دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا
رات کو سینہ بہت کوٹا گیا
طائر رنگ حنا کی سی طرح
دل نہ اس کے ہاتھ سے چھوٹا گیا
میں نہ کہتا تھا کہ منہ کر دل کی اور
اب کہاں وہ آئینہ ٹوٹا گیا
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
میرؔ کس کو اب دماغ گفتگو
عمر گزری ریختہ چھوٹا گیا
میر تقی میر