض ایک جہاز نہیں تھا، بلکہ انسانیت کی ایک کشتی تھی جو ظلم کے سمندر کو چیرتی ہوئی نکلی۔ اس پر سوار مردِ حق جانتے تھے کہ ان کے سامنے اسرائیلی بحریہ کی توپیں اور جنگی جہاز ہیں، مگر ایمان کا سمندر توپوں سے کہیں وسیع ہے۔ انہوں نے جان کی پرواہ کیے بغیر محصور غزہ کے بچوں کے لیے سفر کیا، کیونکہ ایمان صرف نماز و روزہ نہیں بلکہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ بھی ہے۔ جب اسرائیلی فوج نے ان جہازوں کو روک کر مسافروں کو گرفتار کیا تو دنیا نے ایک بار پھر دیکھا کہ طاقت اور سچائی کی جنگ میں ہمیشہ طاقت ہارتی ہے اور ایمان جیتتا ہے۔
جنابِ مشتاق احمد خان قید میں رکھے گئے، مگر قید جسم کو روک سکتی ہے، روح کو نہیں۔ انہوں نے ہر لمحے امتِ مسلمہ کے لیے دعا کی اور جب رہائی کی خبر پہنچی تو یہ صرف ان کی ذاتی خوشی نہیں بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کی فتح تھی۔ اس کارِ خیر میں حکومتِ پاکستان، دفترِ خارجہ، اردن میں پاکستانی سفارت خانہ اور دیگر متعلقہ اداروں کا کردار لائقِ تحسین ہے جنہوں نے دن رات جدوجہد کر کے اس وعدے کو پورا کیا۔ وہ لمحہ یادگار تھا جب سیاست سے بالا تر ہو کر پوری قوم نے ایک آواز میں دعا کی: "اللہ ہمارے مجاہد کو بخیر واپس لائے” — اور دعائیں قبول ہو گئیں۔
مشتاق احمد خان صرف ایک سیاستدان نہیں؛ وہ ایک فکر، ایک رویہ اور ایک مثال ہیں۔ انہوں نے امت کو یاد دلایا کہ غزہ محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ ایمان کا امتحان ہے۔ اگر ایک مسلمان ظالم کے سامنے اٹھنے کی ہمت رکھے تو پوری دنیا کی طاقتیں بھی اسے روک نہیں سکتیں۔ ان کی ثابت قدمی نے واضح کر دیا کہ ایمان کی طاقت سمندروں کے پار بھی اپنا جلوہ دکھاتی ہے اور پاکستان کا پرچم وہاں بھی غیرت و استقامت کی علامت بن جاتا ہے۔
جب ان کی رہائی کی خبر آئی تو ملک کے کونے کونے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں نے یک زبان ہو کر اظہارِ یکجہتی کیا اور ہر دل نے محسوس کیا کہ یہ صرف ایک شخص کی رہائی نہیں بلکہ حق کی فتح اور باطل کی شکست ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان صرف زبان کا دعویٰ نہیں بلکہ عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر امت کے ہر فرد میں مشتاق احمد خان جیسا یقین اور جذبہ پیدا ہو جائے تو نہ کوئی غزہ محصور رہے گا اور نہ کوئی مقدس مقام تنہا رہے گا۔ یہ رہائی سکھاتی ہے کہ ظلم کے سامنے خاموشی جرم ہے اور حق کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ہی اصل ایمان ہے۔ دنیا کی تاریخ انہی کے نام رقم ہوتی ہے جو خطرات کے باوجود حق کا علم بلند رکھتے ہیں۔
آج مشتاق احمد خان کی وطن واپسی امت کے لیے ایک نئی صبح ہے۔ یہ پیغام ہے کہ قید خانے اس روح کو قید نہیں کر سکتے جو اللہ کی خاطر اٹھتی ہے۔ یہ امید ہے کہ پاکستان اب بھی امتِ مسلمہ کا دل ہے اور جب تک اس ملک میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے ظلم کی رات کبھی مکمل نہیں ہو سکے گی۔
اللہ تعالیٰ مشتاق احمد خان جیسے مجاہدِ حق کی حفاظت فرمائے اور پاکستان کو ہمیشہ حق کی آواز بنائے رکھے۔
یوسف صدیقی