صرف آواز کا فاصلہ تھا
وہ وگرنہ برابر کھڑا تھا
پھول بھیجے نہیں جا سکے تھے
بیگ میں خط پڑے رہ گئے تھے
بیل دیوار سے بڑھ گئی تھی
رابطہ بوجھ بننے لگا تھا
خود کو عجلت میں آدھا سمیٹا
وقت سے پہلے چلنا پڑا تھا
دیر سے سوچنے کی سزا میں
دور تک سوچنا پڑ۔گیا تھا
تیری تصویر سے گفتگو کی
اور دیوار کو در کیا تھا
زندگی کھانستی تھی رگوں میں
سانس نے جسم کو پی لیا تھا
منیر جعفری