آنکھ کھلتے ہی خواب یاد آیا
جھیل پر ماہتاب یاد آیا
جب بھی عہدِ شباب یاد آیا
عشق کا انتساب یاد آیا
اس کو پا کر یقینِ کامل کو
لمحہء مستجاب یاد آیا
مسکراتے ہوئے اسے دیکھا
مجھ کو کِھلتا گلاب یاد آیا
اس کے لہجے کی شادمانی سے
سازِ چنگ و رباب یاد آیا
آج ساون بھی ٹوٹ کر برسا
آج وہ بےحساب یاد آیا
مجھ کو کشتی تھما کے کاغذ کی
اس کو بپھرا چناب یاد آیا
یاد آئے اشارے نظروں کے
اس کا ہاں میں جواب یاد آیا
منزہ سید