اردو افسانےاردو تحاریرخواجہ احمد عباس

آشیانہ

ایک اردو افسانہ از خواجہ احمد عباس

آشیانہ

مہندی آخر آدمی تھا، جو رات آشیانہ میں لوٹا، رندھیر اس رات کو گھر نہیں آیا تھا، وہ اکثر رات کو گھر نہیں آتا تھا، مہندر نے اندھیرے میں ٹٹول کر بجلی کا بٹن دبایا لیکن روشنی نہیں ہوئی شاید آج پھر فیوز اڑ گیا تھا، آشیانہ میں اندھیرا تھا مہندر نے کسی کو آواز دی اسے معلوم تھا کہ باقی سب چھت پر سوئے ہوں گے، درمیان کے دروازے سے گزر کر وہ اندر کمرے میں چلا گیا، جہاں گلی کے لیمپ پوسٹ کی روشنی آتی تھی، آشیانہ بلڈنگ کا یہ فلیٹ ایک کمرے اور کچن پر مشتمل تھا اور اس میں پانچ نوجوان رہتے تھے مہندر جس وقت بھی مکان کے اندر آتا تھا یہاں کی بے ترتیبی اور سامان کی بھیڑ کو دیکھ کر اسے جگہ کی قلت کی ایک گھٹا ہوا احساس ہوتا تھا چھ مہینے یہاں رہنے کے باوجود یہ احساس زائل نہ ہوا تھا وہ اس کا عادی نہ ہوا تھا۔

گلی سی آتی ہوئی لیمپ پوسٹ کی روشنی میں وہ کپڑے بدلنے لگا کمرے میں ایک ہلکی سی روشنی تھی جس سے سامان کی زیادتی کا احساس ہوتا تھا کواڑوں پر کھونٹیوں پر زمین پر پڑے ہوئے میلے کپڑے بے ترتیبی سے بکھرا ہوا سامان جوتے، کتابیں، ٹرنک، سب اس طرح پھیلے ہوئے تھے جیسے کسی کو ان کی پروہ نہ تھی ایک عجیب سی بے پروائی اس فلیٹ کے رہنے والوں پر چھائی ہوئی تھی، جسے مہندر اب آہستہ آہستہ سمجھنے لگا تھا، اس فلیٹ کے رہنے والے پانچوں نوجوان اپنی زندگی کی بہتری کیلئے ایک بھیانک کشمکش میں مبتلا تھے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بمبئی آئے تھے، اس چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے جو صرف ایک جوڑے کیلئے بنایا گیا تھا، پے در پے ناکامیوں نے انہیں بے پرواہ بنا دیا تھا انہیں ذمہ داری سے نفرت ہو گئی تھی سلیقے سے نفرت ہو گئی تھی انہیں اب نہ صفائی کی چاہ رہی تھی نہ ترتیب کی، مہندر ان لوگوں میں ابھی نیا تھا اور اس ماحول میں ایک گھٹن سی محسوس کرتا تھا وہ ادیب تھا اور فلم میں نوکری کرنے آیا تھا، لیکن پچھلے چھ مہینے کی کوشش کرنے کے باوجود کسی پروڈیوسر نے اسے موقع نہ دیا تھا، آج وہ خوش تھا آج ایک دوست نے اسے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کے لئیے کچھ کرے گا، اور آج اسے ایک لڑکی ملی تھی، کپڑے بدل کر اس نے سوچا کہ اب جا کر اوپر چھت پر سو رہے ہیں، لیکن اس وقت وہ اکیلا رہنا چاہتا تھا، اکیلا رہ کر سوچنا چاہتا تھا، مستقبل کے بے پایاں اندھیرے میں جو ایک چراغ کی لو اٹھی تھی اس سے محفوظ ہونا چاہتا تھا، بستر کو جھاڑ کر اس نے کھڑکی کے سامنے کھینچا اور لیٹ گیا، باہر ناریل کے اونچے اونچے درخت ہوا میں بل رہے تھے، اور ان کے عقب میں آسمان پر ایک ہلکی سی سفیدی پھیلی ہوئی تھی، ناریل کے درختوں کو دیکھ کر اسے خوبصورتی کا احساس ہوا آج اسے کئی ملی تھی۔

شام وہ اداس تھا آشیانے کے دوست باہر گئے ہوئے تھے، وہ اکیلا تھا، تنہائی میں اکثر اس کے دل میں اداسی کا بے ذائقہ تیزاب پھیل جاتا تھا، زندگی کی نا کامرانی ایک مغموم دھند بن کر چھا چکتی تھی، اس وقت وہ اکثر سمندر کے کنارے ٹہلنے چلا جاتا تھا، لیکن جب اداس ہو نہ ہو تو سمندر کی بے چین لہریں خوبصورت ہوتی ہیں، نہ شفق کے زریں حسن میں، وہ جاں بخش تازگی اور سمندری افق پر چھایا ہوا دھند لگا، اسے ایک بے پناہ ویست میں لپیٹ دیتا، اسے محسوس ہوتا کہ تمام کائنات ماتم میں ہے، یہ انسان کی دنیا دکھی ہے، اور رگ و پے میں کرب و اضطراب کی ایک دیر پا لہر دوڑ جاتی، زندگی سے مایوس ہو جاتی۔

شام وہ بہت اداس تھا، یہ کیوں ہوتا ہے کہ انسان ناکامیوں سے ٹکرا کر جان دے دیتا ہے، یہ کیوں ہوتا ہے کہ انہیں زندگی میں کبھی خوشی نہیں ملتی اور مسرت کی ایک کرن دیکھنے سے پہلے موت کے بیکراں اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں؟ یہ زندگی موت سے بد تر ہے نہ روپیہ پاس نہ عورت ہے نہ محبت ہے، نہ خوشی ہے، سمندر کا یہ حسن بیکار ہے، لہروں کا مسلسل شور بے معنی ہے، شفق کی سرخی بیسود ہے اس تہذیب کی دنیا میں روپیہ چاہئیے، روپے کے بغیر خوبصورتی متاثر نہیں ہوتی، حسن اثر نہیں کرتا، یہ چیزیں تمہارے لئے نہیں ہیں، نادار ہو کر تم دنیا کے دکھ کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے، تمام انسانیت کا دکھ تمہارے سینے میں سمٹ آتا ہے، آج وہ بہت اداس تھا اور سوچتا رہا اور اندھیرے کے ذرات فضا میں بھرتے گئے ناریل کے درختوں پر تاریکی چھاتی گئی، اور کمرہ ایک اداس بے مصروف سنسان اندھیرے میں معمور ہوتا گیا۔

اچانک اس نے ایک آواز سنی، کھنہ اسے نیچے گلی میں بلا رہا تھا، مہندر نے جھانک کر بالکنی سے دیکھا، کھنہ کے ساتھ کار میں دو خوبصورت لڑکیاں بیٹھی تھیں، لڑکیوں نے شوخ رنگ کے فراک پہنے ہوئے تھے کھنہ اوپر گیا تھا، اس نے مہندر کو ساتھ چلنے کی دعوت دی۔

وہ یونہی سیر کو جا رہے تھے، یہ لڑکیاں جو ہور پر ملی تھیں ایک بار مسکرائیں دوسری بار کہنے پر کار میں آ بیٹھیں، کھنہ اکیلا تھا لڑکیاں دو تھیں، دو مہندر کا ساتھ چاہتا تھا، مہندر ان کے ساتھ چلا گیا اور آج شام کتنی خوبصورتی سے گزری وہ اداسی نہ جانے کہاں غائب ہو گئی، ایک عورت کے قرب نے دل کی پژمردہ کیفیت کو دور کر دیا تھا، ریشمی کپڑوں کے نیچے اس اس کے جسم کا لمس تھا، اس کے جسم کی حرارت تھی، ملائمت تھی کچھ تھا، جس نے اس کی رگوں میں زندگی مضطرب لہر دوڑا دی تھی، پچھلی سیٹ پر اس کے ساتھ تنہا تھا اور کار باندرہ کے پل پر اڑ رہی تھی سمندر کا نیلا پانی، آسمان کی طرح نیلا تھا، دور ایک کشتی اپنے سفید بادبان پھیلائے جا رہی تھی ہوا اس پریتی کے بار آر رہے تھے، ساحل پر ناریل کے درخت کھڑے دور سے نظر آ رہے تھے جیسے ابھی اپنے بچپن میں ہوں، اور کار باندرہ کے پل پر بھاگی جا رہی تھی، پریتی نے آہستہ سے جھک اس کے کان میں کہا، آئی لو یو، مجھے تم سے عشق ہے، مہندر نے اپنا بازو اس کی کمر کے گرد ڈال دیا، اور پریتی اس کے قریب سمٹ آئی مجھے تم سے عشق ہے، تمہارے اس جسم نے عشق ہے جس کی حرارت میری روح میں جذب ہو رہی ہے، تمہارے اس فقرے سے جسے کہہ کر تم نے میرے سینے میں سوئی ہوئی اس شدت کو جگا دیا اور پریتی کے کمر کے گرد اس کا بازو کا حلقہ تنگ ہو گیا، وہ پریتی پر جھکا اس کے سرخ ہونٹوں کو چوم لینے کیلئے پریتی مسکرائی اور اس نے اپنا چہرہ ہٹا لیا، کار ساحل پر رک گئی، وہ کار سے اتر کر ساحل پر ٹہلنے چلے گئے، آج ساحل پر بھیڑ نہ تھی، سمندر کے وسیع کنارے پر صرف چند آدمی نظر آ رہے تھے، وہ ساحل پر ٹہلتے رہے، سورج غروب ہو چکا تھا، سمندری افق پر ایک ہلکی سی سرخی کا سایہ باقی تھا اور سمندر کی بسیط پر ننھی ننھی کشتیاں اپنے بادباں پھیلائے بہہ رہی تھی، پریتی باتیں کر رہی تھی، وہ باتیں کرتے رہے بے معنی باتیں مہندر کو برا لگا جب پریتی نے کہا یہاں سمندر کے کنارے سیر کرنے میں لطف نہیں۔

