- Advertisement -

لالچ

منیر انجم کا ایک اردو کالم

یہ اس وقت کی بات تھی جب میں سولہ برس کا تھا اور یہ وہ عمر ہوتی ہے جب انسان کا دل چاہتا ہے کہ میں اپنی مرضی سے سارا کچھ کروں ماں باپ بڑے بہن بھائی اور جو بھی بڑے سمجھاتے ہیں اس وقت انسان سنتا ضرور ہے مگر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے میرا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور میری ایک بہن تھی جو مجھ سے تین سال بڑی تھی میں اس وقت میٹرک کے امتحان کی تیاری میں تھا اور میری بہن ایف اے کر رہی تھی میرے والد بینک میں مینیجر تھے اور انہوں نے مجھے اسکول جانے کے لیے ایک موٹر سائیکل لے کر دے دی تھی اسی موٹرسائیکل پر میں سکول جاتا تھا اور اپنی بہن کو راستے میں کالج چھوڑ آتا تھا اے امتحان سر پر تھے تو میں نے اپنی بہن سے بات کی اور اس نے مجھے رات کو ایک گھنٹہ پڑھانے کی رضا مندی ظاہر کردی اسی کی مدد کی وجہ سے میٹرک میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا اور میرے ابو نے خوش ہو کر مجھے بینک سے لون لے کر ایک چھوٹی گاڑی دلوا دی اور مجھے گورنمنٹ کالج میں داخلہ مل گیا میری بہن نے ایف اے کرکے تعلیم چھوڑ دی تھی ۔کالج میں میرے نئے نئے دوست بن گئے میں کالج ٹائم کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ گاڑی میں گھومنے چلا جاتا کبھی فلم دیکھنے چلے جاتے کبھی کسی اور جگہ پہلے تو میں کبھی کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ جاتا تھا مگر پھر آہستہ آہستہ روزانہ کا معمول بن گیا
میری والدہ کو جب پتہ چلا کہ میں روز لیٹ گھر آتا ہوں تو انہوں نے مجھے سمجھایا بیٹا حالات ٹھیک نہیں ہیں باہر کی دنیا بہت بری ہے تم جلدی گھر آ جایا کرو مگر میں اپنی ماں کو کہتا ماں اب میں بڑا ہو گیا ہوں کچھ نہیں ہوتا اور وہ بچاری آگے سے چپ ہو جاتی اب تو دوستوں کے ساتھ میں شراب پینے لگ پڑا تھا میرے والد کو شاید یہ سب کچھ نہیں پتا تھا اور نہ ہی میری ماں نے کبھی بتایا تھا کیوں کہ وہ چھٹی والے دن گھر میں ہوتے تھے اور میں بھی اس دن گھر میں ہی رہتا تھا اور پھر وہی ہوا جس کا میری ماں کو ڈر تھا میرے والد کو کسی نے بتا دیا کہ آپ کا بیٹا غلط کاموں میں پڑ چکا ہے اس دن مجھے اتنی مار پڑی کہ میں دو دن تک کالج نہیں گیا پھر میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ تھوڑا ملنا جلنا کم کر دیا میری بہن کا ایک اچھے گھر سے رشتہ آیا اور میرے والدین نے اس کا رشتہ وہاں پر طے کردیا مگر لڑکے والوں کی ایک شرط تھی کہ ان کا بیٹا باہر ہے دو ماہ بعد وہ آئے گا اور اسی وقت منگنی اور شادی کر دی جائے گے میرے گھر والوں نے یہ شرط آسانی سے مان لیں اور شادی کی تیاری شروع کر دی ۔میرے امی اور میری بہن اکثر شاپنگ کے لیے چلی جاتی اور میں گھر میں اکیلا بور ہوتا رہتا پھر میں نے ایک دن اپنے دوستوں کو گھر پہ بلا لیا اس دن ہم نے جی بھر کر شراب پی مگر ایک دو ہفتوں بعد پھر وہی پرانا معمول بن گیا گھر سے جو جیب خرچ ملتا تھا اس پر اب میرا گزارا تھوڑا مشکل ہو رہا تھا تو میرے دوست نے مجھےایک پلان بتایا کہ اس سے پیسوں والا معاملہ حل ہو جائے گا پھر ایک دن سارے دوست اکٹھے ہوئے اور وہاں پر کچھ بات ہوئی اور میں پریشان ہو گیا کہ وہ ایک گھر کو لوٹنے کی بات کر رہے تھے میں بہت ڈر گیا اور میں نے انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہم جس گھر کو لوٹ رہے ہیں اس گھر کے افراد بہت کم ہیں اور ہمارے پکڑے جانے کے چانس نہیں ہیں اور اس چوری کے بعد ہم چوری نہیں کریں گے
