یہ دل باغِ سخن کے نام کر دیں لوگ
کہے جو تُو ترا ہر کام کر دیں لوگ
تری محفل سے اِن کو میں اٹھاتا ہوں
وگرنہ تو یہیں پر شام کر دیں لوگ
ہوس والوں کو شہرت کا خزانہ دیں
محبت والوں کو بدنام کر دیں لوگ
دکھائیں لڑکیوں کو خوش نما باغات
ہوس مٹتے بدن نیلام کر دیں لوگ
کبھی بتلا کے سرداری عطاء کر دیں
کبھی بتلائے بِن ہی عام کر دیں لوگ
یہی سوچوں کہ کب، کیسے، ہے یوں کیوں ہے؟
بچھڑتے ہی بپا کہرام کر دیں لوگ
خدا مجھ کو غزل ایسی عطا کر دے
جسے پڑھتے سحر سے شام کر دیں لوگ
عمر اشتر