- Advertisement -

پہلے تشخیص ۔ پھر علاج

اویس خالد کا ایک اردو کالم

پہلے تشخیص ۔ پھر علاج

محمود بن خالد دمشقی نے حضرت سلیمان بن عبد الرحمن ابو ایوب سے،انھوں نے ابن ابی مالک سے،انھوں نے عطاء ابن ابی ریاح سے، اورانھوں نے عبد اللہ ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اے مہاجرین کی جماعت!پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے۔اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو جاؤ۔(وہ پانچ باتیں یہ ہیں)پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں اعلانیہ فحش (فسق و فجور وزناکاری)ہونے لگ جائے،تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں،دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط،معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی ذیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں،تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ پاک آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے،اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا،چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالی ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے،وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے،پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمران اللہ تعالی کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے،اور اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے،تو اللہ پاک ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ: 4019)۔
حضرت ابی مالک اشعریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا،میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام کچھ اور رکھیں گے،ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے اور گانے والی عورتیں گائیں گی،تو اللہ تعالی انھیں زمین میں دھنسا دے گا،اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دے گا۔(سنن ابن ماجہ: 4020)۔ان دو احادیث کی روشنی میں اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ ہم پر یہ عذاب بلا وجہ نہیں ہیں۔اللہ کے حبیبؐ نے ہمیں جن کاموں سے اجتناب کا حکم دیا تھا وہ بدرجہ اتم آج ہم میں موجود ہیں۔پہلی بات فرمائی کہ جب فحاشی عام ہو جائے تو طاعون یا اس جیسی بیماریاں آئیں گی۔اور اب یہ فحاشی اتنی عام ہو چکی ہے کہ ہم اس بے حیائی کو اپنی رسم و رواج کا حصہ بنائے بیٹھے ہیں۔ہماری خوشیاں،ہماری محفلیں اب عریانی اور فحاشی کے بنا ادھوری لگتی ہیں۔عورت نے خود کو مردوں کی برابری کے چکر میں بے پردہ اور غیر محفوظ کر لیا ہے۔بے باکی سے ہر اشتہار کی زینت بنی بیٹھی ہیں اور اس کو اپنا کیرئیر اور ترقی سمجھتی ہیں۔ان کا حسن جتنی ذیادہ آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے اتنا ہی خود کو کامیاب تصور کرتی ہیں۔ دین کا کام کرنے والے تک فیشن پرستی کا شکار ہو چکے ہیں،ننگے سر والی عورتیں علماء کے انٹرویو کرتی پھرتی ہیں۔ تو دیکھ لیں نتیجتاًکیسی کیسی وبا پھوٹ رہی ہے۔مسجدوں میں جانے کا وقت نہیں تھا ناں تو یہ حال ہے کہ ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ اب حکماً مسجدوں میں جانے سے روکا جا رہا ہے۔دوسری بات فرمائی کہ ناپ تول میں کمی کرو گے تو قحط اور بدحالی آئے گی۔حکمرانوں کی ذیادتیوں کا نشانہ بنو گے۔ہزار گرام کی قیمت میں سر عام ڈنکے کی چوٹ پر نو سو گرام تول کر دینا اور ترازو میں یا تول کے باٹ میں ڈنڈی الگ سے مارنا معمولی بات ہے۔تو ایسے کون سی کوٹھیاں بن گئیں ہیں۔غریب سے غریب قابل ترس آدمی جو صبح سے شام تک جانوروں کی طرح محنت کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن بد نصیبی کی انتہا کہ کم تول کر یا گاہک کو اچھا مال دکھا کر برا دے کر اپنی کمائی حرام کر رہا ہے لیکن اس کا یقین بن چکا ہے کہ ایسے نہیں کرے گا تو پوری نہیں پڑے گی۔جان بچانے والی اددیات تک کو نہیں بخشا ہم نے۔ اور ہمیں وقتا فوقتا کسی نہ کسی چیز کے قحط کا سامنا رہتا ہے۔اب ان اشیاء کی بھی قلت ہوتی ہے جو کبھی ہماری درآمدات میں شامل تھیں۔اور حکمران اتنے بے پرواہ ہیں کہ مذمتی بیان بازی سے آگے کرنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔
پھر فرمایا صاحب حیثیت لوگ زکوۃ نہیں دیں گے تو آسمان سے بارش نہیں برسے گی۔اگر جانور نہ ہوں تو ایسی کرتوت ہیں ہماری کہ ایک قطرہ پانی نہ ملے۔گویا ہم اشرف المخلوقات ایسے ہو گئے کہ ان جانوروں کی وجہ سے ہمیں پانی ملے گا۔ بارشوں کا نہ ہونا یا بے وقت ہونا غذائی قلت کا موجب بن رہا ہے۔پھر فرمایا اللہ کا عہد توڑو گے تو دشمن مسلط ہو گا۔آج ہم سب جانتے ہیں کون کون سے دشمن ہم پر کس کس انداز میں مسلط ہیں۔اور ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی کیسی کیسی غلامی کر رہے ہیں۔

