- Advertisement -

اسی دو راہے پر

ساحرؔ لدھیانوی کی اردو نظم

اسی دو راہے پر

اب نہ اُن اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا
میں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
اپنی نادار محبت کی شکستوں کے طفیل
زندگی پہلے بھی شرمائی تھی جھنجلائی تھی

اور یہ عہد کیا تھا کہ بہ ایں حال تباہ
اب کبھی پیار بھرے گیت نہیں گاؤں گا
کسی چلمن نے پکارا بھی تو بڑھ جاؤں گا
کوئی دروازہ کھلا بھی تو پلٹ آؤں گا

پھر ترے کانپتے ہونٹوں کی فسوں کار ہنسی
جال بننے لگی، بنتی رہی، بنتی ہی رہی
میں کھنچا تجھ سے ، مگر تو مری راہوں کے لیے
پھول چنتی رہی، چنتی رہی، چنتی ہی رہی

برف برسائی مرے ذہن و تصور نے مگر
دل میں اک شعلۂ بے نام سا لہرا ہی گیا
تیری چپ چاپ نگاہوں کو سلگتے پا کر
میری بیزار طبیعت کو بھی پیار آ ہی گیا

اپنی بدلی ہوئی نظروں کے تقاضے نہ چھپا
میں اس انداز کا مفہوم سمجھ سکتا ہوں
تیرے زر کار دریچوں کی بلندی کی قسم
اپنے اقدام کا مقسوم سمجھ سکتا ہوں

اب نہ اُن اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا
میں نے اک بار یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی
اسی سرمایہ و افلاس کے دو راہے پر
زندگی پہلے بھی شرمائی تھی جھنجھلائی تھی

ساحر لدھیانوی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ساحرؔ لدھیانوی کی اردو نظمi