جانوس
آندھی کے آثار تھے۔ دورشمال کی طرف آسمان زیادہ تاریک ہوگیا تھا اور فضا میں ہلکی سنسناہٹ تھی۔ ہوا کی رفتار تیزہوچکی تھی لیکن ابھی اس میں ناہمواری نہیں آئی تھی۔
اس رات بھی مجھ کونیند نہیں آرہی تھی مگر میں نے بستر پر لیٹ کر بجلی بجھادی۔ کمرے کا مشرقی دروازہ کھلا ہوا تھا اورکمرے میں باہر سے زیادہ اندھیرا تھا اس لئے باہر کا اندھیرا کمرے کے اندر روشنی۔ بہت مدھم، مگر روشنی کی طرح داخل ہورہا تھا۔ میری چوتھی کروٹ نے پھر میرا منہ مشرقی دروازے کی طرف کردیا۔ دروازے سے دوقدم آگے کھلے آسمان کے نیچے میرا قدآور کتا بُت بنابیٹھا تھا۔ میں دیر تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔ آندھی کے آثار شروع ہوتے ہی کتے کے کان رہ رہ کر پھڑکنے لگے تھے۔ وہ عام کتوں سے بہت بڑا تھا۔ مجھ کو یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ دوسال پہلے میں اسی کتے کو اپنے اوور کوٹ کی جیب میں رکھ کر لایا تھا۔
’’ہاؤنڈ!‘‘ میں نے آہستہ سے کتے کو پکارا۔
کتے نے بیٹھے بیٹھے دوتین مرتبہ دم ہلائی۔
’’ہاؤنڈ!‘‘
کتا اٹھ کرکھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنی جگہ پرکئی چکر کاٹے، پھر ذرا آگے بڑھ کردروازے سے اپنابدن رگڑنے لگا۔ اسے کمرے کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔
’’بیٹھ جاؤ، شاباش!’’
کتے نے پھر دوتین چکرکاٹے اور اس باردروازے سے لگ کربیٹھ گیا۔ مجھ کو اپنا کمرہ بہت محفوظ معلوم ہونے لگا اور اب میری آنکھوں پرنیند کی پہلی باریک جھلی سی منڈھ گئی۔ میں نے داہنی کروٹ لے کر دروازے کی طرف پیٹھ کی۔ سر کےنیچے سے ہاتھ ہٹا لیا اور میرے خیالات بے ربط ہوگئے۔ یہ نیند کی علامت تھی۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور بند کر لیں۔ لیکن جب میرے خیالوں کی بے ربطی مہملیت کی حد کو پہنچ چکی تھی اور یہ مہمل خیال بھی مجھے اپنے ذہن کے اندھیرے میں ڈوبتے معلوم ہو رہے تھے، اس وقت مجھ کو آندھی کی آواز بہت قریب سنائی دی۔
آٓندھی آرہی ہے، میں نے سوچا، پھریہ خیال بھی واہیات ہوتاہوا ڈوب رہا تھا کہ میری پشت پرکتا گرج دار آوازمیں بھونکا۔ مجھ کو ایسا محسوس ہوا میری آنکھوں اور ذہن اور جسم پرسے کھالیں سی کھینچ لی گئی ہوں۔ میں نے تڑپ کر دروازے کی طرف کروٹ لی۔ مجھ کوکتے پرغصہ آگیا تھا لیکن کتا اب اپنی جگہ پرنہیں تھا۔ وہ بھونکتا ہوا نیچے جارہا تھا اور اس کی زینہ بہ زینہ اترتی ہوئی آواز سے ظاہرتھا کہ اسے کوئی آہٹ ملی ہے اوروہ سیدھا اس آہٹ کی طرف جارہا تھا۔ اسی وقت کھلےہوئے دروازے کے باہر غبار کی ایک چادر سی گری اورباہر کا اندھیرا بھی گہرا ہونےلگا۔
’’ہوا۔‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’لیکن میں عناصر سے مرعوب نہیں ہوں۔‘‘
