چاچا ناشکرا
”لو بھئی ایتھوں بنٹھو، ہُن کوئی نئیں گل کرسگدا، جھیڑا کرلے گا اور ھسے گا، تے نالے فتویٰ سنے گا۔“
چاچا نورنے نے اپنی لُنگی سنبھالی اور یہ کہتے ہوئے تیزی سے موقعے سے ٹلنے کو عافیت جانی۔ سامنے سے چاچا ناشکرا آرہا تھا۔ چاچا ناشکرا بھی اپنی جگہ اک بڑی دلچسپ، رونقی اور مجلسی شخصیت تھا۔ بولتا توتوجہ مبذول کرنے کا گفتگو کو دلچسپ رُخ دینے کا ماہر تھا۔ کچھ لوگ اُس بات پر آمناً و صدقاً کہہ دیتے۔ ہاں میں ہاں ملاتے۔کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو چاچا ناشکرے کی ہی سطح کے تھے وہ اس سے اختلاف بھی کرتے تمسخر بھی اُڑاتے اور یہی تمسخر و ٹھٹھا۔ اس لقب کا باعث بنا، اس لقب نے اس کا نقصان تو کچھ نہ کیا بلکہ متنازعہ کرکے اُس کی شہرت کو چار چاند ہی لگادئیے تھے۔ چھوٹے بڑے حامی و مخالفین اُس کو چاچا ناشکرا ہی بلاتے مگر اس کی غیر موجودگی میں، اور جو کوئی بھولے بھٹکے کبھی اُس کے سامنے کہہ بیٹھتا تو اس کی شامت آجاتی اور چاچا ناشکرا اپنا سارا زورِ خطابت انسان کی ناشکری اور تھوڑ دلی کو ثابت کرنے میں صرف کردیتا!
چاچا ناشکرا جس کا اصلی و حقیقی نام تو خیر دین تھا۔
مگر خیر دین سے وہ چاچا ناشکرا بن گیا تھا!
چاچا خیر دین عرف چاچا ناشکرا سیدھا سادا سا دیہاتی آدمی سانولا رنگ سادے سے نقوش آنکھوں میں اک قدیم علاقائی فہم و دانش اور کچھ شرارت کی چمک اور یہی چمک اُس کی گفتگو میں بھی تھی۔ لمبا کسرتی بدن مگر وقت اور عمر کا ثبوت دیتی ڈھلکی ہوئی توند جو ڈھیلے سے کُرتے سے جھانکتی نظر آتی نیچے چارخانوں والی رنگ برنگی دھوتی اور کندھے پر لٹکتا کبھی عربی اور کبھی چار خانوں والا رومال جسے باربار اُٹھا کر وہ اپنے گنجے سر سے بہتے نیچے کو آتے پسینے کو صاف کرتا اور جب جوش سے یا غصے سے ہاتھ لہرا لہرا کر بولتا تو اک پل کو گویا محفل کی نبض پر ہاتھ رکھ دیتا اور لوگ تائید میں اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگتے اور گھوم پھر کر اُس کی ہر بات کا اختتام اسی بات پر ہوتا۔
”او چھڈو جی بندہ تو ہے ہی تھوڑ دلاتے ناشکرا یا پھر وہ کہتا لوجی ایویں تو مالک نے قران میں بھی آکھیا کہ بندہ تو ہے ہی تھوڑ دلا اور ناشکرا۔ لوجی گل ہی مکُ گئی جب بات تو رب کی آگئی قران کی آگئی۔“
اور لوگ فرطِ عقیدت سے ہاتھوں کی انگلیوں کوچومنے لگتے اور عقیدت کا گاڑھا شیرا سارے مجمعے کو بھی جیسے اکٹھا چوڑدیتا۔
اور یہ بات تو گویا اُس کا تکیہ کلام تھی ”کہ بندہ تو ہے ہی تھوڑ دلا اور ناشکرا۔“
وہ تو بندے کو بیک وقت تھوڑ دلی اور ناشکرے پن کی سند اور طعنہ دیتا تھا۔ اس کی تکرار کرتا تھا مگرجانے کیوں لوگوں نے تھوڑ دلی کو چھوڑ کر اُس کے لقب کے لئے چاچا ناشکرا کا چناﺅ کیا؟ آخر اُس کا نام چاچا تھوڑ دلا بھی تو ہوسکتا تھا عارف کی ذہنی رو بہتے بہتے جانے کس رُخ پر جاکر بہکنے لگتی۔
”ہاں تو اور کیا، چاچا ناشکرا ہی کیوں، چاچا تھوڑ دلا۔ کیوں نہیں؟ کیا صرف اس لئے کہ اس میں اُس کی دل شکنی اور بے عزتی کا احتمال تھا، کچھ زیادہ تھا یا یہ کہ ناشکری انسان کی عمومی صفت ہے اور تھوڑ دلی خصوصی پھر یہ لوگوں کی جانب سے چاچے کی طرف اک لحاظ داری ہے مروت ہے پھر بھی وہ کیسے ہر وقت سب کو منہ بھر بھر کر ناشکرا اور تھوڑ دلا کہتا رہتا ہے، اور ہم مروت و لحاظ میں سنتے رہتے ہیں۔ یہ لحاظ و مروت رکھنا بھی تو اک شکر گزار سی کیفیت ہے، کیا کبھی یہ چاچے کو محسوس نہیں ہوتی؟
عارف بے تکے پن سے سوچے چلاگیا۔ عارف جو اس بیٹھک اس مجلس کا واحد گریجویٹ تھا۔ اس پسماندہ سے قصبے کے گلی کوچوں میں کچھ اور تعلیم یافتہ نوجوان بھی تھے مگر کچھ یہاں سے نوکریوں کے سلسلوں میں سدھار گئے اور کچھ جو یہاں تھے خود کو کوئی اور ہی مخلوق سمجھتے تھے۔ چاچے ناشکرے کی محفل میں آکر بیٹھنا اپنی ہتک سمجھتے تھے۔ اک عارف ہی تھا جو یہاں آکر اُٹھتا بیٹھتا تھا اور ان بزرگوں کی باتوں حکایتوں اور کہاوتوں میں ایسی لوک داستانوں کی سی چاشنی و دانش تلاش کرتا۔ جو بھی تھا چاچا ناشکرا اُسے اپنے تمام تر ”ناشکرے پن “ کے باوجود اچھا لگتا تھا اور اپنی سوچ کے تمام تر بے تُکے پن اور تلخی کے، اس کدورت کے جو وہ کبھی کبھی اُس کی باتوں پہ دل میں محسوس کرتا تھا، وہ اندر ہی اندر کہیں اس حقیقت سے متفق بھی تھا مکمل طور پر نہ سہی جزوی ہی سہی!
اور یہی ہوا چاچا ناشکرا جب آیا تو اس کی تیز نظروں نے بابو ہوٹل کے سامنے بچھی چار پائیوں پر سے نورے کے کھسکنے کو بھانپ لیا، بابو ہوٹل کی چار پائیاں اور منشی صاحب کی بیٹھک چاچے اور ساتھیوں کے دو مرغوب ترین ٹھکانے یا اڈے تھے جہاں یہ گرما گرم محفلیں جمتی اور جہاں کبھی سیاست پر بات ہوتی کبھی خاندانی مسائل پر اور کبھی معاشرتی رویے زیرِ بحث آجاتے اور آخر میں حتمی اور آخری جملہ چاچے ناشکرے کا ہوتا خواہ بات کوئی بھی ہوتی ”او چھڈو جی، بندے دی کی گل کرنی اے بندہ تے ہے ہی تھوڑ دلا تے ناشکرا۔“
اور منشی جی حقہ گڑ گڑاتے سب سے پہلے چاچے کی ہاں میں ہاں ملاتے اور پھر دوسرے لوگ بھی تائید کرنے لگتے مگر بعض اوقات ہوتا یہ کہ اس جملے کی زد براہ راست کسی شخص پر پڑتی تو وہ بلبلا اُٹھتا اور پھر ماحول گرم ہوجاتا۔ بحث اور گپ شپ تُو تکرار میں بدل جاتی اور جو کوئی چھوٹا بھڑک اُٹھتا تو بڑے اپنی بڑائی کا فائدہ اُٹھا کر ڈانٹ ڈپٹ کرکے چپ کروادیتے اور اگر کوئی بزرگ ہوتا تو منشی جی اپنی دوستی کا فائدہ اُٹھا کر دونوں پارٹیوں کو راضی کردیتے یہ کہتے ہوئے،