وہ کار میں بیٹھ کر سیر کرنا چاہتی تھی، وہ واپس کار میں آ بیٹھے، گھر سے چلتے ہوئے کھنہ نے پیٹرول ڈلوایا تھا، رات میں وہ کار میں بیٹھے سمندر کے کنارے کنارے بمبئی کی سڑکوں پر گھومتے رہے، مہندر خواہش کی آگ میں تپتا رہا اور پریتی نے اسے ہونٹوں کو چومنے کا موقع نہیں دیا، انہوں نے کیفے میں جا کر کھانا کھایا، پریتی اب جانا چاہتی تھی اس نے کہا ہمیں چھوڑ دو جہاں سے لیا تھا، کھنہ نے انہیں جوہو پر اتار دیا، پریتی نے اگلے دن ملنے کا وعدہ کیا اور کار سے اتر پھر مہندر کے کام میں کہا، آئی لو یو اور مسکراتی ہوئی چلی گئی۔

گھر آتے ہوئے کھنہ اور مہندر بحث کرتے رہے، یہ لڑکیاں کون تھیں کس طبقے سے تعلق رکھتی تھیں، بہت پڑھی لکھی نہ تھیں، انگریزی کے انہیں چند فقرے یاد تھے، ہندستانی ٹھیک سے بولتی نہ تھیں، ان کی زبان گجراتی تھی، اپنی زبان سے آگے انہیں کچھ بھی تو نہیں مانگا، پھر کچھ بھی ہو وہ خوبصورت تھیں، ایک شام ان کے ساتھ رہی تھیں، اور شام کا نشہ اب تک ان کے ذہن پر طاری تھا، اگر وہ طوائفیں ہی ہوئیں، مہندر نے بستر پر لیٹتے ہوئے سوچا کہ تو کم از کم اس کے متعلق تو انہوں نے ضرور دھوکا کھایا، وہ کھنہ کی کار پر ریجھ گئیں، لیکن اگر وہ اوپر جاتیں یہاں آ کر اس مکان کو دیکھ لیتیں تو پریتی کے ہونٹوں سے آئی لو یو نہ انہوں نے ضرور دھوکا کھایا، وہ کھنہ کی کار پر ریجھ گئیں لیکن اگر وہ اوپر جاتیں یہاں آ کر اس مکان کو دیکھ لیتیں تو پریتی کے ہونٹو سے آئی لو یو نہیں نکلتا، اگر وہ طوائفیں نہ ہوتیں تب بھی اس مکان کو دیکھ کر بات کرنا گوارہ نہ کرتیں، مہندر نے دوہرایا، ایک انسان جو نظروں میں اٹھا دیتی ہے، ایک کار نہ ہو تو انسان انسان نہیں رہتا، ایک کلرک ایک مزدور ایک سپاہی رہ جاتا ہے، پریتی نے سوچا ہو گا کار کے مالک کھنہ کا دوسر مفلس نہ ہو گا، اسے کیا معلوم کہ آشیانے کا ہر فرد اپنا سرمایہ ختم کر چکا ہے، اچھا ہوا وہ آشیانے میں نہیں آئی، ورنہ اس کا ہاتھ پریتی کے کمرے کے گرد نہ جا سکتا۔

چھ مہینے پہلے مہندر بمبئی میں وارد ہوا تھا تو اسے خواب میں بھی یہ خیال نہ تھا کہ رندیرے کی آشیانہ بلڈنگ مقابل ماہم پوسٹ آفس میں یہ حالت ہو گی، یہاں آ کر دیکھا کہ آشیانہ بلڈنگ میں اس کے پاس ایک کمرہ اور ایک کچن پر مشتمل ایک فلیٹ ہے جس میں پہلے ہی پانچ آدمی رہتے ہیں، وہ چھٹا آدمی تھا جو آشیانے میں رہنے کیلئے آیا۔

آشیانہ ماہم میں واقع ہے، ماہم شہر میں بد نام علاقہ ہے، لوگ کہتے ہیں ماہم کے ہر مکان میں ایک طوائف ضرور رہتی ہے، ان مکانوں میں زیادہ تر عیسائیوں کی آبادی ہے، شروع شروع میں مکانوں کی بالکونی سے لٹکتی ہوئی ہر عورت کی سانولی کالی یا بد صورت شکل دیکھ کر مہندر کو اس پر طوائف ہونے کا شبہ ہوتا، بمبئی آ کر اسے محسوس ہوا تھا جیسے وہ طوائفوں کے شہر میں آ گیا ہے اپنے اس احساس اسے جواز نہ ملتا تھا، وہ خوش تھا، کہ بمبئی نسبتا آزاد خیال شہر ہے، یہاں عورتوں کو گھروں کی چار دیواری میں گھونٹ گھونٹ کر نہیں رکھا جاتا، یہاں عورتیں بھی سمندر کے کنارے سیر کرنے جاتی ہیں، یہاں عورتیں بسوں میں ٹراموں میں، ریلوں میں سفر کتی ہیں، لیکن اکثر کسی عورت کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ طوائف ہے، طوائف کی اس کثیر تعداد کو دیکھ کراسے خیال آتا ہے کہ انسان جتنا زیادہ مہذب ہوتا جاتا ہے، طوائفیں بڑھتی جاتی ہیں، اور یونہی بڑھتی جائیں گی اگر عورت کو مرد اور مرد کو سرمایہ دار کے چنگل سے آزاد نہ کیا گیا۔

آشیانہ بلڈنگ کے ایک عرصے تک مہندر کیلئے ایک طلسم رہی تھی، کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس عمارت میں رہنے والے کیسے رہتے۔

ہیں کیا کرتے ہیں، فرشی منزل پر بائیں طرف ایک گجراتی رہتا ہے، خاموش بعید، مہندر نے آج تک کسی سے بات کرتے نہیں سنا بمبئی کے آدمی، وہ سوچا کرتا ہے ایک مخصوص تاجرانہ ذہنیت کے مالک ہیں وہ انسانی دوستی پر اعتقاد نہیں رکھتے، یہاں دو آدمیوں کے درمیان انسانیت کا رشتہ نہیں، رو پہلی تاروں کا رشتہ ہے، انسان کے جذبات بھی جنس بن گئے ہیں ہر شخص اپنی دھن میں مست ہے ہر شخص کو اپنی پڑی ہے ریلوں میں، بسو میں، ٹرامو میں، گاڑیوں، میں ہر جگہ لوگ اپنے مطلب سے چلے جا رہے ہیں، فرشی منزل پر یہ گجراتی اپنی بیوی اور ایک بچے کے ساتھ رہتا ہے، چند مرتبہ اس نے گجراتی کی بیوی کو کھڑکی کی سلاخوں سے لگے دیکھا ہے اس کا چہرہ زرد ہے، چہرے پر ایک عجیب بے رونقی چھائی رہتی ہے جیسے اس کی رگوں میں خون کے بجائے تیل بھرا ہوا ہو، شام ہوئے وہ ٹائیلٹ کرتی ہے، نہاتی ہے، شام سے پہلے اس نے گجراتی کی بیوی کو بھی ٹائلٹ کئے ہوئے نہیں دیکھا، دو دن میں جب بھی نظر آئی ایسا معلوم ہوتا جیسے ابھی سو کر اٹھی ہے، عمارت میں کسی اور سے گفتگو کرتے ہوئے بھی مہندر نے اسے کبھی نہیں دیکھا، اکثر اندھیرا ہونے کے بعد اوپر بالکنی میں کھڑا مہندر دیکھتا ہے کوئی کار کبھی وہ ٹیکسی ہوتی، کبھی ذاتی کار، گلی کے موڑ پر رکتی ہے، گجراتی اس میں سے اتر کر گھر آتا ہے، پھر چند منٹ بعد بیوی کار میں آ بیٹھی ہے کار چلی جاتی ہے۔

مہندر نے اکثر یہی ہوتے دیکھا اور ایک تجسس اس کے دل میں جڑ پکڑتا گیا، پھر ایک دن برابر فلیٹ میں رہنے والے پنجابی نوجوان نے بتایا کہ گجراتی کی بیوی طوائف ہے، اور گجراتی؟ وہ اس کا شوہر اور اپنی بیوی کا ایجنٹ بھی، مہندر کو یکلخت یقین نہیں آیا، پھر اسسے یقین آ گیا پھر غصہ آیا پھر رحم آیا۔

اس شخص کی وہ غیرت کہاں گئی، جو اس نے اپنے بزرگوں سے پائی تھی، وہ حمیت کہاں گئی؟ عزت کا وہ احساس کا جہنم میں جھلس گیا، جو انسان بنائے رکھتا، ایک دلال، ایک بھکاری، ایک فقیر بننے سے بچانا ہے، وہ کون سی منحوس ضرورت تھی جس نے سب کچھ نوچ لیا اور ذلت بھر دی مہندر نے سوچا ایک بھیانک حقیقت اس کے دل میں اجاگر ہونے لگی، بھوک، بھوک اور گجراتن کا بے رونق چہرہ اس کے سامنے آ گیا تھا یہ فرشی منزل کا پہلا فلیٹ ہے، اس میں ایک گجراتی رہتا ہے اور اس کی بیوی ان کے ایک بچہ ہے، گجراتی کے فلیٹ کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا ہے، یہ فلیٹ مالک مکان نے اپنے لئیے رکھا ہوا ہے، وہ صرف ہفتے کی شام کو آتا ہے، اس کے ساتھ عورت ہوتی ہے، یہ عورت ہمیشہ نئی ہوتی ہے، لیکن اس کی مسکراہٹ اس کے انداز اس کی روح ہمیشہ ایک ہوتی ہے، عورت مالک مکان کے ساتھ اندر چلی جاتی ہے، مالک مکان کی کار اگلی شام تک باہر کھڑی رہتی ہے اس کار کر کھڑا دیکھ کر مہندر کے دل میں بغاوت اور تشدد کا ایک شدید جذبہ اٹھتا ہے اور وہ بالکنی سے ہٹ کر کمرے کے اندر چلا جاتا ہے۔