پھر فرمایا جب فیصلے قرآن کے مطابق نہیں ہوں گے تو اختلافات پیدا ہوں گے۔آج دیکھ لیں ہم اس کا بھی شکار ہیں۔اب بتائیں ہمارا دشمن کون ہے؟امریکہ،بھارت،روس،اسرائیل یا ہماری بد اعمالیاں،ہماری عیاشیاں،ہماری بغاوتیں۔درست علاج تب ہوتا ہے جب تشخیص ٹھیک ہو۔ہمارا بھی بڑا عجیب حال ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ہر مرضی بھی اپنی کریں اور اللہ پاک کے لاڈلے بھی ہم ہی رہیں۔ہم نے اللہ پاک کی ڈھیل کو سمجھا ہی نہیں اور منھ زور ہاتھی اور بے لگام گھوڑے کی طرح اپنی برائیوں پہ ڈٹ گئے بل کہ اور ذیادہ شدید ہو گئے۔
یہ تمام برے اعمال اللہ پاک کی ناراضی کا موجب بنتے ہیں اور ان سے جڑی تمام مصیبتیں بھی آقاؐ نے ہمیں بتلا دی ہیں اوران مصیبتوں کے عملی نقشے ہماری آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں۔تو اب دین میں کسی کوکیا شک ہے؟اب بھی ہم پر آنے والی آفتوں کی وجہ سمجھ میں نہ آئے تو پھر ہمیں کیسے شعور آئے گا۔ہمارا تو ایمان اور مضبوط ہونا چاہیے کہ ہمارا دین کتنا سچا ہے۔ایک ایک بات حق ہے۔جس رب نے ہمیں اپنے محبوبؐ کے زریعے اپنی ناراضی کی وجہ بتا کر اس سے منسلک عذاب سے ڈرایا ہے اسی کریم رب نے توبہ کا راستہ بھی دکھایا ہے۔اگر یہ سب آج دنیا کے سامنے سچ بن کر عیاں ہو رہا ہے تو توبہ اور اس سے جڑی رحمتیں بھی حق ہیں۔آج ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ پاک کی ناراضی کا اظہار ہو رہا ہے تو ہماری توبہ سے اس کی رحمتوں کا اظہار بھی ضرور ہو گا۔ آج ہر دروازہ بند ہو رہا ہے لیکن توبہ کا دروازہ آج بھی کھلا ہے۔اس دروازے سے داخل ہو جائیں توہر بیماری سے شفا پا جائیں گے۔ کورونا سے بچنے کے لیے ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل ضرور کریں اور صفائی کا خاص خیال رکھیں لیکن ساتھ ساتھ توبہ کا بھی اہتمام فرمائیں اور بحیثیت قوم عہد کریں کہ ایک ایماندارانہ اور پاکیزہ زندگی گذاریں گے۔کچھ بعید نہیں کہ وہ ذات غفور الرحیم ہے بندگان کو معاف فرما دے۔

اویس خالد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ادا جعفری کی ایک غزل