میں وہاں پر بیٹھا ان کی ہاں میں ہاں ملاتا گیا میں بہت ڈر رہا تھا کہ اگر میں پکڑا گیا تو کیا ہوگا میری بہن کی شادی بھی قریب ہے طرح طرح کے خیال میرے ذہن میں آرہے ہیں پھر میں نے اپنے آپ کو حوصلہ دیا اس چوری میں میرا کام یہ تھا کہ میں نے اپنی گاڑی لے کر جانے تھی اور کار میں ہی بیٹھے رہنا تھا اور چوری کے بعد ایک مخصوص ٹھکانے پر اپنے دوستوں کو چھوڑنا تھا اور گھر واپس آ جانا تھا مگر اس میں سب سے بڑی پروبلم یہ تھی کہ چوری رات کو کرنی تھی اور میں رات کو کبھی گھر سے باہر نہیں نکلا تھا اور چوری کس دن کرنی تھی یہ ابھی طے نہیں ہوا تھا میری بہن کی شادی کے کارڈ چھپ پر گھر آ چکے تھے اور میرے والدین نے کارڈوں کو تقسیم کرنا شروع کر دیا تھا میری ایک پھو پھو تھی جو دوسرے شہر میں رہتی تھی اور وہ ہم سے ناراض تھی اور ناراضگی کی وجہ کہ وہ میری بہن کا اپنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگ رہی تھی مگر میرے والدین نے ان کو انکار کردیا تھا اس کی وجہ میری پھوپھو تھوڑی سی غریب تھی اور میرے کزن کی ایک شاپ تھی اور میرے والد چاہتے تھے کہ میری بہن کا رشتہ کسی امیر گھر میں ہو خیر خوشی کی بات یہ تھی کہ میری فیملی ان کو منانے دوسرے شہر جا رہی تھی اور اس دن میں گھر میں اکیلا رہنے والا تھا اور یہ بات میں نے اپنے دوستوں کو بھی بتا دی تو انہوں نے چوری کا پلان اسی دن بنا لیا اگلے دن میرے گھر والے میری پھوپھو کو منانے دوسرے شہر چلے گئے اور مجھے جاتے وقت یہ کہہ کر گئے تھے کہ گھر سے باہر نہیں نکلنا اور گھر میں ہی رہنا ہے اس رات کو سارے دوست میرے گھر پر آگئے اور ہم نے اس دن پھر شراب پی پھر میرے دوستوں نے بتایا کہ جس گھر میں ہم نے چوری کرنی ہے اس میں صرف دو افراد ہیں انکا بیٹا ملک سے باہر ہے اور وہ اگلے مہینے آنے والا ہے اس کی شادی ہے ان کے گھر میں کافی زیور اور نقدی بغیرہ ہیں میں شراب کے نشے میں تھا اور اس بات پر زیادہ غور نہیں کر سکا بہر حال پلان کے مطابق ہم رات کو نکلے اور اس گھر کو آسانی سے لوٹ کر واپس آگئے مجھے نہیں پتا تھا کہ میرے دوستوں نے اندر کیا کیا کیسے لوٹا میں باہر گاڑی میں تھا اور آدھے گھنٹے میں یہ سارا کام ہو گی pاتھا میرے دوستوں نے مجھے میرا حصہ دیا اور وہ چلے گئے اور ہمارے درمیان یہ طے پایا کہ تین چار ماہ ہم نہیں ملیں گے اور میں نے اپنے حصے کی رقم کو گھر میں کہیں چھپا دیا اور پھر سکون سے سو گیا اگلی صبح میرے والدین صبح صبح ہی واپس آ گئے تھے اور وہ بہت پریشان تھے اور ان کی پریشانی کی بات سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ جہاں پر میری بہن کی شادی ہونی تھی اس گھر کو رات کسی نے لوٹ لیا تھا اور انہوں نے شادی سے بھی انکار کر دیا تھا کہ اب ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی کر سکیں میں اپنے ماں باپ اور اور اپنی بہن کے روتے ہوئے چہروں کو دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میری وجہ سے میری بہن کا گھر بسنے سے پہلے ہی اجڑ گیا اور میں اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھا اور اسی دن میں نے اپنے ماں باپ کو سارا ماجرا بتا دیا اور میرے پاس جو رقم تھی وہ بھی ساری ان کو دے دی اور دوسری صبح پولیس نے میرے تمام دوستوں کو گرفتار کرلیا اور مجھے سچائی بتانے پر رہا کر دیا گیا اور میرے والدہ نے میری بہن کی شادی میری پھوپھو کے بیٹے کے ساتھ کر دی اس کہانی میں ہمیں دو سبق ملتے ہیں کے والدین جو کہتے ہیں ان کی بات کو ضرور ماننا چاہیے اور دوسرا امیری اور غریبی کے میں لالچ میں نہیں پڑنا چاہیے

منیر انجم

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم