- Advertisement -

کچہری بس سٹاپ

سیّد محمد زاہد کا ایک اردو افسانہ

بھیڑ اور تنہائی۔ دونوں کا ملاپ بس سٹاپ پر ہوتا ہے۔ اس سٹاپ پر آج میرا آخری دن تھا۔ خدا نہ کرے مجھے دوبارہ ادھر آنا پڑے۔ لاہور کی آلودہ فضا، گاڑیوں کا گندا دھواں، شوراور ٹھنڈ، سارا دن سورج نظر نہیں آیا۔ لوگوں اور گاڑیوں کی دوڑ۔ زیادہ تر لوگ خاموشی سے بھاگتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دو چار لوگوں کی ٹولی بھی نظر آجاتی ہے جو باتیں کرتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔ کسی نہ کسی چہرے پر مسکراہٹ بھی مل سکتی ہے، ہنسی تو پورے شہر سے عنقا ہو گئی ہے۔ گرد و غبار، سموگ اور شاید دکھوں کی وجہ سے لوگوں کی آنکھوں میں خشک پانی تو مل جاتا ہے، کوئی روتا دکھائی نہیں دیتا۔ جو لوگ رونا چاہتے ہیں وہ خود کو گھروں میں یا اپنی گاڑیوں میں الگ تھلگ کرلیتے ہیں۔ میرا تو گھر بھی چھن گیا ہے۔ اگر رونے کی خواہش اچانک کسی پرحملہ کرے تو وہ کدھر جائے؟ اس حاجت کو رفع کرنے کے لیے عوامی بیت الخلاء ہی کام آ سکتے ہیں۔ سائکایٹرسٹ نے جو دوائیں تجویز کی ہیں وہ مجھے بیت الخلاء سے تو دور رکھتی ہیں، اداسی کو دور نہیں بھگاتیں۔

میری کہانی تو صبح ہی ختم ہوگئی تھی۔ کچہری سے نکل کر فاونٹین ہاؤس چلی گئی۔ ڈاکٹر کے پاس تو وقت کم ملتا ہے لیکن اس ادارے میں کام کرنے والی ایک سائیکالوجسٹ میری دوست بن چکی ہے۔ اس کی محنت ہی مجھے ان حالات میں سنبھالا دے رہی ہے۔ وہ موٹی موٹی کاجل بھری آنکھیں مٹکاتی سریلی آواز میں بات کرتی ہے تو دکھ بھول جاتے ہیں۔ اس دن جب خاتون وکیل نے مجھ پر بیہودہ الزامات لگائے اور میرا سابقہ خاوند بےشرمی سے مسکراتا رہا تو میں بہت روئی۔ کہنے لگی سٹیج ڈرامے دیکھا کرو۔ جس دن عدالت سے ہو کر جاؤ تین تین۔ وہ ایک دوسرے پر بھونڈے الزام لگاتے ہیں لیکن کبھی ان کو روتے نہیں دیکھو گی۔ وہ تو اس سے بھی زیادہ گھٹیا باتوں کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔

سمجھ لو یہ عدالتیں بھی لاہور کے تھیٹر ہی ہیں۔ جج ہدائیت کار، وکیل جگت بازاداکار جن کی دلیل الخلف حجتیں ذومعنی فقرے بازی کی طرح ہوتی ہیں اورسائلیں وہ تماشبین ہیں جو دولت لٹا کر، اپنی عزت اچھلتی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ان عدالتوں کے فیصلے کمزور عورتوں کو گندے القابات سے نواز کراس دنیا کی سٹیج پر نچاتے ہیں۔

تم یہ سوچ کر خوش ہو جاؤ کہ تمہیں طلاق دینے والا بھی اپنی دولت ان پر لٹا کر خود کو برباد کررہا ہے۔

آج میں اس کو بتا کر آئی تھی کہ عدالت نے مجھے مشکوک کردار کی حامل قراردے کردونوں بچے اس کے حوالے کر دیے تھے۔ آج اس ہجوم میں میں پھر اکیلی ہو گئی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ آج ڈرامہ الحمرا تھیٹر جاکر دیکھوں۔

