ایلف شفق کا ناول: حوا کی تین بیٹیاں
سیمیں کرن کا اردو کالم
ایلف شفق کا ناول: حوا کی تین بیٹیاں
” حوا کی تین بیٹیاں“ ایلف شفق کے قلم سے نکلا ایک اور عمدہ ناول ہے۔ ناول چار ابواب یا چار حصوں میں منقسم ہے اور ہر باب کے نیچے بہت سی چھوٹی چھوٹی سرخیاں ہیں۔ ایلف شفق کے ناولز کی ایک خصوصیت سامنے ابھر کر آتی ہے وہ ہیں مضبوط نسوانی کردار جو کہانی میں کسی مفعول یا بھرتی کے کردار نہیں ہوتے بلکہ وہ کہانی کے فاعل ہوتے ہیں، وہ ”عشق کے چالیس دستور“ کی ایلا ہو یا ”گیارہ منٹ اڑتیس سیکنڈ“ کی لیلی ہو یا پھر ”تھری ڈاٹرز اف ایو“ کے مضبوط کردار۔ یہ نسوانی کردار ناول کے نام کی وضاحت تیسرے باب میں جاکر کرتے ہیں ملاحظہ کیجیے :
”تین مسلمان عورتیں آکسفورڈمیں، گناہ گار، ایمان والی اور کنفیوزڈ۔ یہ صرف مونا ہی نہیں تھی جو اس عجیب بے تکے سماجی تجربے کے لیے چنی گئی تھی۔ بلکہ اب اسے سمجھ آیا، دوسری اس کی سوتیلی بہن پری بذات خود تھی“ صفحہ 315
جی یہ وہ تین حوا کی بیٹیاں ہیں جو اس ناول کے ٹائٹل کی ذمہ دار ہیں، گناہ گار، ایمان والی اور کنفیوزڈ۔ ناول خدا کے تصور اور مروجہ تصورات پہ عمدہ اور حساس بحث رکھتا ہے اور فلسفیانہ اپروچ رکھنے کے باوجود ناول ایک مضبوط کہانی لے کر چلتا ہے، یہی ایلف شفق کی خوبی ہے کہ ان کے کردار اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ بہت سہولت سے ان کے منہ سے سب کچھ کہلوا دیتی ہیں۔
ناول کا آغاز استنبول کی مصروف ترین سڑک پہ ٹریفک میں پھنسی پری اور اس کی بیٹی ڈینز سے ہوتا ہے جہاں ایک ناگوار حادثہ ان کا منتظر ہے کہ رش میں پچھلی سیٹ پہ پڑا بیگ ایک اٹھائی گیرا چرا لیتا ہے۔ دونوں ماں بیٹیوں کو ایک مینشن میں ایک دعوت کے لیے جانا ہے کہ راستے میں یہ مصیبت آ لیتی ہے۔ ناول میں فلیش بیک تکنیک سے جگہ جگہ کام لیا گیا ہے۔ اسی باب میں پری کے بچپن کی زندگی دکھائی گئی ہے اس کا باپ منصور اور ماں سلمی دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔ سلمی ایک کٹڑ مزاج اور شدت پسندانہ مسلم معاشرے کی عکاس ہے جبکہ منصور کے عقائد میں ایک کھلا پن ہے، ایک سیکولر اپروچ جو اکثر لادینیت کو چھو لیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ منصور اور سلمی کے درمیان ہر وقت جھگڑا اور جھڑپ رہتی ہے۔ منصور کا اپنی بیٹی پری سے یہ مکالمہ دیکھیے :
”تم دیکھو میری جان، منصور نے کہا: میں، بکتاشئی یا مولاوی یا میلامی صوفی روایات جیسا کہ ان کی انسانیت اور ان کے مزاح کا مداح ہوں۔ قدیم فلاسفی اس ملک میں ختم ہو چکی ہے صرف یہیں نہیں مسلم دنیا میں تمام جگہ اسے دبا دیا گیا، خاموش کر دیا گیا، یا ختم کر دیا گیا ہے۔ کس لیے؟ مذہب کے نام پہ یہ خدا کا قتل کر رہے ہیں۔ نظم و ضبط اور بالادستی کی خاطر یہ محبت بھول گئے ہیں“ صفحہ 87
اور پری اپنے باپ کے زیادہ قریب ہے جس کی خواہش ہے کہ اس کی بیٹی اعلی تعلیم کے لیے اکسفورڈ پڑھنے کے لیے جائے۔ اسی باب میں اس کا ایک بڑا بھائی امت اپنے بائیں بازو کے خیالات رکھنے اور ایک پستول گھرمیں رکھنے پہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