دوسری منزل پر پہنچنے سے پہلے ایک کتا بھونکتا ہے، اس کتے کو دوامی خارش ہے، اس کی آنکھوں میں ہمیشہ کیچڑ بھری رہتی ہے آنے جانے والے پر وہ اس طرح بھنکتا ہے جیسے وہ اس کی تنہائی میں مخل ہوا ہو، مہندر نے اس کتے کو دوسری منزل سے ہٹ کر کہیں اور نہیں دیکھا یہ کتا بھونکنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا، چند بار بھونکنے کے بعد خود ہی سرنگوں ہو کر بیٹھ جاتا ہے، اسے دیکھ کے اکثر ایک ہمدردی سی ہوتی ہے، یہ کتا دوسری منزل کے اس عیسائی خاندان کا ہے مہندر کو اکثر خیال آتا ہے کہ یہ لوگ عیسائی نہیں پارسی ہیں، لیکن اسے کبھی کبھی یہ پوچھنے کا موقع نہیں ملا، شوہر بہت جلد اپنے کام پر چلا جاتا ہے اور بہت دیر سے واپس آتا ہے، دو تین مرتبہ کے علاوہ مہندر نے شاذ ہی اسے دیکھا ہو گا، لیکن اس کی وہ چند تصویریں ذہن پر مر قسم ہو گئ، ایک بار مہندر نے دیکھا تھا وہ عیسائی سیڑھیوں پر کھڑا خارش زدہ کتے کو پیار کر رہا تھا، اس کی آنکھوں میں اس وقت غمکساری، ہمدردی کا ایسا جذبہ تھا، کہ مہندر نے آج تک اسے بھول نہ سکا، مہندر کو دیکھ کر اس نے صرف ایک بار اپنی آنکھیں اٹھائیں اور پھر کتے کو پیار کرنے لگا وہ ایک نظر آج تک مہندر کے سینے میں محفوظ ہے جیسے وہ تمام دکھ تمام غم دل میں لئیے ہو۔

عیسائی کے کوٹ اور پتلون کو دیکھ کر ہمیشہ ایک مفلس کا احساس ہوتا تھا، اڑے ہوئے رنگ کی ایک سیاہ ٹائی ہمیشہ اس کے بشاشت سے محروم چہرے کو بے جان بنائے رکھتی ہے، عیسائی کے کئی بچے ہیں لیکن نجانے وہ کس طرح رہتے ہیں، کہ گھر کے اندر سے کوئی آواز نہیں آتی، عیسائی ہمیشہ ٹخنوں تک نیچا ایک فراک پہنچتا ہے اس کی جلد سفید ہے لیکن جسم پر گوشت نام کو نہیں ہے، اس وقت کوئی پاس سے نہ گزرے تو وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں جو اس کے بے گوشت چہرے پر اور بھی بڑی معلوم ہوتی ہیں، اٹھا کر دیکھتی ہے بے مقصد، بے معنی نگاہ اکثر اس کی گود میں ہوتا ہے، یا اس کا سایہ پکڑے پاس کھڑا ہوتا ہے، سبزی والے کی جانے کے دروازہ پھر بند ہو جاتا ہے، اکثر ایسا بھی ہوتا ہے، مہندر کے زینے پر چڑھنے کی آواز سے کر اچانک دروازہ اور اسے دیکھ کر پھر بند ہو جاتا ہے، اس وقت مہندر کو احساس ہوتا ہے جیسے یہ لوگ کسی کا انتظار کر رہے ہیں، کسی ایسے شخص کی جو آ کر اسے نجات دلائے گا، ان کے مقابل کے فلیٹ میں ایک مدراسن رہتی ہے مہندر اور اس کے دوستوں میں سے جو آخر میں باہر جاتا ہے، وہ فلیٹ کی چابی مدراسن کو دے جاتا ہے، مدراسن ایک بیوہ ہے اور اپنی تین جوان لڑکیوں بیٹے اور داماد کے ساتھ رہتی ہے، اکثر زینے پر چڑھتے ہوئے یا اترتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ مدراسن کے گھر میں لڑائی ہو رہی ہے، لیکن جیسے وہ کسی آنے کی آواز سن کر خاموش ہو جاتے ہیں پچھلے مہینے سے مدارس کا بیٹا پاگل ہو گیا ہے، وہ اب اکثر کھڑکی کی سلاخیں پکڑے کھڑا رہتا ہے۔۔۔۔ بے حس بے حرکت اور خلا میں اس طرح تکتا رہتا ہے اس جیسے اس کی نظریں جامد ہو گئیں ہوں، اس دیکھ کر اکثر دل پھر سے ایک موہوم سے ڈر کا سایہ گزر جاتا ہے، مدارس نے کنواری جوان لڑکی کو بھی دیکھ کر ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے، اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ہمیشہ ایک ایسا جذبہ ہوتا ہے یا وہ اپنے آپ آپ کو وجہ سے کمتر خیال کرتی ہے، اس سے زیادہ خاموش لڑکی آشیانے کے دوستوں نے کبھی نہیں دیکھی، اس سے عشق کرنے کا خیال ہی نہیں آتا، معلوم ہوتا ہے گویا اس سے عشق کرنا اسے سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے، آشیانے کا کوئی دوست اسے نظریں بھر کر نہیں دیکھتا مہندر ہری، رندھیر، گورکھ وغیرہ سب اوشا کو پھنسانے پر تلے ہوئے ہیں، اوشامدراس کی تیسری لڑکی ہے اور وہ مدراس میں اپنے خاوند کو چھوڑ کر چلی آئی، اوشا کا شوہر شرابی ہے، وہ خود شراب پیتا ہے اور اسے مارتا ہے اوشاکا اس کے پاس رہنا نہیں چاہتی اس کو اوشاکا سے سخت ہمدردی ہے، آخر یہ کہاں کی انسانیت ہے اک دن مہندر سب کے سامنے کہہ رہا تھا کہ ایک عورت اپنی جوانی کو یوں اجاڑ دینے پر مجبور کر دی جائے اس دن مدراسن کی نگہداشت سے خصوصاً ً بیزار تھا، مدارس اوشاکا کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتی ہے، اسے ایک لمحہ گھر سے باہر اکیلا نہیں رہنے دیتی چابی تک لینے خود آتی اسے اپنی اور بیٹی کی آبرو کا ڈر ہے، مہندر کہتا ہے عورت اس وقت تک دکھ اٹھاتی رہے گی جب تک اقتصادی طور پر سے آزاد نہ ہو جائے گی لیکن اوشاکا اقتصادی طور سے آزاد نہیں ہے وہ اپنے شوہر کے پاس اس سے پٹتی تھی اور اس سے بچنے کیلئے یہاں چلی آئی ہے، مہندر اور دوست کہتے ہیں اس کی زندگی تباہ ہو رہی ہے، اوشاکا کی آنکھوں میں صرف ایک مایوسی کی لکیر ہے۔

یہ مایوسی کی لکیر پریتی کی آنکھوں میں نہ تھی، اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، ایک خود اعتمادی جیسے وہ خود کو کسی کا دوست نگر نہ سمجھتی ہو، جیسے یہ احساس اس کی روح کو کچلنے کو موجود مہندر نے سوچا پریتی کی آنکھوں میں مایوسی کی لکیریں دور نہ ہوئی ابھی پریتی کی آنکھوں میں چمک ہے، اگر آج وہ آج آشیانے میں آ جاتی تو وہ دوبارہ بات کرنا گوارہ نہ کرتی مگر آج وہ آشیانے میں نہیں، کل وہ اسے جو ہو سر کل پر ملے گی، جب تک پریتی کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ وہ قلاش ہے، یہ دوستی قائم رہے گی مہندر اس دوستی کو قائم رکھنا چاہتا تھا لیکن اچانک اسے خیال آیا کہ اس کی جیب میں کل پریتی پر خرچ کرنے کیلئے روپیہ نہیں ہے وہ اس بات کو بھول گیا تھا حالانکہ یہ کانٹا شام اس کی روح میں کھٹکتا رہا، سیر کے دوران میں ہر مرتبہ کھنہ نے خود ہی بل ادا کیا تھا اور ہر بار مہندر نے شرم ساری محسوس کی تھی۔

ہر بستر پر بیٹھا رہا، اب وہ کل کی بات بھول کر آج کی بات سوچ رہا تھا اس کی جیب میں روپیہ نہیں ہے، کل رندھیرے نے کہا تھا کہ اسے کہیں سے روپیہ ملنے کی امید ہے اور اس امید میں کہ رندھیروں اس سے لئے ہوئے روپے ادا کرے گا، اس نے چند دوستوں کے ساتھ اپنی جیب شراب خانے میں خالی کر دی، اب وہ مفلس تھا اور رندھیر رات کو گھر نہیں آیا تھا، اسے رندھیر پر غصہ آیا اور اپنے اوپر کہ اس سے وقت کیا ہو گیا تھا، جب اس نے اپنا سرمایہ بانٹ دیا تھا، اسے اس وقت کیا ہو جاتا ہے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا۔

روپیہ اس کے پاس ہو تو کسی کے مانگنے اس نے انکار نہیں کیا، یہ نہیں کہ وہ کہہ دے نہیں دے سکتا یا اس کے پاس نہیں ہے، جیسے وہ اپنے دل کی گہرائیوں میں وہ سمجھتا ہو کہ یہ روپیہ صرف اس کی ملکیت نہیں ہے، جیسے اپنی روح کے نہاں خانے میں اسے اس بات کا شبہ ہو کر یہ روپیہ ایک مشترکہ ملکیت ہے لیکن اس وقت وہ مفلس تھا اور اسے غصہ آ رہا تھا کہ رندھیرے رات کو گھر کیوں نہیں آیا اور اب وہ کیا کریں اسے مہندر سے پیسے مانگنے پڑیں گے اس نے سوچا اب اسے مانگنے میں جھجھک نہ ہوتی تھی، وہ شرمندگی کا احساس کئے بغیر مانگ سکتا تھا لیکن چند مہینے پہلے ایسا کرتے ہوئے کوئی چیز اس کا ہاتھ پکڑ لیتی تھی، عزت، خود داری، شرم اس کی اجازت نہ دیتی تھی، اب نہ وہ شرم رہی تھی نہ وہ خود داری نہ وہ اپنی عزت اب وہ جھجھکتا نہ تھا، اب کوئی چیز ہاتھ نہ پکڑتی تھی، اکثر بستر پر جانے کے بعد رات گئے تک وہ آنکھیں بند کئے یہ سوچتا رہتا تھا کہ وہ کانٹا نکل گیا تھا اس کی شرم، عزت اور خود داری کا احساس زائل ہو گیا تھا، اس سے بھی لوگ مانگتے تھے وہ بھی خود کو اس سیلاب میں بہہ جانے سے روک نہ سکا۔