نیچے سے پھر کتے کی آوازآئی، لیکن اس بار اس کی آواز پھٹی ہوئی سی تھی اور اس میں اس کی مخصوص ہوک بھی شامل تھی۔ اس نے کچھ دیکھ لیا ہے، میں نے سوچا، اسی کے ساتھ آندھی نے غراہٹ کے ساتھ کمرے کے شمالی دروازے پرٹکرماری اوردروازےکےاوپر والا روشن دان کھل گیا۔ کچھ سوکھے پتے روشن دان سے داخل ہوکر کمرے کی جنوبی دیوار سے ٹکرائے اور ہلکی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ دیوار سے گھسٹتے ہوئے نیچے فرش پرآگرے۔ ان سب آوازوں پرکتےکی آواز حاوی تھی۔ وہ لگاتار بھونک رہا تھا اور ہربار اس کی ہوک زیادہ لمبی ہوتی جارہی تھی۔ میراخیال تھا کہ وہ ہوا سے لڑرہا ہے، لیکن اچانک مجھے شبہ ہواکہ میں نے ایک انسانی آواز بھی سنی ہے۔ کتے کی آواز اور تیز ہوگئی۔ میں نے کانوں پر زوردیا۔ شک کی گنجائش نہیں تھی۔ ایک گھٹی گھٹی سی آواز اورتیز ہوگئی۔ میں نے کانوں پر زور دیا۔
میں بستر سے کود پڑا۔ میں بلڈہاؤنڈ کی مضرتوں سے واقف تھا۔ اس وقت آنے والا کون ہوسکتا ہے۔ میں نے یہ نہیں سوچا۔ اس لئے کہ نیچے جوکوئی بھی تھا اس کی زندگی خطرے میں تھی۔ مجھ کوابھی ابھی یاد آیا تھا کہ میں نے آج برآمدے میں کھلنے والا دروازہ بند نہیں کیاہے اور چمن کے باہر کھلنے والا سلاخوں دار پھاٹک بھی ابھی تک کھلا ہواہے۔ میں نے پاؤں سے اپنی چپلیں ٹٹولیں اورپیروں کوان میں بٹھاتا ہوا تیزی سے زینے اترنے لگا۔
’’ہاؤنڈ!‘‘ میں زور سے چیخا، ’’نہیں، ہاؤنڈ!!‘‘
نیچے برآمدے میں پہنچ کر میں نے پھرکتے کو آوازدی۔ پھاٹک سامنے نظر ارہا تھا۔ کسی نے اسے بند کر دیا تھا۔ آندھی ابھی زمین کی طرف نہیں جھکی تھی اور اوپر کے مقابلے میں یہاں ہواکا زورکم تھا، پھر بھی چمن کے درخت باربار جھک رہے تھے اورہوا ان کی شاخوں میں الجھ رہی تھی۔ پھاٹک کے باہر فضا بہت روشن تھی اس لئے کہ سامنے حاجی زین الدین کی کوٹھی کے احاطے میں اسی ہفتے تیز دودھیا روشنی کا بلب لگایا گیا تھا۔ پھاٹک کی سلاخوں کے سائے لمبے ہوکر برآمدے کی سیڑھیوں تک پہنچ رہے تھے۔ ان سیاہ دھاریوں کے بیچ میں کتا پچھلی ٹانگوں سے مٹی اڑا اڑاکر مسلسل بھونکتے جارہا تھا۔ میں نے اسے آوازدی۔ اس نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ دو تین چھلانگوں میں وہ میرے پاس پہنچ گیا اور میرے گرد چند چکرکاٹ کر پھر واپس جانےلگا، لیکن میں نے بڑھ کر اس کا پٹا پکڑ لیا۔
’’کون؟‘‘ میں نے پکارکر پوچھا۔ میری نظریں پھاٹک کے باہر جمی ہوئی تھیں۔ کتا پھاٹک کی طرف جانے کےلئے زور لگا رہا تھا۔ میں برآمدے کی سیڑھیاں اتر کر کچھ دور تک اس کے ساتھ آگے بڑھا۔
’’کون صاحب ہیں؟‘‘ بر آمدے اور پھاٹک کےدرمیان رک کرمیں نے پھر پکارا۔ لیکن پھاٹک کے باہر کوئی نہیں تھا۔ پھربھی میں پھاٹک تک گیا اورکچھ دیر تک اس کی سلاخوں پرہاتھ پھیرتا رہا۔ پھرمیں کتے کی طرف مڑا۔