ضلع کچہری بس سٹاپ پر بھی ڈرامہ ہی جاری تھا۔ پچھلے دو سال سے اس پر چلنے اور پلنے والے ہر کردار سے واقف ہو چکی تھی۔ دھند کے باعث سرشام ہی اندھیرا چھا گیا تھا۔ اتنی جلدی ہاسٹل جا کر کیا کرتی۔ سکول بند ہوجانے کے باعث سب ساتھی ملازم جا چکے تھے۔ پہاڑ جیسی رات اکیلی کیسے کاٹوں گی۔ ویگنیں بھی بھری ہوئی آرہی ہیں۔ میں آنکھیں جھکائے خاموش کھڑی ہوں۔ کبھی کبھار نظر اٹھا کر دیکھتی ہوں تو ہر طرف بہت سے لوگ سپاٹ چہرہ لیے کھڑے نظر آتے ہیں۔

سرخ بتی کے روشن ہوتے ہی بھاگتی گاڑیوں کو بریکیں لگ جاتیں اور تمام کردار حرکت میں آ جاتے ہیں۔ سڑک پار کرنے والے دوڑ پڑتےہیں۔ گاڑی صاف کرنے والے اپنی بوتل اور وائپر پکڑ کرگاڑیوں کے درمیان پہنچ جاتے ہیں۔ مانگنے والے بچے، عورتیں اور معذور مرد گاڑیوں کی قطاروں میں گھس کر شیشوں پرہلکی ہلکی دستک دینا شروع کر دیتے ہیں۔ عبایہ پہنے ہوئے جوان عورتیں بھی اپنا حصہ لینے پہنچ جاتی ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ وہ مجبور عورتیں ہیں جن کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ ہے اور انہوں نے دوسری بہت سی ملازم پیشہ خواتین کی طرح مردوں کی ہوس ناک نظروں سے بچنے کے لیے خود کو ڈھانپ لیا ہے۔ کچھ عورتیں ایسی بھی ہیں جن کے بھرے بھرے جسموں اور اٹھانوں کو یہ عبائے مزید خوشنما کردیتے ہیں اور ان کی تھرکتی مچلتی ریشمی لہریں آنکھوں کے اشاروں کے ساتھ مل کر کوئی اور ہی کہانی سناتی ہیں۔

میں اداس کھڑی اپنی تنہائی کو کوس رہی ہوں۔ انہیں سڑکوں پر کبھی وہ میرے ساتھ چلا کرتا تھا۔ بالکل اس جوڑے کی طرح جو سامنے ایک ہی سیل فون سے کھیل رہا ہے۔ دونوں سر جوڑے ایک دوسرے میں مگن ہیں۔ ابھی وہ چلتے چلتے ادھر پہنچ کر دیوار کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔ لڑکا نظریں گھما کر ادھر ادھر دیکھتا ہے پھر دائیں ہاتھ کی انگلی سے لڑکی کے رخسار پر پڑی لٹ کو پیچھے ہٹا کر اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہے۔ دونوں ہنسنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر اس کی کمر پر ایک ہلکی سی چپت لگاتا ہے اور دونوں چل پڑتے ہیں۔

ڈاکٹر نے مجھے پچھلی ملاقات میں مشورہ دیا تھا کہ اپنے دماغ میں منفی خیالات کو نہ پنپنے دوں۔ اس نے یہ نہیں بتایا تھا کہ جنسی خواہشات جو سرد راتوں میں ان جیسے جوڑوں کو دیکھ کر زبردستی دماغ میں گھس آتی ہیں، منفی سوچ ہیں یا نہیں؟ غالباً ایسے خیالات منفی مثبت کی درجہ بندی سے بلند ہیں۔ آج کے دن جب میں شکست خوردہ اجڑی کھڑی ہوں مجھے تو ان باتوں سے نفرت ہو جانی چاہیے۔ شاید میں اس ہار کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی، دواؤں کا اثر ہے یا کچھ اور بات کہ ایسی زبردست نفسیاتی تکلیف اور معاشرتی نقصان کے بعد بھی جنس کی خواہش موجود ہے۔