چند مہینے پہلے وہ گھر گیا تھا، اس نے اپنا گھر بیچ دیا تھا اس سے پہلے وہ بمبئی میں زندگی کا لطف اٹھانے آیا تھا، لیکن روپیہ جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا، بہت جلد ختم ہو گیا، ان دنوں وہ ایک وقت کھانا کھاتا تھا، لیکن اس نے کسی سے کچھ نہ کہا ان دنوں دل میں وہ کانٹا تھا جس نے اس سے مانگنے کے بجائے اپنا گھر بیچ دینے پر مجبور کر دیا تھا، وہ کانٹا اب کہاں گیا، وہ غیرت اب کہاں گئی، مکان بیچ کر وہ واپس

آیا تو اس کے پاس تین ہار روپے تھے وہ اس خرچ کرنا چاہتا تھا، اپنے اوپر لیکن دوستوں نے اس سے ادھار مانگا اور وہ انکار نہ کر سکا اور پھر شراب اور طوائفوں کے بستر اور عیاشی وہ روپیہ اب خرچ ہو چکا ہے دوستوں کے پاس ہے جو واپس کرنے کے قابل نہیں ہے، اچانک ہری کو خیال آیا کہ مہندر قرض نہیں دے گا، وہ پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ اس کی فضول خرچی کیلئے مہندر کے پاس روپیہ نہیں ہے وہ ہری سے کوئی کام کرنے کو کہتا ہے اور ہری کام نہیں کرتا ہے روپے ساتھ واپس آنے پر مہندر نے اس سے کہا تھا کہ اس موہوم ساڈراس کے تکت الشعور پر تسلط کئے ہوئے تھا، وہ نیند میں دیکھتا کہ کوئی اسے قتل کر رہا ہے، اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے وہ بچاؤن کیلئے گڑ گڑا رہا ہے، وہ پسینوں میں تر بتر پے اٹھ بیٹھتا ہے اور وہ ڈراؤنے خواب ہفتوں سائے کی طرح اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔

اپنے دل کی گہرائیوں میں اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ مر رہا ہے مرنے سے پہلے وہ زندگی کی تمام خوشی سمیٹ لینا چاہتا تھا عورتیں شراب ہنگامے اور تضیع یہ ضائع کرنے کی خواہش جو بظاہر خواہش نہیں تھی اس کی ہر حرکت پر حاوی ہے، وہ استعمال کرنے سے زیادہ ضائع کرتا ہے، جیسے تھوڑے عرصے میں چیزوں کی زیادہ سے زیادہ مقدار استعمال کر لینا چاہتا ہو، مہندر اس کی اس عادت سے نالاں ہے ہری یہ جانتا ہے بستر پر بیٹھے ہوئے اسے یقین ہو گیا کہ مہندر روپیہ نہیں دے گا کہہ دے گا کہ اپنی تاہ اندیشی کو خمیازہ بھگتو ہر کو لوگوں کا یہ رور اندیشی کا فلسفہ کھوکھلا معلوم ہوتا ہے وہ حال میں زندہ رہنا چاہتا ہے، اسے مستقبل پر یقین نہیں ہے، وہ کہتا ہے چند روز عیش میں جی لینا سال ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے سے بہتر ہے اسے زندگی میں صرف ایک خواہش رہ گئی ہے، وہ زندگی میں زندہ لوگوں کی طرح جینا چاہتا ہے۔

لیکن اپنی زندگی میں وہ کبھی بھی تو زندہ نہیں رہا، زندہ رہنے کیلئے کبھی اس کے پاس کافی روپیہ نہ تھا، اور روپے کے بغیر زندہ رہنا ممکن ہے، ایک نیم مفلسی کی حالت میں وہ جوان ہوا تھا، پھر ایک خاندان کا بوجھ اس کے کندھوں پر آ پڑا، وہ زندگی میں بڑے بڑے ارادے لے کر آیا تھا لیکن سب دیکھتے دیکھتے ایک خواب کی طرح پریشان ہو گئے، اس کی صحت ایک کھنڈر ہو گئی تھی اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ زندگی کے کنارے پر آ گیا ہے اور آگے موت کے سیاہ تاریکی ہے، وہ مر جائے گا اور زندگی ختم ہو جائے گی، دل کی دھڑکن رک جائے گی، وہ خود کو موت کے اندھیرے میں کھودے گا، اور یہ سب کچھ اسے زندگی کو دیکھنے سے پہلے ہو جائے گا، اسے یہ معلوم کہ مسرت اور خوشی اور آرام کیا ہوتا ہے، عورت کے ہونٹوں کا شہد اس کے سانسوں کی خوشبو اس کے جسم کی حرارت کیا ہوتی ہے، وہ مر جائے گا، ان چیزوں کو جانے بغیر، اس گھر میں جہاں کوئی کبھی زندگی سے ہم آغوش نہیں ہو سکتا جہاں موت ایک بھیانک بیل کی طرح اس کے رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی ہے، اس نے یہ گھر چھوڑ دیا، اس گھر سے دور بمبئی آ گیا تھا، یہاں وہ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا، اور آشیانے کے دوست کہتے تھے، وہ کوئی کام کیوں نہیں کرتا، اکثر تنہائی میں وہ خود سوچتا ہے کہ وہ کام کیوں نہیں کرتا اکثر تنہائی میں وہ بیٹھ کر وہ آئندہ زندگی کیلئے پلان بناتا ہے، سوچتا ہے کہ زندگی کو سنوار کر ٹھیک راہ پر لے آئے، مگر یہ ہوتا نہیں، وہ کام کرنے سے بھاگتا ہے جسے یہ خیال ہو کہ جب زندگی باقی رہے تھوڑی ہے تو کام سے کیا فائدہ جیسے اسے کام کی بے مصرفی کا یقین ہو گیا ہو، روپیہ اب اس کے پاس ختم ہو گیا ہے یا مقروض دوستوں کے پاس ہے اس پھانسی کیلئے اسے کو ہی رسی بننی پڑے گی، اکثر بالکونی میں کھڑا ہوا ڈر کر پیچھے ہٹ جاتا ہے کہ کہیں وہ خود کو نیچے نہ گرا دے پچھلے کچھ دنوں سے خیال بار بار اسے خوفزدہ کرنے لگا کہ وہ خود کشی کر لے گا، دل ہی دل میں وہ دوبارہ اس روح کو قبض کرنے والی کشمکش میں جانے سے کانپتا ہے جس سے بھاگ کر آیا ہے، وہ رندھیرے پر کھولتا ہوا بستر پر بیٹھا رہا جو رات گھر نہیں آیا تھا، اسے پھر مہندر سے پیسے مانگنے پڑیں گے۔

مہندر کی آنکھ کھل گئی تو آنکھ کھلتے ہی اس کا پہلا خیال پریتی تھی، پھر اس نے ہری کو دیکھا جو بستر پر بیٹھا تھا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ روپے کیلئے ہری سے استفار کرے، برابر کے فلیٹ میں رہنے والا پنجابی نوجوان آ گیا پھر اور سب جاگ گئے اور صبح کی مجلس شروع ہوئی صبح کی مجلس رات کی مجلس یا جس وقت بھی یہ جمع ہوتے ہیں، مطلب ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا تھا، ایک دوسرے پر فقرے کسے جاتے تھے، ایک دوسرے کے نشتر چبھوئے جاتے تھے اور اس میں انہیں ایک مخصوص سا اذیت پرستانہ لطف محسوس ہوتا تھا، یا پھر گفتگو کا یاک وعسر پہلو تھا جس میں پارسی لڑکیوں کی پنڈلیاں مرہٹی عورتوں کی چھاتیاں اور ایک دوسرے کی شکل و صورت پر حملے ہوتے تھے جسے مذاق کہا جاتا تھا، مذاق کی یہ قسم مہندر سے شروع ہوتی تھی اور وہ خود خوش شکل تھا، اور دوسروں کے کم خوبصورت چہروں کو مسخ کرنے میں اسے ایک طفلانہ خوشی محسوس ہوتی ہے، اکثر اپنی اس خوشی پر وہ راز دارانہ طور پر شرمندہ ہو جاتا ہے، لیکن مذاق کی یہ قسم جو چل نکلی تھی ختم ہونے میں نہ آئی تھی۔

سامنے کے فلیٹ میں رہنے والے پنجابی نوجوان کو اس چشمک سیکھنے میں مزہ آتا تھا، دفتر جانے سے پہلے اپنا وقت وہ آشیانے میں

گزرتا ہوا ہے، صرف پیڑ جی ایک ایسا شخص ہے جو اس ہنگامے میں ایک خاموش تماشائی کی حیثیت رکھتا تھا وہ کسی سے کچھ نہ کہتا تھا کوئی باریک سا نشتر چبھ جائے تو مسکرا کر چپ ہو جاتا ہے اس مسکراہٹ میں غم کی ایک گہری لکیر ہوتی ہے جو اکثر دیر تک دل پر کھینچی رہتی ہے، نشتروں کا سب سے بڑا نشانہ گور مکھ ہوتا ہے، گورمکھ سردار ہے اور اپنے بال کٹوا چکا ہے، وہ اب خود کو سردار کہلانا نہیں چاہتا، مگر سب زبردستی اسے سردار کہتے ہیں، آشیانے کے دوستوں کو سردار کی جو بات سب سے زیادہ ناگوار تھی اس کی کی خود مرضی ہے اور اس کا حقارت آمیز رویہ۔