’’آؤ دوست، واپس چلیں،‘‘ میں نے کتے سے کہا، ’’کوئی ضرور تھا مگر تمہاری وجہ سے پھاٹک بندکرکے چلا گیا۔‘‘
میں کتے کوپکڑے پکڑے برآمدے کی طرف واپس ہونے لگا۔ بائیں ہاتھ کے درخت کی شاخوں سے تازہ پتے زمین پر گر کر ناچ رہےتھے۔ میں نے اوپر دیکھا۔ پتلے تنے والادرخت بہت اونچا تھا اور اس کی چوٹی ہوا کی زدمیں تھی۔ مجھ کواندیشہ ہوا کہ کہیں آندھی اس کو نقصان نہ پہنچادے، پھر مجھے خیال آیا کہ ایسی آندھیا سال میں کئی مرتبہ آتی ہیں اور درخت انہیں جھیل لے جاتا ہے۔
زمین پرپتے ادھر ادھر دوڑے اورمیں نے برآمدےکی طرف قدم بڑھایا، لیکن مجھے ٹھٹک کررک جاناپڑا۔ زمین پر پھاٹک کی سیاہ دھاریوں کے درمیان ایک نیا سایہ نمودار ہوگیا تھا۔ میں نے کتے کے پٹے پرگرفت مضبوط کرلی اورگردن موڑکر پیچھے دیکھا۔ باہر پھاٹک کی سلاخوں سے لگا ہوا کوئی کھڑاتھا۔ پیچھے سے پڑتی ہوئی تیزروشنی میں وہ خودبھی کوئی پرچھائیں معلوم ہورہاتھا۔ وہ دونوں ہاتھوں میں کچھ سامان سنبھالے ہوئے تھا اور ایک ایساسیاہ مجسمہ نظر آتاتھا جس کی کمر سینے سے دوگنی چوڑی ہو۔
’’کون؟‘‘ میں نےاپنی جگہ سے ہٹے بغیر پوچھا اور کتےکاپٹا میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ کتا بھونکتا ہوا پھاٹک کی طرف جھپٹا۔ مجسمہ تیزی سے کئی قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے بڑھ کر پھر کتے کاپٹا پکڑلیا۔
’’کون صاحب ہیں؟‘‘ میں نے پھر پکارکرپوچھا۔ لیکن جواب ملنے سے پہلے ہی آندھی زمین پرجھک آئی۔ پھاٹک کے باہر کی بھربھری مٹی پر ہواکا پہلا طمانچہ پڑا۔ غبار کا ایک بھنور سا اٹھا اور مجسمہ اس کے پیچھے چھپ گیا۔ ادھر ادھر سے کئی بگولے دوڑتے ہوئے آئے اور اس بھنور کے ساتھ مل کرناچنے لگے۔ ہوا ناہموار ہوچکی تھی۔ ایک اورجھونکے نے غبار کو سامنے سے ہٹایاتومجسمہ پھاٹک سے لگا نظرآیا۔ اس کے بال لمبےتھے اور ہوا سے اڑ رہےتھے۔ ۔
’’کون صاحب ہیں؟‘‘ میں نے ہاتھ بڑھا کر پھاٹک تھوڑا سا کھول دیا۔
’’اندر آجائیے۔‘‘
مگرپھاٹک کھلتے ہی مجسمہ پھربھڑک کرپیچھے ہٹ چکا تھا اوراب آندھی کا شور اتناتھا کہ مجھ کو خود اپنی آوازمشکل سے سنائی دےرہی تھی۔
’’اندر کیوں نہیں آتے؟‘‘ میں نے چیخ کر کہا اور اس بارمجھ کو جواب بھی ملا۔
’’کتے کو روکے رہیے۔‘‘
’’کتا نہیں بولے گا، اندرآجائیے۔‘‘
میں کتے کو پکڑے پکڑے برآمدے کی طرف بڑھنےلگا۔ زمین پرپھاٹک کی سیاہ دھاریوں کے درمیانی فاصلے کم ہوگئے۔ میری پشت پرنووارد آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہاتھا۔ بر آمدے کی سیڑھیاں چڑھ کرمیں ٹھہر گیا۔ اب نووارد میرے برابر آچکا تھا۔ حاجی زین الدین کے یہاں کی روشنی برآمدے تک آتے آتے پھیکی پڑگئی تھی، مگریہ پھیکی روشنی بھی یہ ظاہر کرنے کے لئےکافی تھی کہ آنے والا بہت خستہ حال شخص ہے۔ اس کا لباس تک سالم نہیں تھا۔ اس کا رنگ اتنا کالاتھا کہ برآمدے کی مدھم روشنی میں اس کے ناک نقشے کا ٹھیک پتا نہیں چلتا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں رسی سے لپٹا ہوا ایک بستر تھا اوردوسرے ہاتھ میں ٹین کا کنستر جس میں کبھی بناسپتی گھی رہاہوگا لیکن اب ٹین کا کنارے دار ڈھکنا اورکنڈی لگا کر اس کو زیادہ کارآمد بنا لیا گیا تھا۔ وہ میری طرف متوجہ نہیں تھا۔ اس کی نظریں کتے پرجمی ہوئی تھیں۔
’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ کاٹے گا تونہیں؟‘‘
’’نہیں۔ کہاں سے آئے ہو؟‘‘
’’ڈاکٹر صاحب سے ملنا تھا۔‘‘
’’میں ہی ہوں۔‘‘
اب اس نے مجھ کوسلام کیا۔ سلام کا انداز شائستگی سے خالی نہیں تھا۔
’’حضور ڈاکٹرصاحب!’’ اس نے ذرا رک کر کہا، ’’مجھے جان محمد نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔‘‘
’’جان محمد؟‘‘
’’جو پارسال آپ کے دواخانے میں نوکرتھا۔ مجھے وہ کان پور میں ملا تھا۔‘‘
’’جان محمدکان پور میں کیاکررہا ہے؟ آؤ، اندرآجاؤ۔‘‘
میں نے برآمدے سے ملحق ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کربلب روشن کردیا۔
’’ہوٹل میں نوکر ہے۔‘‘ نووارد دروازے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
بجلی کی تیز روشنی میں وہ اور زیادہ خستہ حال معلوم ہورہا تھا۔ اور ڈرائنگ روم کی آرائش نے اس کی شکستگی کواس قدر نمایاں کردیاتھا کہ میں اس سے سوفے پربیٹھنے کو کہتے کہتے رک گیا۔ اس کے پائجامے کی مہریاں کئی جگہ سے پھٹی ہوئی تھیں اور قمیص کی آستینیں گھس گئی تھیں۔ اس کے بالوں کے لچھے کندھوں سے کچھ اوپر جھول رہے تھے۔ چھوٹی مگر گھنی داڑھی اس کی سیاہ جلد میں مل کر اس کے چہرے کو اور بڑا دکھا رہی تھی۔ چوڑی ہڈی اورلمبے قد کا وہ خستہ حال آدمی یقیناً مرعوب کردینے والی شخصیت کا مالک تھا۔ کچھ دیرخاموش رہنے کے بعد اس نے گفتگو کاسلسلہ جوڑا:
’’جان محمد نے آپ کوسلام کہا ہے اور بغیر کہے نوکری چھوڑدینے کی معافی مانگی ہے۔ حضور ڈاکٹر صاحب وہ آدمی برا نہیں ہے۔ آپ کے تیس روپے اس پرنکلتے تھے، وہ اس نے میرے ہاتھ بھجوائےہیں۔‘‘ اس نے پائجامے کے نیفے میں سے ایک کاغذ میں لپٹے ہوئے نوٹ نکال کر مجھ کو دے دیے۔‘‘ اس نے کہا تھا لکھنؤ پہنچتے ہی ڈاکٹر صاحب کو روپےدے دینا۔ اسی لئے ناوقت آپ کوتکلیف دی۔‘‘
مجھ کو جان محمدکی ایمان داری پر ذرا حیرت ہوئی۔
’’حضور، کتے کو روک لیں تو میں چلا جاؤں۔‘‘
’’ابھی آندھی تیز ہے، کچھ دیر بیٹھ جاؤ۔‘‘ میں نے سوفے کی طرف اشارہ کیا۔
’’حضور کوزحمت ہورہی ہوگی۔‘‘
’’نہیں، کوئی بات نہیں۔‘‘ میں نے اسے پھر سوفے پربیٹھنے کا اشارہ کیا۔ نووارد کچھ دیر ہچکچانے کے بعدبڑے سوفے کے سرےسے ٹک گیا۔ اس کاسامان اس کے ہاتھ میں تھا۔ اب اس نے بستراپنے زانوؤں پر اور کنستر سامنے جوٹ کی چٹائی پر رکھا اور پہلی بار کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔ میری نگاہیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ اس شخص میں کوئی بات تھی جو میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