بس سٹاپ پر مجھے کھسروں کا کردار سب سے زیادہ انوکھا لگتا ہے۔ وہ دوسرے مانگنے والوں کی طرح روتے دھوتے، گندے مندے نہیں بلکہ رنگ برنگے، صاف ستھرے کپڑے پہنے اور میک اپ کر کے مسکراتے ہوئے مانگتے ہیں۔ ہر نئی شام نئے بناؤ سنگھار کے ساتھ تیار ہوکر مٹکتی چال چلتے اس سٹاپ پر پہنچ جاتے ہیں۔

زیادہ تر کافی تن و توش والے زنخنے ہیں۔ کچھ کے بارے گمان اغلب ہے کہ وہ مرد ہی ہیں جو کہ زنانہ کپڑے پہن کر، غازہ سرخی پوڈر لگا کر آ جاتے ہیں۔ ان میں ایک کریمی سفید ریشمی شلوار قمیض میں ملبوس دبلا نوجوان بھی ہے جس کی ادائیں خالصتاً زنانہ ہیں۔ اس کے ہونٹوں پر گلابی لپ سٹک اور آنکھوں میں ہلکی سی کاجل کی لکیر بھی موجود ہے۔ پرانے دور کے فلمی ہیرو تو اس سے زیادہ میک اپ کرتے تھے۔ سر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی سفید مانگ سے لٹکتے لمبے کالے سیاہ بال کندھوں کو چھو رہے ہیں۔ میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ وہ بہت کم گاڑیوں کی طرف جاتا ہے۔ سٹاپ پر ہی موجود پان چباتا رہتا ہے۔

آج وہ مجھے بار بار گھور رہا تھا۔ اندھیرا بڑھا تو وہ میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے دس روپے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔ بولا "نہیں میڈم! میں فقیر نہیں۔ محنت مزدوری کر کے کماتا ہوں۔”

"کیا کام کرتے ہو؟ ”

"گاڑی چلاتا ہوں اور کرایا لیتا ہوں۔”

"کیا؟” میں حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

"میری گاڑی ادھر کھڑی ہے۔ سیر کروا سکتا ہوں۔ ”

"سیر کا کیا لیتے ہو؟”

"شارٹ راؤنڈ کا پانچ سو اور لانگ کا دو ہزار۔” وہ بائیں آنکھ دبا کر بولا۔

میں اس کے رمز و ایما سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ پتا نہیں کیا سمجھا، بولا۔

"میڈم ابھی پانچ بجے ہیں، سولہ گھنٹے لمبی رات ہے۔ سوچ لیں۔”

یہ کہہ کر وہ اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا۔

میں سوچنے لگی۔ اس کچہری کے چکروں نے، بہتان و اتہام اور گندے القابات نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ اب تو عدالتی فیصلے کے مطابق برے کردار کی بھی حامل تھی۔

سوچتے سوچتے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ انتہائی پر اعتماد لہجے میں کولہے مٹکاتا اپنی گاڑی کی طرف جا رہا تھا۔ ٹریفک تیزی سے رواں تھی۔ گاڑیوں کی ہیڈ لائٹ میں اس کی کالی سیاہ زلفیں اور ریشمی پیرہن ستاروں کی طرح جگمگا رہا تھا۔

میں شادی شدہ زندگی گذار چکی ہوں۔ بھوگ بلاس کے سارے ڈھب پرکھ چکی ہوں۔ مجھے مردانہ حسن کے خد و خال ازبر ہیں۔ اب میں نے غور کیا، وہ مردانہ حسن کا شاہکار تھا۔

میری جیب میں دوہزار تھے یہ سوچ کر میں اس کے پیچھے چل پڑی۔

سید محمد زاہد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
گلناز کوثر کی ایک اردو نظم