مہندر نے دیکھا کہ ہری آج معمول سے زیادہ خاموش ہے اسے شبہ اور یہ ڈر کہ شاید آج اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اس نے ہری کو اکثر اسی وقت اداس دیکھا تھا، جب اس کی جیب خالی ہوتی تھی، آج وہ خاموش ہے تھا، مہندر کو ڈر سا ہو گیا، اسے ہری سے پیسے لینے تھے، سر دار نے کہا، میں تنگ آ گیا ہوں تم لوگ اس آشیانے میں جانوروں کی طرح رہتے ہو، تو نکل جاؤ یہاں سے بھیڑ کم ہو جائے گی، ہری نے جل کر کہا، کہا جائے بے چارہ سر رک پر سائے گا کیا، مہندر نے لقمہ دیا سردار کو جلانے میں اسے خاصہ مزا آتا تھا، جہاں جی چاہے سوئے، ہری نے کہا پہلے بھی تو گورو دوارے میں سوتا تھا، نشتر سردار کے دل میں اتر گیا لیکن مہندر نے دیکھا کہ ہری آج خلاف معمول اپنی فتح پر مسکرا یا نہیں، ضرور اس وقت مفلس ہے، مہندر نے سوچا ہر کہ رہا تھا، نالی میں رہ کر امیر زادوں کی سی باتیں کرتے ہو، جیسے ہمیشہ محلوں میں ہی رہے ہوں اس کی تلخی میں آج مذاق کا شائبہ نہ تھا، سردار سن کر چپ نہیں ہوا، وہ کبھی جپ نہیں ہوتا تھا، بولے گیا، لیکن بات ختم ہو چکی تھی زہر اثر کر چکا تھا باقی دوستوں کو ایک پر لطف تسکین کا مزہ آیا تھا دنیا سے پائی ہوئی ساری ناکامی، ساری شکست ساری مایوسی کا وہ اس طرح ایک دوسرے کو مطعون کر کے انتقام لیتے تھے، جیسے دوسرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ کر وہ بارو کرانا چاہتے ہوں، کہ صرف ہم ہی دکھی نہیں ہیں ہم ہی زخمی نہیں ہیں، تم بھی اس کشتی میں سوار ہو۔

دیر تک یہ چشمک یونہی جاری رہی، مہندر نے کل کی داستان سنائی اور کس کو یقین نہ آیا، جیسے ایک لڑکی کا مہندر سے ملنا ممکن ہو، ایک معجزہ ہوا اور یہ معجزہ پر یقین کرنے کا زمانہ نہیں ہے، اتنے عرصے، بلکہ ہمیشہ عورت سے محروم رہنے کے بعد انہیں غیر شعوری طور پر یقین ہو گیا تھا کہ ایک عورت کا ملنا یا نا ملنا ممکن ہے انہیں مہندر کی داستان قابل یقین معلوم نہ ہوئی، جب انہیں یقین آیا تو سب نے ایک زبان ہو کر کہا وہ طوائف ہو گی، مہندر کے چہرہ پر ایک مسکراہٹ آئی جسے کوئی نہیں دیکھ سکا، جسے وہ خود بھی نہیں دیکھ سکا، پنجابی نوجوان کے دفتر جانے کا وقت ہو گیا تھا وہ اٹھ کر چلا گیا، پھر محفل برخاست ہو گئی اور بستروں پر بیٹھی ہوئی لاشیں اپنی ضروریات سے فارغ ہونے میں مصروف ہو گئیں۔

مہندر کو اتنی دیر میں یقین ہو گیا تھا کہ ہری کے پاس روپیہ نہیں ہے لیکن کسی دوسرے سے مانگنے سے پہلے وہ ہری سے پوچھنا چاہتا تھا، ہری اس کا مقروض تھا کتنے روپے ہیں تمہارے پاس؟ اس نے پوچھا ایک بھی نہیں ہری جواب دیا رندھیر نے کہا تھا وہ دے گا مگر وہ آیا ہی نہیں رات کو تم دو روپے مجھے میں تم سے مانگ رہا ہوں مجھے شام کو پریتی سے ملنا ہے، رندھیر نے آج لا دئیے تو تم مجھے سے لے لینا ہری نے کہا مہندر جانتا تھا کہ اگر اسے مل گئے تو ہری ضرور دے گا، اس نے خود کو امید دلائی کہ رندھیر روپے لے آئے گا لیکن پھر بھی روپے اسے رات سے پہلے نہیں ملیں گے، رندھیر رات سے پہلے نہیں آئے اور اس نے پریتی سے شام کو ملنے کا وعدہ کیا ہے، وہ شام کو پریتی سے مل سکے گا مگر اس کی جیب میں روپے نہ ہوں گے اور روپے کے بغیر کٹی سے ملنا بے معنی ہے، اور اگر شام کو پریتی سے نہ ملے کہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا تو یہ بھی ممکن ہے کہ پریتی آ کر لوٹ جائے اور اس کے بعد پھر اس سے کبھی ملاقات نہ ہو، یا اس وقت ہو جب وہ اسے بھول چکی ہو، اس شام کی یاد اس کے ذہن میں چھٹ چکی ہو، مہندر نے سوچا کہ وہ شام کو پریتی سے ملے گا اتنا کہنے لیے آج وہ بہت مصروف ہے اور شام اس کے ساتھ گزارسکتا ہے، وہ پریتی سے ملنے کو کہے گا، رندھیر رات کو پیسہ لے کر آئیے گا کل پریتی پر خرچ کر سکے گا۔

مہندر نے فیصلہ کر لیا تھا، ایک عجیب سی یاس وافر اس کے دل و دماغ میں پھل گئی، روپیہ جو نہیں ہے، روپیہ جو چاہئیے، روپیہ جس کے بغیر ہر کام بند ہے، روپیہ جو دوستوں کے درمیان تنہا رشتہ رہ گیا، در اصل پریتی نے ملنے سے زیادہ اس وقت اس کے دل میں اس یاس و افسردگی کی وجہ یہی تھی، ابھی چند لمحے پہلے ہری سے روپیہ نے ملنے پر دفعتاً اسے افسوس ہوا تھا کہ اس کے دل میں سے دوستی اور برادری کا جذبہ تفریق ہو گیا ہے، اور نا پسندیدگی اور نفرت رہ گئی ہے اپنے دل میں خود کو قصور وار سمجھتا تھا، اور وہ شام کو پریتی سے نہیں مل سکے گا، وہ شام کو کسی سے نہیں ملے گا۔

مہندر انتظار کر کے لوٹ آیا، پریتی نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا، وہ ملنے نہ آئی تھی، آشیانے کے دوستوں کو راز دارانہ طور پر ایک خوشی ہوئی، لیکن اس کی یہ خوشی مہندر کیلئے راز نہ رہ سکی، وہ اس خوشی کو جو انسان کے دانی ترین جذبات سے پھولتی ہے چھپا نہ سکے، انہوں نے مہندر کے ہتھیار اسی پر استعمال کئے، مہندر چپ رہا، وہ ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا جو اس کی شکست پر مسرور تھے اگر یہ اس کی اپنی شکست نہ ہوتی تو ان لوگوں پر رحم آتا، لیکن یہ اس کی اپنی شکست تھی، اور اسے ان لوگوں پر غصہ آیا، وہ غصے کو مذاق میں ٹال گیا، اور اسے بار پھر خیال آیا کہ یہ سب لوگ کمینے ہیں، یہ خیال اسے پہلے بھی کئی مرتبہ آیا تھا، لیکن ہر بار وہ اس بات پر محمول کر کے در گزر کر جاتا تھا، کہ یہ لوگ حالات کا شکار ہیں کہ محرومیت انسان کو ذلیل، حاسد اور کمینہ بنا دیتی ہے، یہ حسد کا جذبہ اس میں بھی ہے یہ کمینہ پن وہ خود بھی کرتا ہے، اسے بھی جاہل لوگوں کو کاروں میں عیش کرتے دیکھ کر آگ لگ جاتی ہے، وہ ابھی ایک بد صورت امیر کے پہلو میں ایک حسین لڑکی کو دیکھ کر جل گیا، اگر چہ یہ حسد ہے تو قدرتی ہے، اگر یہ کمینہ پن ہے تو ٹھیک ہے، لیکن آج ان لوگوں کو اپنی ناکامی پر خوش دیکھ کر وہ جذباتی علیحدگی سے فیصلہ نہ کر سکا، یہ لوگ کمینے ہیں کمینے آج چھت پر نہیں گئے تھے، یہیں کمرے میں بستر بچھا لیا، آج پھر شام سے ابر ہو گیا تھا، باہر ناریل کا درختوں اور ان سے پرے نظر آتے ہوئے گرجا گھر بادل چھائے ہوئے تھے، ممکن ہے پریتی بارش کے ڈر سے نہ آئی ہو، مہندر نے سوچا مگر شام کا ابرو اتنا زیادہ تو نہ تھا، یا ممکن ہے اسے کوئی اور مل گیا ہو اور کسی اور کار کا مالک، آج اس کمر کے گرد کسی اور کا بازو ہو گا، آج کسی اور کے کان میں جھک کر کہہ رہی ہو گی کہ مجھے تم سے عشق ہے، یہ عشق اس کے دل میں کہاں ہو گا، اس جذبے کو تو پیدا ہوتے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے، یہ جذبہ تو اسی دن اپنی تاریک قبر میں دفن ہو گیا، جب اس نے پہلی بار روپیہ قبول کیا ہو گا، وہ یہ محض تصور ہے، اس نے سوچا طوائف کے بھی دل ہوتا ہے، طوائف بھی محبت کر سکتی ہے، یہ محض دل کوش گن سوچ ہے، اس نے تردید کی لیکن وہ اس خیال کو ملتوی نہ کر سکا اور طوائف کی محبت ایک بیوی کی محبت سے بہتر ہے، اس نے سوچا طوائف روپے کیلئے محبت نہیں کرتی، وہ جب محبت کرتی ہے تو بدلے میں روپیہ نہیں چاہتی، ایک بیوی کی محبت ہمیشہ قیمت ہوتی ہے مہندر کو طوائفوں سے ہمدردی تھی، اتنی ہی جتنی اسے طوائف سے نفرت تھی اور پرستی کے نہ ملنے کے بعد اسے محسوس ہوا کہ چنگاری جو بجھ گئی تھی روشن ہو اٹھی ہے، وہ اب بھی کئی لبوں پر لب رکھنا چاہتا ہے، اس کے جسم میں جذب کرنا چاہتا تھا، اپنے جسم کو اس کے جسم میں کھونا چاہتا تھا، لیکن آج اس خواہش کا رنگ نیا تھا، آپ پریتی کے جسم کی غیر حاضری اس کیلئے ایک روحانی عذاب بن گئی تھی، پریتی کے جسم کا قرب اس کیلئے ایک روحانی راحت بن جائے گی، وہ پھر سے جی اٹھے گا، اس نے یہ بات سوچا آشیانے کے دوستوں میں نہیں کہے گا ورنہ انہیں مذاق اور نشتر اندازی کا ایک اور موقعہ مل جائے گا، یہ لوگ ایک دوسرے کے جذبات کو دکھانے میں پوری بے دردی کا ثبوت دیتے ہیں، منہ سے ایک بار کوئی بات نکل جائے تو منہ چھپانا مشکل ہو جاتا ہے، زہر کے ڈنک ہمیشہ تیار رہتے ہیں، اور پھر مہندر ان کے سامنے جذباتی اعتبار سے ننگا ہونا نہ چاہتا تھا، وہ چپ رہا، اب ٹھنڈی سانس بھر کر سو جاؤں، ہری نے بستر پر جاتے ہوئے کہا، یونہی مر جاؤ گے تم اور کوئی لڑکی نہیں ملے گی، کیوں خواہ مخواہ امید لگائے بیٹھے ہو، گورمکھ بولا، چیٹرجی ہمیشہ کی طرح خاموش رہا، وہ کچھ اور سوچ رہا تھا، لیکن مہندر خاموش نہیں رہ سکا، اندر جل کر اور باہر سے مسکراتے ہوئے بولا، جب تم جیسے کھٹ بڑھئی کی شکل کے آدمی امید کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہ کروں۔