”او یار بس کر، پتہ تو ہے یہ اپنا تیرا میرا سب کا چاچا ناشکرا ہے۔“
بات کی حدت پر برف سی پڑجاتی، چاچا ناشکرا غصے اور احتجاج سے منشی جی کو گھورتا احتجاجاً حقے کی نے چھین کر گُڑگُڑانے لگتا مگر جواب کوئی نہ دیتا۔
ہر گرمی سردی کو سہتی یہ بیٹھکیں یونہی جمتی تھیں اور جمتی آرہی تھیں اور اب جو چاچے نے نورے کو یوں بھاگتے دیکھا تو اُس کی تیز چمکیلی آنکھیں غصے سے دہک اُٹھیں۔
وہ بابو ہوٹل کے مالک اور پاس کھڑے عارف کے کندھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔
”لو دیکھ لو۔ یہ نورا مجھے دیکھ کر جو دوڑیں لگارہا ہے اور جو یہ یہاں بکواس کرکے گیا اوہ بھی مینوں پتہ، پر میں اندر کی بات کھولوں، اس کھوتے کے پُتر نے مجھ سے ہزار روپے ادھار لئے تھے اور اب کئی بار مانگنے پر دیتا نہیں اور مجھ سے لُکتا پھرتا ہے۔ لو دسو فیر کیا میں سچ نہیں کہتا کہ بندہ بڑا ہی ناشکرا ہے۔“
عارف اور بابو کریم دل ہی دل میں چاچے کی فراست کے قائل ہوئے اور اس کی دلجوئی کرنے لگے۔
ابھی وہ لوگ انہی باتوں میں مصروف تھے کہ چاچے کا سب سے چھوٹا بیٹا جو لگ بھگ اٹھارہ انیس سال کا تھا بھاگتا ہوا آیا اور پھولے پھولے سانسوں سے بولا۔
”ابا گھر پرونے آئے نئیں، چھیتی آ“۔
چاچا ناشکرا اس کو موٹی سی گالی بک کے بولا، ”او کی ہویا کیہڑی کالی تیرھی آگئی اے۔ تیری ماں کو تو وخت ڈالنے کی عادت ہے، تیری ماں تو….“ چاچے کی زبان سے مغلظات ناشکری بن کر جھڑنے لگیں۔
مہمانوں کی وجہ سے چاچا جلدی سے گھر چلا گیا۔ لیکن کچھ دیر بعد ہی اس کے گھر سے جھگڑے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ کچھ دیر تک تو لوگوں نے اسے برداشت کیا مگر محلوں اور چھوٹے قصبوں کی ثقافت کی یہ نفسیات کہ دیوار یں اتنی بلند نہ ہوں کہ ارد گرد کی آوازیں دخیل و مداخلت نہ کر پائیں اچھی بُری بغلی روایات کے امین چاچے کے شور کو نہ برداشت کرتے ہوئے اس میں داخل ہوگئے۔ پتہ چلا کہ سارا جھگڑا چاچے کے پُتر کے ویاہ پر بلائے جانے والے مہمانوں پہ تھا۔
قصہ دراصل یوں تھا کہ چاچی کلثوم کا خیر دین کے ساتھ یہ دوسرا نکاح تھا۔ کم سنی میں وہ بیاہی گئی اور دو سال بعد ہی جانے کن وجوہات کی بنا پر اُسے طلاق ہوگئی۔ پہلی شادی کی نشانی اک بیٹی تھی روبینہ، روبینہ کو نانا نانی نے رکھ لیا اور بُرا بھلا جیسا بھی رشتہ ملا خیر دین سے بیاہ کر رخصت کرکے سرخرو ہوئے۔ اب اک طرح سے یتیم و مسکین نواسی روبینہ جو ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیموں کی سی زندگی گزار رہی تھی کو ہاتھ کا چھالا بنا کر پالا۔ وقت کے حساب سے میٹرک پاس کروایا اور بہت اچھے گھر میں کیپٹن ممتاز کے ساتھ بیاہ دیا۔ روبینہ صورت و سیرت میں یکتا، کیپٹن ممتاز نے بھی بہت محبت دی۔ کسک تھی تو ماں باپ کی محبت کی، ماں کی محبت کی مہک اُسے کلثوم کے در پر لے جاتی جہاں ماں کی محبت خیردین کی ماتھے کی تیوریوں میں دبی سہمی ہوئی بہن بھائی اجنبی اور اک فاصلے سے ملتے یہ افسری کے ٹھاٹ ماٹھ والی بہن اور اُس کے بچے کب اپنے اپنے لگتے تھے۔ باپ نے ایسا منہ موڑا تھا کہ روبینہ کی خبر ہی نہ لی سو وہ دل میں صبر و جبرکی سل رکھ کر چاچی کلثوم اور چاچے ناشکرے کے در پر چلی آتی۔ جب آتی تو لدی پھندی ہوتی اسی لئے چاچے کے ماتھے کے بل کچھ کم ہوجاتے اور وہ جب بوسکی کا کُرتا چاچے کے سامنے رکھتی۔
”ابا جی آپ کے لئے لائی ہوں سُچل دو گھوڑا بوسکی ہے۔“
تو چاچا اوپر سے ذرا نخرہ دکھاتے ہوئے کُرتا اپنی جانب کھینچ کے کہتا۔
”او کڑیئے رہن دیتی بھلا اس کی کیا لوڑ تھی چل ہُن لے آئی تو پہن لوں گا عید پہ، ہُن آئی ایں تو دو چار دن رہ جائیں، بچے خوش ہوجان گے۔“
اور وہ اتنے ہی میں خوش ہوجاتی۔ چاچی بھی کچھ دیر کو کِھل اُٹھتی مگر اس کی ممتا میں بھی وہ حدت نہیں تھی جو دوسرے بچوں کے لئے تھی۔ روبینہ کے دل میں ہوک سی اُٹھتی، ”بھلا اس کی تو میں سوتیلی نہیں اس کے میرے بیچ کیوں دراڑ ہے۔ “ پڑھا لکھا خاوند آرمی کی صاف ستھری کالونیاں اور ماحول، بچپن کی محرومیاں ان سب عوامل نے روبینہ کو بہت حساس کردیا تھا وہ خود چار بچوں کی ماں تھی مگر اندر اک معصوم و محروم بچی بلکتی تھی یا پھر وہ عمر ہی اتنی لکھوا کر لائی تھی جو بھی تھا بھری جوانی میں وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکر دو سال ہی میں چٹ پٹ ہوگئی۔ یہ وہ وقت تھا جب چاچے اور کیپٹن جو کہ اب میجر ہوچکا تھا، کے میجر ممتاز اور مرحومہ روبینہ کے بچوں کے ساتھ اختلافات ہونے شروع ہوئے، یہ وہ کڑا وقت تھا جب بچے لا محالہ اپنے ننھیال کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے۔ جب کہ ان کی ماں بسترِ مرگ پر تھی۔ مگر وہاں وہی بے حسی اور خانہ پُری کے معاملات تھے۔ مہمان جاتے اور مہمان بن کر بچوں اور میجر ممتاز کو ناکوں چنے چبواتے۔ انہیں معاملات میں روبینہ راہی¿ ملک عدم ہوئی۔ گلے شکوے جھگڑوں میں منتقل ہوتے۔ رابطے کی کڑی گم ہوگئی اور فاصلے سالوں میں بدل گئے۔
