اچھوں کی تلاش
عدو ہے میر ا تو ہس کر نہ مجھ سے ہا تھ ملا
بغل میں رکھ کےچھری منھ میں رام رام نہ ہو
اچھوں کی تلاش و جستجو ہر عقلمند انسان کی خمیر میں ہے ۔ عالم ہو یا دانشمند ، سکالر اوراستاد ہو یا یونیورسٹی کا پروفیسر ، ماں باپ ہو یا علاقہ کے معززین اور مفکریں غرض سب کے سب یہ کہتے نظر آئیں گےکہ اچھوں کے ساتھ رہو!
ہم کو سمجھنے کے لیےہم جیسا ہونا ضروری ہے
ہمارا دیدار الگ ہمارا معیار الگ اور ہمارا پیار الگ
قرآن مجید جو ہم سب کی ہدایت کی کتاب ہے نےصاف لفظوں میں اعلان فرمایا ہے:
و کو نوامع الصادقین ! سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ! اچھوں کے ساتھ ہو جاؤ ! حقیقت پسندوں کے ساتھ ہو جاؤ حق پرستوں کے ساتھ ہو جاؤ ! خوش نصیب ہیں وہ افراد جنہیں کوئی اچھا آدمی ملے ،اچھا راہنما نصیب ہو اور اچھے دوست ملے۔ جن کو زندگی میں کوئی اچھا انسان مل گیا وہ دنیا وآخرت دونوں میں ترقی کرگیا۔ کسی بچہ کو اتفاق سے کوئی اچھا ماحول، اچھے استاد ،اچھے دوست اور اچھے ماں باپ مل جائے تو اس بچہ کی زندگی سنورجائے ! آج تک دنیا میں جتنے بھی انسان کامیاب ہوئے ہیں وہ انہی عوامل کی وجہ سے کامیاب ہوئے ہیں ،لیکن دوسری طرف جن کی قسمت میں مشکلات ،مصیبتیں ، بد بختی اور ناکامی ہیں، وہ انہی عوامل کے نہ ملنے کی وجہ سے ہے کوئی شاد و نادر ہی ہو سکتا ہے جو پسر نوح بن جائے کوئی ایسا انسان جن کی خمیر میں شروع ہی سے نادانی و جہالت بھری ہوئی ہو وہ کہاں اچھے اثرات کو قبول کرتا ہے جن کی ذہن اور عقل بنجر ہو وہ کہاں آباد ہوتی ہے ؟بیوقوف ہیں وہ لوگ جو بنجر زمین میں کام کرتے ہیں یہاں کوئی امید کی کرن نہيں ہوتی ہے یہاں کوئی آباد ہونے کا تصور نہيں کر سکتا اسی لیے شاعر نے کیا خوب کہا ہے!
مجھے بنجر زمینیوں میں کوئی کام نہیں کرنا
دوسری طرف شاعر مشرق علّامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے :
نہیں ہے نا امیدی اقبال اپنی کشت ویران سے
ذرانم ہو تویہ مٹی بہت زرخیزہےساقی
یہاں پر انسانوں کے دو اقسام ہیں: ایک بنجر ذہن وخیال کے مالک اوردوسرا زرخیز
اب کون زرخیز ہے کون بنجر ؟
یہ خود اس انسان پر منحصر ہے کہ جس کو انتخاب کر رہا ہے جس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے ،کون بنجر قسم کا انسان ہے اور کون زرخیز ، روشن دل ،روشن فکر ، ہدایت پذیر ، نصیحت پذیر؟ یہ خود ایک وسیع موضوع ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں یا جن سے میں مخاطب ہوں وہ تو اتنا جانتے ہیں کون کیا ہے؟
میرا درد بھی یہی ہے میرا مرض بھی یہی ہے میرا دو ابھی یہی ہے کہ بھائی ؟ یہ لوگ جانتے ہوئے بھی سچوں کے ساتھ اچھوں کے ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ میرا سوال ہے ان عزیزوں سے! کیا ابو سفیاں پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم کو نہیں جانتے تھے؟ میرا نظریہ یہ ہے مکہ والوں میں نیچے سے لیکر اوپر کے سطح تک لوگوں میں سب سے زيادہ پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم کو ابو جہل و ابو سفیاں جانتے تھے۔ مخالفت کی اصلی اور بنیادی وجہ ریاست کے لئے خطرہ تھا۔ لہذا انہوں نے حق ، سچ ، اچھے کو چھوڑ کر ہر طور طریقہ سے پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کیں یہی چیز مسلمانوں کے تاریخ کا حصہ رہی کہ اپنی الّو سیدھا رکھنے کے لیے ہر جائز وناجائز طریقہ سے معاشرہ میں لگ جاؤ پھر دیکھا جائے گا ۔ یہ جو کر بلا میں عمر سعد نے کہا: میں نقد کوچھوڑ کر ادھا رکیوں لے لوں ! یہ آج کل کے اکثر مسلمانوں کامزاج ہے۔ جانتے سب ہیں مگر تجاہل عارفانہ کرتے ہیں! لہذا ہمیں چاہیے بنجر زمینیوں کو چھوڑ کر زرخیز زمینوں پر کام کرے ۔
اسی طرح کسی بھی قوم وقبیلہ کے لیے ایک نیک سیرت ، روشن فکر ، بااخلاق اور عقلمند انسان کی سرپرستی میسر ہو ۔ اس ضمن میں ہم دو زاویہ سے اس بات کی طرف توجہ اور بحث کا محور قرار دیتے ہیں ۔ ایک انفرادی جیسا کہ پہلے ذکر کیا ۔
اب ہم دوسری چیز میں اجتماعی پہلو پر بات کرتے ہیں ۔ہم ایک مسلمان ہونے کے حوالے سے قرآن مجید اور پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم وآئمہ معصومین علیھم السلام کے فرامین ہمارے ایمان کا بنیادی محور ہیں ۔یہاں پر معاشرے کی فلاح و بہبود ، اصلاح معاشرہ ،معاشرہ کی ترقی وکمال ،معاشرہ کی صحت وسلامتی ، معاشرہ کی نظم وضبط غرض ہر وہ چیز جو ایک معاشرہ کے لیے ضروری ہے اس کی بنیادی کردار اس معاشرہ کو چلانے، سرپرستی ،امامت ، صدارت سب کچھ اس فرد کی انتخاب پر منحصر ہے اگر آپ اس معاشرہ کی
ا مامت و خلافت ہو، صدارت اور ریاست ہو، الیکشن و سلیکشن ہو! ایک قوم کی ہدایت وضلالت کا دار ومدار ، ترقی وکمال صعود وسقوط ، صحت وسلامتی سب اس فرد و شخص پر منتج ہے جسکو اپ انتخاب کر رہے ہیں۔ یہ چھوٹے سے چھوٹا تنظیم سے لیکر پوری قوم وملت کی ضمام ونظام داری اس کے سپرد کر رہا ہےاگر یہ اچھا ، نیک ، سچا ، مخلص نکل آجائے تو ٹھیک ! وگرنہ ، برا ،جھوٹا، چور، مکار اور فاسق نکل آئے تو ۔
صنم میں تو ڈوباہی لیکن تم کو بھی لے ڈوبیں گے، کا مصداق بن جائیں گے؛ جیسا کہ ہم سب اس چیز کو مشاہدہ کررہے ہیں۔ اگر مجھے اجازت دیں تو عرض کروں گا: یہ صرف آج کل کی بات نہیں ہے بلکہ پوری تاریخ بشریت میں یہی چیز واقع ہوئی ہے۔ جسکو آج ہم نیچے سے اوپر تک دھرا رہے ہیں ۔ نام کے تو ہم سب قرآن وحدیث اور اچھی باتون کا اعلان اور پر چار کرتے ہیں لیکن جب کام کرنے پر آتے ہیں تو وہی کرتے ہیں جو اپنی قول وفعل ، ضمیر وجدان کے خلاف کرتے ہیں اپنی مفاد کے لیے اپنی آنا کے لیے اپنی شہوت کے لیے اپنی شہرت کے لیے! لہذا یہ جو قرآن میں سچوں کے ساتھ ہو جاؤ کہا ہے؟ تو مسلمان صرف باتوں کے حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر کو نومع الصادقین کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ سچوں کی اچھوں کی تلاش میں ہونا چاہیے!
اسی لیے حدیث میں بھی یہ بات آئی ہےکہ کسی کے پاس مال نہ ہونا فقراور غربت کی علامت نہیں بلکہ جن کے پاس عقل نہ ہو در اصل فقیر وغریب ہے ! لہذا ہر عاقل انسان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اچھوں کی تلاش میں رہے ! تو وہ خود بھی کسی نہ کسی وقت اچھاانسان بن جائےگا!
﴿لیس الانسان الا ما سعی ﴾
محمد حسین بہشتی