’’تم جان محمد کوکیوں کرجانتے ہو؟‘‘
’’ہم دونوں ایک ہی ہوٹل میں کام کرتے تھے۔‘‘
’’تم بھی ہوٹل میں کام کرتے ہو؟‘‘
’’اب الگ ہوگیا ہوں۔‘‘
’’اب کیا کرتے ہو؟‘‘
وہ کچھ دیرخاموش رہا، پھر اس کی گردن جھک گئی اور آواز دھیمی ہوگئی۔
’’جان محمد نے کہا تھا اپنے لئے بھی ڈاکٹر صاحب سے بات کرنا، وہ کوئی کام ضروردلوادیں گے۔‘‘
’’کان پور سے چلے کیوں آئے؟‘‘
’’دل نہیں لگا۔‘‘
’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘
’’یہیں لکھنؤ کا۔ سات برس باہر رہا۔ لیکن حضور ڈاکٹرصاحب، لکھنؤ والے کا اورکہیں دل بھی تونہیں لگتا۔‘‘
’’یہاں تمہارا مکان کہاں ہے؟‘‘
’’اب کہیں نہیں۔ خاندانی مکان لڑکپن ہی میں ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ والد صاحب کا انتقال آغا میرکی سرائے میں ہوا۔ والدہ مجھے لے کر ٹوریاگنج کے خیرات خانے میں اٹھ آئیں۔ وہ بھی گزرگئیں تومیں شہر چھوڑ کر نکل گیا۔‘‘
یہاں پہنچ کر وہ سیام فام شخص اونگھ گیا۔ وہ کچھ اوربھی بڑبڑایا تھا جو میری سمجھ میں نہیں آیا، البتہ ’’نواب سہراب کی حویلی’’ کے لفظ میرے کان میں پڑے اور میں نے پوچھا: ’’نواب سہراب کی حویلی کیا؟‘‘
’’حضور ڈاکٹر صاحب،‘‘ نووارد نے ہوشیارہوکر کہا، ’’نواب سہراب کی حویلی توبہت بدل گئی۔‘‘
’’ہاں، اس کومنظور صاحب نے خرید کر ٹھیک کروایاہے۔‘‘
’’یہ منظور صاحب۔۔۔‘‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا، ’’ نواب ہیں؟ نواب منظور علی خاں؟‘‘
’’نہیں، تاجر ہیں۔ منظور شاہ نام ہے۔‘‘
’’لکھنؤ ہی کے ہیں؟‘‘
’’مجھے ٹھیک معلوم نہیں۔‘‘
’’کاہے کے تاجرہیں؟‘‘
’’یہ بھی ٹھیک نہیں معلوم۔‘‘
اس کے بعد دیر تک خاموشی رہی اور باہر تیز ہوا کی ہلکی ہموار آواز سنائی دیتی رہی۔
’’یہ نواب سہراب کی حویلی۔۔۔‘‘ نووارد کہتے کہتے رکا، پھر بولا، ’’ہماری تھی۔‘‘
میں نے ذرا حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’پھر ہمارا وقت بگڑ گیا۔‘‘ اس نے سپاٹ لہجے میں کہا، ’’والدصاحب کی زندگی حویلی میں گزری مگر انتقال آغامیر کی سرائے میں ہوا۔ مجھے یاد بھی نہیں حویلی کے اندر کیا تھا۔ والدہ بتاتی تھیں۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ پھر اونگھ گیا اور اس کا سر جھکنے لگا۔ میں چپ چاپ اس کی طرف دیکھتا رہا۔
’’حضور ڈاکٹر صاحب۔‘‘ اس نے پھر ہوشیار ہوکر اپنا جھکتا ہوا سر اٹھایا، ’’آندھی کازورگھٹ گیاہے۔ کتے کوروک لیجئے۔ کل جس وقت حکم دیجئے حاضرہوجاؤں۔‘‘
مجھ کو محسوس ہواکہ اس کی بھاری آوازاچانک کھوکھلی سی ہوگئی ہے۔ مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے نظریں چرارہا ہے اور مجھ کو اپنی طرف دیکھتے دیکھ کرپریشان ہو رہا ہے۔