سردار کچھ جواب دینا چاہتا تھا، لیکن زینے سے عیسائی کے کتے کی بھونکنے کی آواز آ رہی تھی، اور اس زینے پر ٹھوکر لگی اور یہ عیسائی کا کتا مجھے آتے جاتے بھونکتا ہے اس نے کہا، کتا اب بھی بھونک رہا ہے، رندھیرے چڑھتا رہا، وہ نشے میں تھا، رم کے پانچ پیک اس کے خون میں گھل چکے تھے، دارو ہار سے وہ ناکام ایکٹروں کے ساتھ شراب پی کر آیا تھا، آج اس نے بل خود ادا کیا تھا، چپ رہو عیسائی کے کتے اس نے سرگوشی میں کہا سونے والے جاگ جائیں گے اس نے دروازہ کھول دینے سونے والے جاگے ہوئے تھے، روپے لائے سالے؟ ہری نے داخل ہوتے ہی سوال کیا، زندگی چاندنی عورت کے سوا کچھ نہیں، رندھیر نے جواب دیا، وہ اتنا نشے میں نہیں تھا جتنا ہن رہا تھا، تمہارے چچا نے بھی دیکھی ہے عورت، گورمکھ بستر پر اٹھ بیٹھا تھا، چیڑ جی جو بیٹھا تھا، تھک کر لیٹنے لگا تھا، مہندر گالیاں دے رہا تھا، سب رندھیر کی اس عورت سے نالاں تھے، وہ اکثر رات کو کہیں نہ کہیں شراب پی کر آتا تھا، پھر آ کر سب کو جگا دیتا تھا، اتنے زور زور سے سرگوشیوں میں بات کرتا تھا، کہ برابر کے فلیٹ میں پنجابی نوجوان کی بیوی اپنے شوہر سے شکایت کرتی تھی، رندھیر صبح معافی مانگتا تھا، اگلی رات کو پھر یہ ہی کرتا، اگلی رات کو پھر یہی ہوتا تھا، اس نے گورمکھ کی بات نہیں سنی نہ مہندر کی گالیاں، وہ گنگناتا ہوا کپڑے اتار رہا تھا، کپڑے اتار اتار کر اس نے کمرے کے چاروں طرف پھینک دئیے جیسےہ انہیں پر نہیں پہنے گا، اور بالکل ننگا ہو کر بید کی کرسی پر بیٹھ گیا، وہ یوں بھی گھر میں انڈروئیر کے علاوہ اور کچھ نہیں پہنتا تھا، اور شراب پینے کے بعد تو اسے کپڑے اتار دینے کا خبط تھا، کپڑے اتار کر وہ سارے گھر میں پھرتا تھا۔

روپے جو اسے کل ملے تھے، اب اس کے پاس نہ تھے، سب شراب جانے میں ختم ہو گئے تھے، صبح اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہری کو بتایا کہ وہ روپے خرچ ہو گئے ہیں، کل شام اسے بچپن کا ایک دوست مل گیا تھا، وہ شملہ کی خوبصورت پہاڑیوں پر ساتھ کھیلتے تھے، مدتوں کے بعد آج اسے وہ بمبئی میں ملا تھا، اس نے اس کی خاطر کی تھی اور روپے ہوٹل کل بم اور شراب میں ختم ہو گئے تھے، ہری نے رندھیر کو گالیاں دیں، کہ میں بھوکا مر رہا ہوں اور تم لوگوں کو شرابیں پلا رہے ہو تمہیں شرم نہیں آتی ہے، اس نے اپنے اوپر قرض کے بوجھ کو سنجیدگی سے محوس کرنا چھوڑ دیا ہے قرض اس کیلئے ایک معمول سا ہو گیا ہے، اچھی طرح سوچ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ وہ شرم کو پامال نہیں کر سکتا، وہ اپنے ہر ایک واقف کار کا قرض دار تھا، کس کس کے سامنے شرم کرے، شروع شروع میں وہ شرمندہ ہوا تھا، شرم آتی تھی کہ وہ کا قرض دار ہے، لیکن پھر بھی وہ اس احساس سے باغی ہو گیا تھا، یہ اس کی زندگی اور موت کا سوال تھا، وہ قرض کے بغیر فاقوں سے مر جائے گا، یہ شرم بھی اسے زندہ نہیں رہنے دے گی، اور اس نے قرض لے کر اسے بھول جانا شروع کر دیا تھا، وہ قرض ادا کرنا چاہتا تھا، روپیہ اس کے ہاتھوں میں آتے ہی خرچ ہو جاتا تھا، جیسے وہ دوڑتا ہو کہ پیسہ اگر اس کے پاس رہا تو کوئی مانگ لے گا، اور اسے دینا پڑ جائے گا، خود خرچ کرنے کی اپنی عمیق ترین خواہش کے سامنے اسے ٹھوکریں کھانی ہیں، زلت کا احساس کرایا ہے، وہ کیا کرے اس شرافت کو لے کر اسے شرافت سے نفرت ہو گئی تھی، اب وہ نفرت بھی نہیں رہے ہے اب ہو بے پرواہ ہے۔

رندھیر بمبئی کے فلمی شہر میں ہیروں بننے کیلئے آیا تھا، وہ اپنا سارا وقت بمبئی کے نگار خانوں میں گزارتا تھا، اس نے ضمیر کا گلا گھوٹ کر پروڈیوسر کی خوشامد کی تھی اپنی روح کو ذبح کر کے ڈائریکٹروں کے آگے دست پھیلایا تھا، کہ زندگی کو ایک شاہراہ مل جائے وہ بہت اچھا ایکڑ تھا، لیکن کسی نے اسے موقع نہیں دیا، لوگوں نے اس سے وعدے کئیے اور اپنے وعدے وفا نے کئے، کسی نے کہا اس کا قد چھوٹا ہے، کسی نے کہا اس کی ناک لمبی ہے، یہ سب چھوٹ تھا، یہ سب بہانے تھے، وہ گوہر لال کے گنجے سر سر اچھا تھا، وہ الیاس کے ساہوکاری جسم سے بہتر تھا، وہ مدھوک کھور کے چوبی چہرے سے خوبصورت تھا، لیکن بزدل لوگ جن میں سے ہر ایک احساس کمتری کا شکار تھا، ایک نئے آدمی کو موقع نہ دینا چاہتے تھے رندھیرا ایکٹر نہ بن سکا، کسی نے اس کو کہا تم مکالمے لکھ سکتے ہو، رندھیر نے کہا میں ڈرامے لکھتا ہوں، اب کبھی کوئی اسے ایک گیت لکھنے کو دے دیا ہے، کبھی وہ فلم کے مکالمے کھلنے میں مدد کرتا ہے، لیکن کوئی اس سے یہ نہیں پوچھتا کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو رندھیر نے اٹھارہ برس کی عمر میں گھر چھوڑا تھا، اس نے اسٹیج کی خاک چھانی تھی، ریڈیو پر ٹھوکر کھائی تھی، لیکن کسی نے اس کے خواب کو نہیں پہچانا تھا، انسان کی صحیح قدر کب پہچانی جاتی ہے، وہ سوچتا ہے، یہ کب ہو گا، کیسے ہو گا، اسے اپنے تکمیل کا موقعہ ملے گا، یہ رات ختم ہو گی کب افق پر صبح کی سرخی نمودار ہو گی، لیکن رندھیر اب بھی نا امید نہیں تھا، ابھی نظروں کو افق پر وہ ستارہ جشن ہے، جس کے سہارے وہ اب تک جیتا رہا ہے، لیکن ان ٹھوکروں نے ان پے در پے اداسیوں نے پست خیال کر دیا تھا، اب وہ لوگوں کو خوش کرنا چاہتا تھا، وہ ایک مسخرہ بن گیا ہے، شروع شروع میں لوگوں کو اس سے لطف آتا تھا، رندھیر ایسی حرکات کرتا تھا، جن سے خواہ مخواہ ہسنی آئے، رندھیر شرابی کا پاٹ ادا کرتا تھا، رندھیر نے چارلی چپلن کی نقل کرہا تھا، رندھیر بس میں بیٹھی ہوئی کسی لڑکی سے اپنے ناکام معاشقے کا مزاحیہ انداز میں ذکر کرہا ہے اور ہاہاہاہاہی ہی ہی لوگ خوش ہوتے تھے اور کسی کو اس تماشے کے عقب میں اس ٹریجڈی کی جھلک نظر نہ آئی تھی لیکن اب لوگوں نے اس کے تماشے سے بھی محظوظ ہونا چھوڑ دیا ہے، رندھیر کا جوکروں والا رویہ ان کے اعصاب پر سوانے ہونے لگتا ہے۔