کہانی 1990ء کے استنبول سے یک دم 2016ء میں چلی جاتی ہے جہاں پری اپنے خاندان کے ساتھ مدعو ہے مگر راستے میں اس اٹھائی گیرے سے جھڑپ کے دوران اس کا نہ صرف ہاتھ زخمی ہو چکا ہے بلکہ کپڑے بھی ملگجے ہوچکے ہیں اور جہاں ’بے بی ان دی مسٹ‘ اس کی روحانی مدد کر کے اسے چھٹکارا دلاتا ہے۔ ’بے بی ان دی مسٹ‘ کیا ہے واقعی کوئی روحانی تجربہ، کوئی جن، کوئی واہمہ، مصنفہ مختلف اشارے دے کر اسے قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیتی ہے۔
باب دوئم میں پری برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی پہنچ جاتی ہے جہاں اس کی پہلی ملاقات شیریں سے ہوتی ہے شیریں ایک دلیر نڈر شوخ اور بقول اس کے خود ایک ”گناہ گار“ ایرانی نژاد کردار ہے جس کی دوستی کا دائرہ وسیع ہے وہ اسے پروفیسر آزر کے سیمینار ”دی گاڈ“ کو جوائن کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔ دوسرا باب آکسفورڈ میں بتائے دن اور پھر 2016 ء میں اس ڈنر کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ آکسفورڈ سے پری کو اپنے دوسرے بھائی کی شادی اٹینڈ کرنے واپس استنبول آنا پڑتا ہے جہاں شادی کے بعد ہونے والا ہنگامہ اس کا منتظر ہوتا ہے۔
اس کا بھائی اپنی بیوی کے کردار پہ شک کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا خاندان دوشیزگی کا ٹیسٹ کروانے ہاسپٹل پہنچ جاتا ہے یہاں مصنفہ دوشیزگی پہ کھل کر اظہار خیال کرتی ہے۔ پری جو کہ خود بھی کنواری نہیں ہے وہ اس تماشے کو عجیب نگاہ سے دیکھتی ہے جہاں ڈاکٹرز بھی اس عمل کو حقارت سے دیکھتے ہیں کہ انہیں ان کا اصل کام کرنے دیجیے۔
باب سوئم کا اغاز پروفیسر آزر سے پری کی ایک دلچسپ صورتحال میں ملاقات سے ہوتا ہے۔ پروفیسر جو ایک انتہائی قابل غیر روایتی استاد ہے جو خدا جیسے موضوع پہ سیمینار منعقد کرتا ہے۔ جہاں وہ فلسفیانہ سیاسی، سماجی سائنسی تناظر میں بحث کرتا ہے یہاں ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کے کچھ ٹکڑے ملاحظہ کیجیے :
” ہاں وہ ناراض اور جارح ہے آزر نے کہا، ناراض اور جارح مزاج خدا کا مطالعہ نہیں کر سکتے“
اسی طرح پری کی وضاحت پہ آزر نے جواب دیا:
” تجسس مقدس ہے، عدم یقینی نعمت ہے، آزر نے کہا اس نے اپنے خیالات کو دہرایا جو وہ اپنے پینل میں واضح کرچکا تھا جہاں تک تمھارے خیالات کی وضاحت و صفائی کا تعلق ہے میں آکسفورڈ میں آخری آدمی ہوں گا جس کے پاس تمھیں آنا چاہیے“
آزر جو ایک غیر روایتی استاد ہی نہیں ایک سوشل سائنسدان ہے جو اپنے طلبا کے ذہنوں کو کسی لیبارٹری کی طرح استعمال کرتا ہے اور انہیں مختلف تجربات سے گزارتا ہے۔ سیمینار کے دوران وہ طلبا کو خدا کی ڈرائینگ بنانے کو کہتا ہے جب سب طلبا اپنا تصور بنا چکتے ہیں تو وہ انہیں کہتا ہے اب ”جو خدا نہیں ہے“ کو پینٹ کرو ملاحظہ کیجیے :
” کیا پہلی ڈرائنگ خدا کی ہے، دوسری ڈرائنگ جو خدا نہیں ہے، کو ابھارتی یا خارج کرتی ہے؟ آزر نے کہنا شروع کیا، ایک لمحے کے لیے سوچیے خدا جو قادر مطلق ہے ہر طرف موجود ہے۔ سب طاقتیں اور قوتیں اس کے لیے ہیں کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہی یا شی جو بھی وہ ہے برائی بھی اسی پہ مشتمل ہے یا یہ شر اس سے باہر کچھ ہے۔ ایک بیرونی قوت جس سے اسے (ہی یا شی ) لڑنا ہے اور خدا کیا ہے اور کیا نہیں ہے کے درمیان اصل رشتہ کیا ہے“ صفحہ 229