’’حضور کی مہربانی سے کوئی کام مل جائے تو۔۔۔‘‘ اس نے بسترکو داہنے ہاتھ میں دبایا، سامنے رکھےہوئے کنستر کوبائیں ہاتھ- اٹھاکر سوفے سے اٹھنا چاہا مگرنہ اٹھ سکا۔ دوسری کوشش میں بھی نہ اٹھ سکا۔ آخر تیسری بار اس نے جھٹکے سے خود کو اٹھایا اور اس کے منھ سے ہلکی سی آواز نکلی جسے اُس نے فوراً ہونٹ بھینچ کرروک لیا۔ اب میں نے دیکھاکہ اس شخص کا بدن کانپ رہاہے۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اٹھ کر اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔
’’ جی؟‘‘ اس نے قدرے گھبرا کر پوچھا۔
’’تم کانپ رہے ہو۔‘‘
’’جی نہیں تو۔‘‘
’’بیٹھ جاؤ۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ حضور ڈاکٹرصاحب، کتے کو روک لیجئے۔‘‘ اس نے کسی ضدی بچے کی طرح کہا۔ پھر میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اسے جانے دیاجائے۔ میں نے دروازے کے قریب جاکر کتے کواوپر جانے کا اشارہ کیا۔ کتے نے فورا تعمیل کی۔ میں نووارد کی طرف مڑا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کل صبح نوبجے مطب میں آجانا۔‘‘
نووارد نے مجھ کوسلام کیا اور دروازے سے باہرنکل کربرآمدے میں آگیا، ایک نظر اوپر کے زینوں کی طرف دیکھا اوربرآمدے کی سیڑھیاں اترگیا۔ چندلمحوں میں اس کا سایہ بھی برآمدے سے غائب ہوگیا۔ میں نے بلب بجھانے کے لئے سوئچ کی طرف ہاتھ بڑھایاہی تھا کہ باہر ایک دھماکا سا ہوا۔ اورابھی میں اس آواز کو سمجھ بھی نہ پایاتھا کہ زینے پرسے کتے کی گرج سنائی دی اور اسی کے ساتھ کتا برآمدے سے اڑکرچمن کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ میں بھی فوراً باہر نکل کربرآمدے سے نیچے اترآیا۔ سامنے پھاٹک کی سلاخوں کے سائے میرے قدموں تک آرہےتھے اورمجھ سے دس پندرہ قدم آگے وہ شخص ایک سیاہ ڈھیر کی طرح زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اس کے گرنے سے غبار کاایک پھوٹا سا بادل اٹھا تھا جو ابھی تک اس پر منڈلا رہا تھا اورحاجی زین الدین کےیہاں کی روشنی اس کی وجہ سے کچھ دھندلاگئی تھی۔ کتا خاموشی مگربے قراری کے ساتھ اس بے حرکت پڑے انسان کوہر طرف سے سونگھ رہا تھا۔ مجھ کو دیکھتے ہی کتا میری طرف لپکا، منھ سے کچھ باریک آوازیں نکالیں اور پھراس جسم کی طرف دوڑ گیا۔ میرے وہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ ہم دونوں کے درمیان کئی چکر لگا چکا تھا۔