شارد گھوش رندھیر کیلے ایک محبوبہ ہے، ایک ماں ایک سرپرست ہے، شاردا گھوش کی بوتل سے شراب پیتا ہے، جب گھر نہیں آتا ہے تو ڈرائنگ روم میں اس کے صوفے پر سو جاتا ہے، ٹیلیفون پر پیغام وصول کرتا ہے، اور شاردا گھوش کی میز پر کھانا کھاتا ہے، کبھی اس میں اسے ایک فخر محسوس ہوتا ہے، کبھی ذلت، تحقیر شرمساری، لیکن وہ شارو گھوش کے آنچل کو چھوڑ نہیں سکتا، اسے شاردا گھوش سے عشق ہے اسے شاردا گوش سے امید ہے شاردا نے اسے مایوسی کے عمیق تاریک غار میں گرنے سے بچا لیا ہے، شاردا کی سفارش سے اس نے کسی فلم میں ایک گیت لکھا تھا، اس گیت کا کل اسے معاوضہ ملا تھا، وہ روپیہ کل ہی شراب خانے میں ختم ہو گیا تھا، گھر آتے وقت اس کی جیب میں ایک روپیہ چار آنے تھے، روپیہ اس نے صبح ہری کو دے دیا، اسے معلوم تھا کہ چار آنے میں وہ دن بھر گزارہ نہیں کر سکے گا، اپنے دل کے اندر اسے خود قصور وار ہونے کا احساس تھا، روپیہ اس نے ہری کو دے دیا، وہ خود کسی اور سے مانگ لے گا، مہندر سے مانگنا بیکار ہے، اس نے سوچا اسے غصہ آ رہا ہے اس کے پاس ہوئے بھی تو نہیں دے گا، مہندر کے پاس پیسے نہیں تھے، ہوتے بھی تو وہ اس وقت رندھیر کو نہیں دیتا، اس کا جی چاہ رہا تھا کہ رندھیر کو جی بھر کر گالیاں دے اس سے پہلے بھی وہ رندھیر کو اثر گالیاں دے چکا تھا، لیکن رندھیر نے ہمیشہ ہنس کر ٹال دیا تھا، یہ ہنسی ہنسی نہ تھی، مہندر کو احساس ہوتا تھا، جب احساس عزت مر جاتا ہے، اور خود داری مٹ جاتی ہے، ضمیر مردہ ہو جاتا ہے، تو اس کے مدفن سے یہ ہنسی پھوٹتی ہے، یہ ہنسی نہیں ہوتی، موت ہوتی ہے، اس ہنسی کو دیکھ کر مہندر ہمیشہ خاموش ہو جاتا تھا، آج بھی وہ خاموش ہو کر رہ گیا تھا، لیکن خلاف معمول آج بھی ایک غصہ اس کے دل میں کھولتا رہا، اگر رندھیر آج روپے ضائع نہ کرتا تو آج وہ پریتی سے مل سکتا تھا، وہ کل نہیں آئی تھی، ممکن ہے آج آئے، شاید وہ آج آئے گی اور اس کے پاس پھر روپیہ نہیں ہے، روپیہ اور کہیں سے نہیں مل سکتا، چیٹر جی خود کو ایک وقت کھانا کھاتا ہے، اس سے مانگنا بیجا ہے، سردار شاہد دے سکتا ہے مگر وہ سردار مانگنا نہیں چاہتا، اسے سردار سے نفرت ہے گورمکھ کے متعلق اس کے دل میں ایک ناپسندیدگی کا جذبہ جڑ پکڑ گیا ہے کئی بار اس نے اس جذبے کے زیر تحت اس نے گورمکھ کیساتی زیادتی بھی کی تھی، اپنی ان زیادتیوں پر وہ بعد میں شرمندہ بھی ہوا تھا لیکن گورمکھ سے نفرت اسی طرح موجود تھی، مگر وہ گورمکھ کا ممنون ہونا نہ چاہتا تھا، لیکن اور کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس نے سوچا اس سے مانگ کر دیکھوں شاید دیے دے، مگر جب جذبات کے ساتھ اسے مانگ رہا ہوں یہ کمینہ پن ہو گا، اس خیال آیا لیکن خود کو کمینے کے سپرد کر دیا، اس کے پاس دوسروں کو عیاشی کرانے کیلئے فالتو روپیہ نہیں ہے، اس نے سوچا تھا اور کہہ دیا تھا روپے کی ضرورت ہوتی ہے تو مجھ سے مانگتے ہیں، اس نے دفتر جاتے ہوئے زینے پر اسے اترتے ہوئے سوچا جیسے ہمیشہ میرے اور احسان ہی کرتے رہے ہیں گورمکھ لوگوں کی مہر بانیوں کو بھول کر ان کی زیادتیوں کو یاد رکھتا ہے، اسے لوگوں کی مہربانی اور ہمدردی سے نفرت ہے اور ان کی نا مہربانیاں اس کے دل میں نقش ہو جاتی ہے، اس اچھی طرح یاد ہے کہ پچھلے دنوں جب وہ خسرہ میں مبتلا تھا تو کوئی اس کے پاس نہ آتا تھا، کسی نے اس سے یہ تک نہ پوچھا تھا تم اٹھ کر پانی پی سکتے ہو یا نہیں، خود مہندر نے جو انسانیت چلاتا تھا اس کے ماتے پر ہاتھ رکھ کر یہ نہ پوچھا تھا کہ بخار کتنا ہے، اسے مہندر سے نفرت ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ مہندر کو اس سے نفرت ہے اور اسے قرض دینے سے انکار کر کے گورمکھ دفتر چلا آیا تھا، یہ محض اس کے دل میں ایک بہانہ تھا، در اصل وہ کسی کی مدد کرنا نہیں چاہتا، حسد نے اس کے تمام جذبات کو مغلوب کر لیا ہے۔

وہ خوش نہیں اور دوسروں کو خوش دیکھ کر جل اٹھتا ہے، وہ کسی کی خوشی حاصل کرنے میں مدد نہیں کر سکتا، وہ اب تک اپنی کوشش میں ناکام رہا اور انہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا کامیاب ہو، گورمکھ لاہور سے ناکام ہو کر بمبئی آیا، لاہور سے بی اے پاس کرنے کے بعد اس نے کوشش کی تھی کہ کوئی اچھی نوکری مل جائے زندگی میں الشان تمنائیں نہ تھیں، بس ایک خوبصورت ساگھر ہو، ایک خوبصورت سی بیوی اور اطمینان ہو، لیکن لاہور میں اسے یہ سب نہ مل سکا، دو سال کی کوشش کرنے کے بعد اسے محسوس ہوا تھا کہ لاہور میں اچھی نوکریاں زمیندار فرقے کو ملتی ہیں، گورمکھ نے کئی سال کوشش کی تھی لیکن ہمیشہ ناکامی نے اس کے چہرے پر طمانچے مارے تھے، لاہور سے مایوس ہو کر بمبئی والوں کو ملتی ہیں، گورمکھ بمبئی والا نہ تھا وہ پنجاب میں زمیندار تھا، بمبئی کا باشندہ نہ تھا، اسے غصہ آتا تھا کہ بمبئی اور پنجاب کی بیہودہ تمیز کیوں ہے، زمیندار اور بے گھر کی غیر منصفانہ تفریق کیوں ہے، وہ کہاں جائے وہ کیا کرے؟

شکست کھا کر وہ یہاں ایک آرڈینس ڈپو میں نوکر ہو گیا تھا، یہاں وہ صبح آٹھ بجے گھر سے جاتا ہے اور شام چھ بجے واپس آتا ہے، اور تین روپے اسے معاوضہ ملتا ہے، وہ خوبصورت مکان جواس نے اپنے سپنے میں بنایا تھا مگر گیا، وہ حیسن لڑکی جو اس کے خوابوں میں ئی تھی مر گئی ہے اور گورمکھ سب کا دشن ہو گیا ہے، شام کو دفتر سے آنے پر وہ صرف کھانا کھانے تک کیلئے ہوٹل میں جاتا اور پھر واپس آ جاتا ہے، اس کی زندگی صرف ڈپو اور آشیانے میں بٹ گی ہے، آشیانے کے دوستوں کو تعجب ہوتا ہے کہ گورمکھ زندہ کس طرح ہوتا ہے، اسے سنیما کا شوق ہے نہ سیر کا، اسے کسی چیز سے دلچسپی نہیں رہی ہے وہ تو گھر میں اکیلا بستر پر لیٹا رہتا ہے یا ڈپو میں کام کرتا ہے، گورمکھ نے خود کو تفریح سے انتقاما علیحدہ کر لیا ہے، جو شے اسے مکمل طور پر نہیں ملتی ہے، اس کے ایک حصے سے فائدہ نہ اٹھا کر اپنے اوپر تکلیف انڈیل کر وہ دنیا سے انتقام لیتا ہے، آشیانے کے دوست اس کی خود غرضی سے تنگ ہیں کہ وہ کسی کے کام نہیں آتا ہے، جب وہ آسانی سے مدد کر سکتا ہے تب بھی نہیں کرتا، آشیانے سے اسے نفرت کرتا ہے، اس لئے وہ اور سب کو ناپسند ہے گورمکھ کے پاس بھی اب صرف نفرت رہ گئی ہے اور تلخی وہ بھی سب سے جلتا ہے اور مہندر کو قرض دینے سے انکار کر کے چلا آیا تھا، اس سے امید ہی یہ تھی، وہ کیوں مہندر نے سوچا پھر اسے جھنجھلاہٹ ہوئی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں دیگا، اس نے گورمکھ سے کیوں مانگا تھا وہ کیوں اتنا گر گیا تھا، کہ اپنے دل میں دوستی کے کسی جذبے کو محسوس کئے بغیر اس نے گورمکھ سے فائدہ اٹھانا چاہا تھا، یہ خیال گورمکھ کے انکار کرنے کے بعد اس چبھ رہا تھا، پہلے اس نے اس اسے ایک طرف ہٹا دیا تھا، لیکن اب وہ اس کیلئے ندامت محسوس کرہا تھا، اچانک اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کے جذبات پر ایک اور کی ملمع ہے اور اس کے نیچے وہ کمینہ ہے اور اسے خود غصہ آ رہا تھا، یہ بات اس کے ضمیر میں کھٹک رہی تھی، اس نے خو کو تسلی دی کہ ابھی ضمیر مردہ نہیں ہوا ہے اتنے عرصے سے واہ اسے بچاتا رہا ہے، لیکن آخر یہ ضمیر مردہ ہو جائے گا اور یہ قدرت بات ہو گی وہ حسب معمول سوچنے لگا، خیالات کے مطابق ڈھال لیتا ہے، کہ کمینہ پن، ذلت اور نائیٹ بنیادی طور پر انسان کی فطرت میں نہیں ہیں، اور حالات سنور جائیں تو انسان کی فطرت ان سے مبرا ہو جائے گی، وہ یہ سوچتا رہا اور اپنے قصور کا احساس اس کے ذہن سے دور ہوتا گیا، یہ نظام بدل جائے تو ابھی انسان کیلئے امید ہے، انسان پھر ایماندار، نیک اور امن پسند ہو سکتا ہے، دنیا پر ہر آن لرزتا ہوا یہ جنگ کا خطرہ ہو سکتا ہے طوائفیں پھر عورتیں بن سکتی ہیں اور پریتی۔۔۔۔ ۔۔؟