اب چاچے کے بیٹے کی شادی تھی اور چاچی کلثوم کی خواہش تھی کہ وہ بچے بھی آتے۔ کچھ قریبی رشتہ دار اندرونی طور پر چاچی کے ایما پر چاچے ناشکرے اور اس کی اولاد کو منانے کے لئے آتے تھے کہ ان بچوں کو سوتیلے ہی سہی مگر مامے کی شادی پر منا کر شامل کیا جائے اور وہ بچے جو کہ اب بچے نہیں رہے تھے اپنے رشتوں کو ڈھونڈھتے اور کھوجتے تھے ملنا چاہتے تھے۔ بڑھتے بڑھتے یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ منشی جی کی بیٹھک میںآگیا، چاچا درمیان بیٹھک میں بیٹھا غصے سے بھرا ہوا تھا مگر کچھ بولنے سے بھی گریز کرتا تھا۔
عارف کو ایک دم ہی اس بیٹھک پہ پیار آگیا، وہ دل ہی دل میں خود سے باتیں کرنے لگا، ایسے ہی چاچا سب کو ناشکرا اور تھوڑ دلا کہتا رہتا ہے۔ کیا اُسے رب کے بندوں کا یہ حسنِ محبت اک دوجے کی ذات میں یہ مان یہ مداخلت نظر نہیں آتی اور پھر یونہی بیٹھے بیٹھے اُس کے ذہن کی رو بہک گئی۔
”اور جو واقعی بندہ ناشکرا اور تھوڑ دلا ہے تو کیا بات بنانے والے پہ نہیں جا پہنچتی۔ اس نے بناکر خود ہی تو اعتراف بھی کرلیا؟ اب بھلا کوئی مشین اپنی اہلیت، ماہیت و پیدائشی تکنیک سے کیسے انحراف کرے۔“ پھر خود کو جھٹک کر اور اندر ہی اندر کوستے ہوئے لاحول پڑھ کر وہ واپس بیٹھک میں آگیا، جہاں سب چاچے کو سمجھانے میں مصروف تھے کہ بچوں کو شادی پہ بلانا چاہئے۔ مگر چاچا اپنے لڑکوں کے آگے بے بس تھا جن میں بدگمانی کے درخت کو پانی دے کر اُس نے خود ہی تناور کیا تھا۔ سب کے لاکھ سمجھانے بجھانے پر بھی وہی پرانی باتوں کی جگالی ہوتی رہی۔ ” اوہ مکے منڈے نے یہ کہاتھا اور روبی میجر کی گردن میں تو سر یا ہے نہ جی ہم نے نہیں بُلانا ان کو۔“
عارف اور منشی جی نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اپنے طور پر سمجھایا اور یاد دلایا، ان نرم گرم بیٹھی یادوں پر سے گرد جھاڑی جو ان بچوں سے وابستہ تھیں، عارف، اشرف کو مخاطب کرکے بولا۔
”اوہ یار حیا کر ، کیسے مل کر فرحال تُو اور میں ٹیوب ویل پہ نہاتے تھے، گھنٹوں نہانے کے بعد گھر جاکر بھنے گڑ والے چنے جیبوں میں ڈال کر مٹھیاں بھر بھر چباتے پھر سیلیوںمیں نکل جاتے اور اب گھر کی پہلی شادی تو وہ مامے کے ویاہ پر نہ آئیں۔“
بات نرم پڑتی دل میں محبت کی نرم سی کونپل ذرا سا سر اُبھارتی مگر تھوڑ دلی کا کلر ساتھ ہی چاٹ جاتا۔
منشی جی ڈپٹ کر بولے۔
”او یار خیر دین حیا کر روبینہ بہشتی کی دو کاکیاں بھی ہیں، یار دھیاں ساروں کی سانجھیاں ہوتی ہیں، چھڈ پرانی باتوں کو اور بچوں کو گلے لگا۔“
چاچا کبھی کبھار لقمہ دیتا، کبھی نرم پڑجاتا اور کبھی بھڑک اٹھتا مگر زیادہ تر چپ کرکے حقہ گڑگڑاتا رہا۔ ہاں اضطرابی حالت میں گڑگڑاہٹ میں تیزی آجاتی۔