میں اس کے قریب پہنچ کر جھکا۔ وہ زمین پر اوندھا پڑا ہوا تھا۔ بستر اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا لیکن کنستر کا کنڈا ابھی تک اس کی انگلیوں میں پھنسا ہوا تھا۔ کنستر کا ڈھکنا کھل گیا تھا اور روشنی سیدھی اس کے اندرداخل ہورہی تھی۔ کنستر خالی تھا۔ زمین پر پڑے ہوئے آدمی کا داہنا ہاتھ آگے کی طرف پھیلا ہوا تھا اوراس کی مٹھی اس طرح بھنچی ہوئی تھی جیسے اس نے زمین کو پکڑ رکھا ہو۔ پھر اس کا ہاتھ سمٹا اوربدن دوتین بار ہلا۔ اس نے کنستر کو چھوڑ کر دونو ں ہاتھوں سے زمین پر زوردیا اور اٹھنے کی کوشش کی۔ اس کا سر اور کندھے دوبالشت اوپراٹھ کرپھر زمین سے الگ ہوگئے۔ اس نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی اورمیں نے ایک گھٹنا جھکاکر اس کے دونوں بازو پکڑ لئے۔ ذرا سی کشمکش کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا، لیکن اس کی ٹانگوں میں دم نہیں تھا۔ اس نے جھک کر ایک ہاتھ سے کنستر کو پکڑا اور پھر بیٹھ گیا۔
’’چکر آرہا ہے۔‘‘ اس نے بہ ظاہر اپنے آپ کو بتایا۔ اب اس کی آواز بہت کھوکھلی ہوچکی تھی۔ میں نے اس کی کمر میں ہاتھ دے کر اسے اٹھایا۔ کنستر بھی کچھ دور تک اوپر اٹھا، پھر چھوٹ کرزمین پر گرگیا۔ کتاجو مستقل ہم دونوں کے گرد چکر کاٹ رہا تھا، لپک کرقریب آیا اور کنستر کوسونگھنے لگا۔
’’چکر آگیا تھا۔‘‘ نووارد نے مجھ کو بتایا۔
میں اس کو سہارا دیے دیے برآمدے کی سیڑھیوں تک لایا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس شخص پربے ہوشی طاری ہونے لگی اورجب تک میں اس کوڈرائنگ روم کے سوفے پرلٹاؤں وہ بالکل غافل اوربے حرکت ہوچکا تھا۔ مجھ کو اس کے زندہ ہونے میں شک تھا۔ اس کا سیاہ چہرے اوربال گردسے اٹ گئے تھے۔ اس کے داہنے ہاتھ کی مٹھی کھل گئی تھی اور اس میں سے مٹی نکل کر جوٹ کی چٹائی پر گررہی تھی۔
میں نے اس کی نبض پرہاتھ رکھا، پھرتیزی سے اوپرگیا۔ کتابھی میرے پیچھے ہولیا۔ اوپر سے اسٹیتھوسکوپ لےکرمیں واپس نیچے آیا۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ اندر سے بندکرکے مڑا۔ نووارد اب بھی سوفے پربے حرکت پڑا ہواتھا۔ میں نے اس کامعائنہ کیا اور اس معائنے کے بیچ میں اس نے آنکھیں کھول دیں۔ لیکن یہ آنکھیں شیشے کی سی تھیں اوران میں کچھ نہیں تھا۔ میں نے اس کے چہرے کوغور سے دیکھا۔ اس کے خدوخال اچھے تھے۔ اس کی آنکھوں کے گرد باریک جھریاں تھیں۔ اگرچہ یہ جھریاں اس کے سیاہ رنگ میں دب نہ گئی ہوتیں تو وہ زیادہ معمر معلوم ہوتا۔ اس کی آنکھیں اس کے چہرے پرنمایاں تھیں اوراس حالت میں ایک لاش کی طرح پڑا ہوا وہ بہت مطمئن اورآسودہ حال معلوم ہورہا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں میں ہوش جھلکنے لگا۔ اس کی پلکیں تھرتھرائیں۔ اس نے مجھ کو پہچاننے کی کوشش کی اور پہچان لیا۔ پھر اس نے اٹھناچاہا اوراس کی آنکھوں سے کرب ظاہر ہونے لگا۔ میں نے اس کے سینے پر آہستہ سے ہاتھ رکھ کر اسے اٹھنے سے روکا۔
’’لیٹے رہو۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیا تکلیف ہے؟‘‘