لیکن ابھی یہ نظام یونہی ہے ابھی پریتی کی محبت سکوں سے خریدی جائے گی اسے پریتی سے محبت ہے چاہے وہ سکوں کے ہی ذریعے کیوں نہ ہو اور اسے اپنانا چاہتا ہے اور وہ پریتی کو اپنا نہیں سکتا، شاید وہ شام کو نہیں جا سکتا، وہ شام کو نہیں جا سکتا، اب شام گزر چکی تھی کمرے میں روشنی کم ہو رہی تھی، اندھیرا بڑھ رہا تھا، آشیانے کے دوست باہر گئے ہوئے تھے، مہندر کو ایک رہائی کا احساس ہو رہا تھا، اس شکست کی حالت میں اس میں ہمت نہ تھی کہ ان نشتروں کو برداشت کر سکے آج اس کا جی چاہ رہا تھا کہ آشیانے کو چھوڑ کر چلا جائے، بمبئی کو چھوڑ دے، یہ خیال نیا نہ تھا، پہلے بھی کئی بار رہا آیا تھا، ناکام ہو کر گئی مرتبہ دل میں فرار کا جذبہ پیدا ہوا تھا، ناکام ہو کر گئی مرتبہ دل میں فرار کا جذبہ پیدا ہوتا تھا، ہمیشہ سے وہ اس ایک بزدلانہ قسم کی جذباتیات پر محمول کر کے مسکرادیا تھا، لیکن آج وہ مسکراہٹ ناپید تھی، آج وہ اس جگہ کو چھوڑنا چاہتا تھا اور در اصل یہاں سے جانانہ چاہتا تھا، ایک زیر نفسی ضد نے اسے بیزار کر دیا تھا، وہ نیم تاریک کمرے میں بستر پر نیم دراز پڑا رہا، مجھے تم سے عشق ہے، ممکن یہ سچ ہو، مگر وہ خالی جیب اس کے پاس نہیں جا سکتا تھا شاید اس حالت میں وہ پریتی کی نظر میں ایک بھکاری بن جائ ایک عاشق نہ رہے، وہ بیٹھا رہا اور وقت گزرتا گیا، پھر کسی نے دروازہ کھولا چیڑ جی اندر آ گیا، ابھی کیسے آئے مہندر نے مسکرا کر پوچھا، چیڑ جی اس کے ہاتھ میں دس دس روپے کے دو نوٹ گھما دئیے، یہ کیا ہے؟ مہندر سمجھ نہ سکا چیڑ جی ایک وقت کھانا کھاتا تھا، تمہیں روپے کی ضرورت ہے نا۔

مگر یہ تمہارے پاس روپے تھے؟ نہیں میں نے اپنی انگوٹھی گروی کر دی ہے، چیٹر جی نے مسکرر کر کہا، اس کی مسکراہٹ میں غم کی وہ پہلی لے کر تھی، جو دیر تک مہندر کے دل پر کھینچتی رہی، وہ انگوٹھی میں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا، مجھے ہوٹل والے کا بل دیتا تھا، وہ دونوں نوٹ اب تک مہندر کے ہاتھ میں لرز رہے تھے، اچانک مہندر کو محسوس ہوا کہ یہ نوٹ دو موتی ہیں، دو آنسو ہیں، خون کے دو قطرے ہیں اس نے نوٹ واپس چیٹر جی کے ہاتھ میں دے دیے، اس نے چاہا کہ چیٹر جی کو سینے سے لگائے مگر ایک عجیب سے حجاب کا احساس کر کے وہ یہ کر نہ سکا، اس نے صرف چیٹر کے کندھے پر ہاتھ رکھ دئیے تھے، مجھے ان کی ضرورت نہیں، اس نے مکسرانے کی کوشش میں کہا، انہیں تم اپنے پاس رکھوں تمہیں ضرورت ہو گی، اور چیٹر جی کو چھوڑ کر وہ بالکنی میں جا کھڑا ہوا، اب تک وہ چیٹر جی پر صرف رحم کرتا رہا تھا، آج اس کیلئے مہندر کے دل میں آنسوؤں سے ڈھلی ہوئی محبت پیدا ہو گئی، وہ جانتا ہے کہ چیٹر جی ہمیشہ زندگی کے درد میں شریک رہا ہے، اس نے خود خوشی کبھی نہیں دیکھی، کبھی راحت نہ اٹھائی چیڑ جی جواس کے بھائی نے فوٹو گرافی کا کام سکھایا تھا، بنگلا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اس کی دکان تھی، چیٹر جی اس قصبے کی دکان پر کام نہ کرنا چاہتا تھا، وہ زندگی میں عزت آرام اور خوشی چاہتا تھا، بمبئی کے ایک نگار خانے میں وہ کئی سال کا سیکھتا رہا اور سکی نے اسے کام نہیں سکھایا، وہ بنگالی تھا، یہاں گجراتی بنگالیوں سے نفرت کرتے تھے، مراہٹی گجراتیوں سے نفرت کرتے تھے، پنجابیوں سے نفرت کرتے تھے، یہ نفرت کی دنیا تھی، یہاں انسانی محبت نابود تھی چیٹرجی لیبارٹری کی بالٹیاں منجھونی یہ جاتی تھیں، اس سے قیلوں کی طرح کام لیا جاتا تھا، اور کوئی کچھ نہ بتاتا تھا، لیکن چیٹر جی نے ایک کتے کی طرح صبر سے کام لیا ایک جونک کی طرح غلاظت سے چمٹا رہا، لیکن اب کام سیکھنے کے بعد بھی اسے کوئی نہیں دیتا، کوئی اس کے کپڑے دیکھ کر بھوئیں چڑھا لیتا کوئی اسے بنگالی ہونے کی وجہ سے پاس نہیں آنے دیتا، چیٹر جی نے ٹھوکریں سہنا سیکھ لیا ہے اور وہ ہر ذلت ہر توہین ظلم برداشت کر لیتا ہے، وہ ایک وقت کھانا کھاتا ہے اور ہر ہفتے اس کا وزن کم ہو جاتا ہے۔

لیکن اس کے باوجود اس کے دم میں یہ حسن کیسے رہ گیا، مہندر سوچ کیسے اس نے اپنے دل میں اس انسانیت کو بچا لیا، اس کا یہ فعل ہر اس شے کا حامل تھا جو انسان میں خوبصورت ہے، لیکن چیٹرجی کے روپے نہ لے سکتا تھا، وہ پریتی پر روپے صرف کرنا چاہتا تھا۔

روپوں کو پریتی پر صرف کر کے وہ ہمیشہ خود کو مجرم سمجھتا رہے گا، یہ نہیں ہو گا اور اس کے پاس روپیہ نہیں ہے، وہ پریتی سے نہیں ملے گا، اور اس کے دل میں پھر وہی غیر محدود گہرا اندھیرا چھا جائے گا، بالکنی میں کھڑا ہوا اور وہ سوچتا رہا، باہر اندھیرا ہوا گیا تھا، اور بوندیں پڑ رہی تھیں، لیمپ پوسٹ کی دھیمی روشنی میں گل بے رونق پڑی تھی اور بارش کی بوندیں متواتر گیلی زمین پر پڑ رہی تھیں، کیچڑ کی چھینٹیں اڑاتی ہوئی مالک مکان کی کار گلی میں داخل ہوئی اور آشیانے کے آگے رک گئی، آج ہفتے کی رات تھی، مالک مکان کار سے اترا پر اس نے عورت کو ہاتھ پکڑ کر نیچے اتارا یہ پریتی تھی۔۔۔۔ ایک لمحے کیلئے مہندر کو یقین نہیں آیا، یہ عورت جو مالک مکان کا ہاتھ پکڑ کر کار سے اتری تھی؟ پھر اسے یقین آ گیا، پریتی مالک مکان کے ساتھ اندر چلی گئی، مہندر بالکنی میں کھڑا رہا، کار سڑک پر کھڑی رہی، ایک پیہم تسلسل سے بارش کی بوندیں نیلی کار پر پڑ رہی تھیں، جیسے آنسو برس رہے ہوں۔

٭٭٭

خواجہ احمد عباس

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button