اسی طرح ایک موقع پہ آزر کہتا ہے:
” مختلف ڈسپلنز کو باہم بن کر دیکھو، نتیجہ نکالو، صرف مذہب پہ فوکس نہ کرو، بلکہ مذہب سے دور رہو یہ صرف منقسم اور گڑبڑ کرتا ہے، حساب، فزکس، میوزک، پینٹنگ، شاعری، آرٹ آرکیٹیکچر کی طرف جاؤ، خدا کی طرف مختلف اور دوسرے چینلز سے جاؤ۔“
پری اپنے پروفیسر کی طرف ملتفت ہو جاتی ہے مگر اس کے رویے بہت جگہ اسے ہرٹ بھی کرتے ہیں خاص طور پہ جب اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ تینوں شیریں جس کا تعلق ایران سے ہے، مونا جو مصری امریکن ہے اور وہ خود جس کا تعلق ترکی سے ہے؛ ایک گناہ گار، دوسری مومن اور تیسری کنفیوزڈ ؛ آکسفورڈ کے ہوسٹل سے ہٹ کر جس رہاش گاہ میں اکٹھی ہوتی ہیں دراصل یہ آزر کی تجویز اور ایک سماجی تجربہ ہے جس میں ان تینوں کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ جہاں بہت جگہ شیریں اور مونا کا تصادم ہوتا ہے تو وہ اس سے متنفر ہو جاتی ہے۔
سال نو کی تقریب میں آزر کی جانب سے مدعو پارٹی کے باہر ایک لڑکے ٹرائے سے اسے پتہ چلتا ہے کہ آزر اور شیریں کا باہم افیر ہے۔ یہ پری کو توڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے وہ خود کشی کی کوشش کرتی ہے، آزر کے خلاف ایک انکوائری تشکیل دی جاتی ہے جہاں بہت سے الزامات ہیں جس میں پری کی خودکشی کو اس سے منسوب کیا جاتا ہے اور شیریں کے ساتھ اس کا افیر زیر بحث ہے جہاں پری کی گواہی اسے بچا سکتی ہے مگر پری اس گواہی کے لیے نہیں پہنچتی۔ ناول کے آخر میں آزر کی زندگی کی کہانی کو بھی کھولا گیا ہے۔ ایک ایسا انسان جو خداؤں کی طرح مقدس و ماورا دکھتا ہے اس کی زندگی کی کہانی عام بشری کمزوریوں سے پر ہے۔
اور پری جس نے آکسفورڈ میں اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیا، تمام تر بغاوت اور پرعزم ہونے کے باوجود شادی کر کے بقول اس کے اپنی ماں کے جدید ورژن جیسی زندگی گزار رہی ہے، دعوت جس میں وہ پہنچتی ہے وہ حادثہ جس میں آکسفورڈ میں کھنچی گئی تصویر جس میں وہ تینوں لڑکیاں اور آزر موجود ہیں دعوت میں زیر بحث آتی ہے جو اسے یادوں سے باہر نکل کر شیریں سے رابطہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ شیریں سے رابطہ کر کے وہ تمام اعترافات کرتی ہے کہ وہ اس سے جیلس ہو گئی تھی۔
شیریں اسے پروفیسر آزر سے رابطہ کرنے کو کہتی ہے۔ اور جب وہ آزر سے رابطہ کرتی ہے تو وہ مینشن میں ڈاکوؤں کے حملہ کردینے کے باعث ایک الماری میں چھپی ہوئی تھی۔ آزر جو اس سکینڈل کے باعث اکسفورڈ کو چھوڑ چکا ہے اور اپنی تصنیفات میں خود کو گم کرچکا ہے، ان کے درمیان گفتگو حاصل مطالعہ ہے۔ مجھے دوران قرات یہ محسوس ہوا کہ مصنفہ نے در اصل الماری میں بند پری کو اس کے نظریات کی قید میں دکھایا ہے۔ جس میں بند وہ خدا کو دیکھتی ہے۔
ناول ایک مضبوط اور عمدہ کہانی کے ساتھ خدا کی طرف، خدا کے مطالعے کے بغیر تمام تعصبات حتی کہ مذہب کو بھی خارج کر کے دیکھتا ہے۔ یہ ایک عمدہ کاوش ہے جو آپ کے ذہن کو کئی سوالات کی جانب مائل کرتا ہے۔ اس عمدہ ناول کا اردو میں ترجمہ ہونا چاہیے۔
سیمیں کرن