تجھ سے وابستہ ہر اک یاد بھلا دی جائے
دل کی تختی سے یہ تحریر مٹا دی جائے
اس کو تنہائی کا احساس نہ ہو جلتے ہوئے
آخری شمع بھی کمرے کی بجھا دی جائے
یوں تو سب مرثیے پڑھتے ہو نا بر نامِ حسین
پھر یہ ڈر بھی ہے کہ گردن نہ اڑا دی جائے
یہ ہوا مجھ کو نہ دھمکائے دوبارہ اس سے
دل میں اب تیری عمارت بھی گرا دی جائے
اور رسوا نہ کرو پا بہ رسن شہر کے بیچ
اب اسیرِ غمِ ہجراں کو سزا دی جائے
کب سے بیٹھے ہو یہی بات لئے تم بھی جلال
کیوں نہ اب یہ کسی اور سمت بڑھا دی جائے
محمد حذیفہ جلال