’’میں جاؤں گا،’’ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا اورپھر اٹھنا چاہا۔
’’ابھی تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا اور اپنا سوال دہرایا۔
’’کیا تکلیف ہے؟‘‘
’’تھکن، چکراور۔۔۔‘‘ وہ رک گیا۔ پھر بولا، ’’بہت تکلیف ہے۔‘‘
میں معائنہ ختم کرچکاتھا۔
’’اچھا لیٹے رہو، ’’ میں نے کہا، ’’دوادیتا ہوں۔ ٹھیک ہوجاؤگے۔‘‘
میں نے دروازے کاہینڈل گھمایا۔ دروازہ کھولنے سے پہلے میں نے سرگھماکر ایک نظر مریض کودیکھا اور میرا ہاتھ ہینڈل پر رکھا رہ گیا۔ باہر سے دروازے پردباؤ پڑا۔ دروازہ تھوڑا کھل گیا۔ کتے کا سراندرداخل ہوا اورہوا کی آواز صاف سنائی دینے لگی۔ میں مڑا اور تیزقدموں سے مریض کے سرہانے میں پہنچا۔
’’سنو!’’میں نے مریض پرجھک کرآہستہ سے پوچھا، ’’آج تم نے کیا کھایا تھا؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
’’’کل؟‘‘
مریض خاموش رہا۔
’’کل تم نے کچھ کھایا تھا؟‘‘
مریض پھر خاموش رہا۔
’’کب سے بھوکے ہو؟‘‘ میں نے ذرادرشتی سے پوچھا۔ میری آواز بہ ظاہر مریض کوسنائی نہیں دی۔
’’تم کب سے بھوکے ہو؟‘‘ میں نے اپنا سوال دہرایا۔ مریض کی آنکھیں بے نورہوچکی تھیں لیکن وہ ہوش میں تھا۔ اس کے اودے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ اب میں نے بہت نرم لہجے میں اس سے پوچھا:’’تم نے کب سے کچھ نہیں کھایاہے؟‘‘ مریض نے کوئی جواب نہیں دیا۔
دروازے کے اندر منھ ڈالے کتاہانپ رہاتھا اور باہرہوا ٹین کے خالی کنستر کو ادھر سے ادھر لڑھکاتی پھر رہی تھی۔ میں کچھ دیرخاموش کھڑا رہا۔ پھر اوپر آگیا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کرمیں نے سوچنے کی کوشش کی کہ مجھے کیا کرناہے۔ میں نے اپنے بستر پربیٹھ کر تکیے سے ٹیک لگالی اور ذہن پر زور دینے لگا۔ مجھے چپلیں اپنے پیروں سے نکلتی محسوس ہوئیں۔
شمالی روشن دان میں سے گرتے ہوئے سوکھے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ سے میری آنکھ کھلی۔ میں اٹھ بیٹھا اور چپلیں پہنتا ہوا نیچے اترا۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ باہر سے بند تھا۔ میں نے دروازہ کھول کراندر جھانکا۔ پھر میں برآمدے کے کھلے ہوئے دروازے سے نیچے اترا۔ سلاخوں دار پھاٹک بھی کھلا ہوا تھا۔ میں نے پھاٹک بند کر دیا اور کچھ دیر وہیں کھڑا رہا۔ آندھی تیز ہوگئی تھی۔ مجھ کو اپنے پیروں کے پاس کتے کی موجودگی کا احساس ہوا۔
’’آؤ دوست، واپس چلیں۔‘‘ میں نے کتے سے کہا اور برآمدے کی طرف مڑ گیا۔ برآمدے کا دروازہ بند کرکے میں اوپراپنے کمرے میں پہنچا۔
بسترپرلیٹتے ہی میرے خیالات بے ربط ہوگئے۔ ایک خیال میری زبان پرآیا: ’’وہ بھی عناصر سے مرعوب نہیں تھا،‘‘ پھریہ خیال طرح طرح کی مہمل مشکلیں اختیارکرنے لگا۔
’’پھر بھی جانوس، تم نے انتظار نہیں کیا۔‘‘ میں نےکہا اور سو گیا۔
نیر مسعود