بات کو نہیں بننا تھا سو نہ بنی۔ بے برکتی کی نحوست نے چاٹ لیا اور انہی جھگڑوں میں شادی کا دن آن پہنچا، اختر دولہا بنا کھڑا تھا، چاچی کلثوم نے دوپٹے سے آنکھوں کی نمی کو پونچھا اور دولہے کا ماتھا چوم کر اُس کے ساتھ کھڑی ہوگئی، دولہے کی ماں ہو کر بھی اس کی گردن جھکی جھکی تھی اور وہ کبھی کبھی بہانے سے آنکھیں رگڑنے لگتی۔
اشرف اور باقی بھائیوں نے ڈھول کی تھاپ پر بھائی کی بارات پہ خوب بھنگڑے ڈالے۔ چاچے ناشکرے نے اپنی اوقات و حیثیت سے بڑھ کر بیٹے کے سارے شگن پورے کئے مگر پھر بھی اک نادیدہ سی نحوست، اداسی اور افسردگی نے پورے ماحول کو گھیر رکھا تھا جو محسوس ہوتی تھی مگر لفظوں کی گرفت میں نہیں آتی تھی۔
بارات ولیمہ سب خیر عافیت سے ہوگئے بس وہ نہیں آئے جن کا چاچی کلثوم کو انتظار تھا کیسے آتے؟ کونسا کسی نے بُلایا تھا عارف نے اُن کے ولیمے کے چاول کھاتے ہوئے چاچے ناشکرے اور اشرف اختر سمیت اُس کے تمام لڑکوں کے لئے دل میں بڑی کدورت محسوس کی اور ان کو غصے سے دل میں گالیاں دیتے حسرت سے سوچا۔ ”کاش وہ آجاتے، میں فرحان کے ساتھ پھر سے پرانی یادیں تازہ کرتا اور وہ فضہ بھی تو شاید آتی، دل میں کوئی چور بولا۔
”جانے کیسی ہوگئی ہوگی، کتنی سوہنی اور چاندی جیسی چمکتی تھی۔ اب تو اور بھی بکھرگئی ہوگی، جانے کہیں منگنی بھی ہوگئی ہو۔ بس اک بار دیکھ لیتا میں، پھر چاہے کسی کی بھی ہوجاتی مگر یہ چاچا ناشکرا۔“
ولیمہ سے اگلے دن سویرے سویرے اونچی اونچی رونے پیٹنے کی آوازوں پہ عارف ہڑبڑا کر اُٹھا،باہر چاچے ناشکرے کے دروازے پہ لوگوں کا ہجوم تھا وہ لوگوں کو اِدھر اُدھر دھکیلتا آگے بڑھا۔ سامنے چاچا ناشکرا ڈبی دار کھیس لئے ہمیشہ کی گہری نیند سورہا تھا۔ جامد ساکت اور بالکل خاموش۔
عارف کے آس پاس اک خلا اُگ آیا۔ آس پاس سے کائیں کائیں کرتے کوے اُڑ کر نحوست پھیلاتے آسمان کی جانب پرواز کرتے گزرے تو وہ واپس آیا۔ یہ کیا ہوا اک دم سے ؟ اک شور مچاتا شخص اچانک چُپ ہوگیا۔
چاچی کلثوم بین کرتی سینہ پیٹتی اشرف اختر کوکہہ رہی تھی۔ رے ساریوں کو فون کردو، سہنیا کل دو بتادو خیر دین میں نو ں چھڈگیا، ہائے اوئے میری روبینہ کو چلا گیا۔ اوئے میجر اور بچوں کو بھی فون کردو نانے کا منہ ویکھ لیں آکر۔ “
جن کے ساتھ خوشیاں بانٹنے کو تھوڑی پڑ گئیں تھیں وہ غم کے دستر خوان پر ساتھ آبیٹھے تھے۔
روبینہ کا بڑا بیٹا ریحان کراچی سے جب پہنچا تو تدفین ہوچکی تھی باقی پہلے آگئے تھے وہ بینک میں تھا کراچی کسی کام کے سلسلے میں گیا ہوا تھا، وہ جب آیا تو اشرف اُس کے گلے لگ کر دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ میت کے بعد روٹی کھُل چکی تھی۔ عارف کے گلے میں روٹی کا نوالہ اٹکنے لگا۔ وہ دل ہی دل میںچاچے کی تائید و اثبات میں بولا۔
”بندہ کننا ناشکرا اور تھڑ دلا ہے۔“
سیمیں کرن